جولائی سے پہلے افغان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں: زلمے خلیل زاد طالبان کے ساتھ حساس اور پیچیدہ معاملات پاکستان کی مدد سے حل کیئے گئے، امریکا کے خصوصی ایلچی کا تقریب سے خطاب

 
0
1076

واشنگٹن فروری 09 (ٹی این ایس): امریکا کے افغانستان کے لیے خصوصی سفیر افغانستان زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ دوحہ میں امریکہ طالبان امن مذاکرات حساس اور پیچیدہ تھے جو پاکستان کی مدد سے حل کیئے گئے ہیں. یقینی طور پرپاکستان نے سہولت کار کا مثبت کردار ادا کیا جس سے نہ صرف امریکی مفادات بلکہ افغانستان میں امن کی بحالی سے نہ صرف پورے علاقے اور وسطی ایشیا اور پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا.یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس واشنگٹن میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اور ماضی میں ہمارے قریبی اور بہتر دو طرفہ تعلقات رہے ہیں جن کو مزید مستحکم بنایا جائے گا. زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امن اور مفاہمت کے حوالے سے پاکستان نے جو کام کیا ہے وہ قابل تحسین ہے اور واشنگٹن اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے.انہوں نے کہا کہ افغان طالبان کے سربراہ، ملا غنی برادر امن کے حامی ہونے کا شہرہ رکھتے ہیں اور توقعات یہی ہیں کہ امن سمجھوتا طے کرنے میں وہ معاون ثابت ہوں گے. انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر حقانی نیٹ ورک کا معاملہ امن پر ایک بوجھ رہا ہے جس دوران پاکستان کا کردار کسی طور پر بھی مثبت نہیں تھا لیکن، دوحہ بات چیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کھل کر اقدام کیے اور مثبت سہولت کار کا کام انجام دیا، جو بات قابل ستائش ہے.انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقے کا ایک اہم ملک ہے، امن کی بحالی ایک اچھا موقعہ ہے جس کا تمام فریق اور وسط ایشیا کے علاوہ پاکستان سمیت خطے کو فائدہ ہوگا. ایک اور سوال کے جواب میں خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ ماسکو میں روس کی سرپرستی میں افغان سیاسی راہنماﺅں اور طالبان کے درمیان دو روزہ بات چیت کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن اس کے بارے میں فی الحال کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی‘اس کے کامیاب ہونے کا دارومدار دوحہ بات چیت کے اگلے دور پر ہوگا.انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے‘ 20جولائی کو افغانستان میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، بہتر ہوگا کہ بین الافغان اور افغان قیادت والی بات چیت کسی سمجھوتے تک پہنچ جائے جس کے ملکی مستقبل پر تابناک اثرات مرتب ہوں گے. زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا محور امریکی فوج کا انخلا نہیں بلکہ امن سمجھوتا کرنا تھا جو سب کے بہترین مفاد میں ہوگا‘انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کے تنازعے کے خاتمے کے لیے امن عمل میں سہولت کاری کی کوششیں تیز کردی ہیں جن کا مقصد امریکی قومی سیکورٹی مفادات کو محفوظ بنانا اور افغانستان کے اقتدار اعلیٰ کو تقویت دینا ہے.زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ افغان جنگ اسی سال ختم ہو جائے اور ہمارے فوجی گھروں کو لوٹ آئیں. حاضرین کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغان امن مذاکرات کو تیز کرنے میں مدد کرنے کے لیے پاکستان نے افغان لیڈر ملا برادر کو ان کی درخواست پر رہا کیا تھا‘ہم نے طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی فورسز کی واپسی کے لیے شرائط پر تبادلہ خیال کیا لیکن اس معاملے پر ابھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا.تاہم امریکا اور طالبان ایک فریم ورک پر پہنچ گئے ہیں اور حتمی نتائج تک پہنچنے کے لیے مزید بات چیت کی ضرورت ہے. امریکا طالبان مذاکرات کو آسان بنانے میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ اسلام آباد نے ایک تعمیری کردار ادا کیا اور ان کی درخواست پر ملا برادر کو رہا کیا‘ واشنگٹن نے ملا برادر کی رہائی کی درخواست کی تھی کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ افغان امن کے آغاز میں سینئر طالبان رہنما بھی تعمیری کردار ادا کرسکتے ہیں.انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سابق حکومتیں چاہے وہ طالبان کی تھی یا کسی اور کی، وہ اس لیے ناکام ہوئیں کیونکہ انہوں نے اپنے نظریات نافذ کرنے کی کوشش کی‘انہوں نے کہا کہ دوحہ میں انہوں نے اس فرق کا مشاہدہ کیا کہ یہ احساس ہے کہ یہ نقطہ نظر کام نہیں کرے گا ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ طالبان سمیت تمام فریقین اب ایک دوسرے کو جگہ دینے کو تیار ہیں.ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی اور ہماری کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان کے ساتھ جولائی سے پہلے امن معاہدہ ہو جائے. ایک اور سوال کے جواب میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ طالبان فوری طور پر جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی کو جولائی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امید وار فائدہ ہو گا.