وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کر دی

 
0
370

بھارت کو اب بھی کہتا ہوں کہ آئیں مذاکرات کرتے ہیں ۔ جنگ چھڑ گئی تو اسے ختم کرنا نہ میرے ہاتھ میں ہو گا نہ مودی کے، کارروائی کا مقصد بھارت کو یہ بتانا تھا کہ پاکستان بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا قوم سے خطاب

اسلام آباد فروری 27 (ٹی این ایس): وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان نے ایک مرتبہ پھر بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کر دی اور کہا کہ اگر آپ کسی بھی قسم کی بات چیت یا مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو ہم بالکل تیار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں موجودہ صورتحال پر عوام کو اعتماد میں لیا اور کہا کہ بھارت کی جانب سے جو کارروائی کی گئی اس پر میں اپنی قوم کو اعتماد میں لینا چاہتا تھا ۔ہم نے پلوامہ حملے کے بعد بھارت کو مکمل پیشکش کی کہ وہ جس قسم کی بھی تحقیقات چاہتے ہیں ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ پلوامہ میں بھارتی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے اور مجھے پتہ ہے کہ لوگوں کو ان کے لواحقین کو کس قسم کی تکلیف پہنچی ہو گی کیونکہ پاکستان میں دس سال میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور ان دس سالوں میں میں نے کئی اسپتالوں میں متاثرین کی عیادت کے لیے دورے کیے جہاں میں نے دیکھا کہ کسی کی بازو نہیں ہے، کسی کی ٹانگ نہیں ہے، کسی کی آنکھ نہیں ہے۔اسی لیے مجھے پتہ ہے کہ ایک تو جو لوگ اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اُن کے لواحقین پر اور ایک جو حملوں میں زخمی ہو جاتے ہیں ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے۔ اسی لیے ہم نے سیدھا سیدھا بھارت کو پیشکش کی کہ کسی طرح کی بھی تحقیقات چاہتے ہیں اور اگر اس میں کوئی بھی پاکستانی ملوث ہے تو ہم اس میں مکمل تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ کہیں بھی دہشتگردی کے لیے پاکستان کی زمین استعمال کی جانا ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔نہ ہی یہ بات ہمارے مفاد میں ہے کہ باہر سے کوئی آ کر پاکستان کی زمین استعمال کرے۔ تو اسی لیے اس میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ ہم بھارت سے مکمل تعاون کے لیے تیار تھے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے خدشہ تھا کہ ہندوستان کوئی ایکشن لے گا ، اسی لیے میں نے کہا تھا کہ اگر آپ نے پہل کی تو ہماری مجبوری ہو گی کہ ہم ایکشن لیں کیونکہ کوئی بھی کود مختار ملک کسی ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کے ملک کے اندر کارروائی کرے اور خود ہی فیصلہ کرے کہ اس نے جُرم کیا ہے اور جج ، عدلیہ اور انتظامیہ بن جائے اور سزا بھی خود ہی سنا دے۔انہوں نے کہا کہ مجھے ہندوستان کی جانب سے خدشہ اس لیے تھا کیونکہ بھارت میں الیکشن ہیں، مجھے لگ رہا تھا کہ کوئی ایکشن لیا جائے گا اسی لیے میں نے بھارت کو کہا کہ ہمیں جوابی کارروائی کرنی پڑے گی۔ جب کل صبح بھارت نے ایکشن لیا۔ صبح میری ، ائیر چیف اور آرمی چیف کی بات ہوئی۔ کل صبح کارروائی نہ کرنے کی وجہ صرف یہی تھی کہ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ ہمارا کس قسم کا نقصان ہوا ہے۔اگر ہم بغیر معلومات اور تحقیقات کے بھارت پر حملہ کرتے تو ایسا کرنا پاکستان کی جانب سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ ہونا تھا۔ اگر ہم ایکشن لے لیتے اور بھارت میں جانی نقصان کر دیتے جبکہ ہمارا اپنا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا تو یہ غیر ذمہ داری ہوتی لہٰذا ہم نے انتظار کیا۔ اور آج ہم نے ایکشن لیا ۔ ہمارا پہلے سے ہی یہی منصوبہ تھا کہ کوئی تباہی نہ ہو۔ہم صرف بھارتی حکومت کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ ہم میں بھی صلاحیت ہے اگر آپ ہماری زمین میں آسکتے ہیں تو ہم بھی آپ کے ملک میں جا کر کارروائی کر سکتے ہیں۔ بھارت کے دو طیاروں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جنہیں تباہ کیا گیا۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت کے پائلٹس ہمارے پاس ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم ادھر سے کدھر جائیں گے۔انہوں نے بھارت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکمت اور عقل استعمال کرنا بے حد ضروری ہے۔دنیا میں اس سے قبل جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں مس کلیکولیشن ہوئی۔ کسی نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جو جنگ شروع کر رہے تھے وہ جنگ کدھر جائے گی۔ پہلی جنگ عظیم کو مہینوں میں ختم ہونا تھا لیکن اسے ختم ہونے میں چھ سال لگ گئے۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہوا اورتباہی پھیلی۔اسی طرح دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کیا امریکہ نے سوچا تھا کہ وہ افغانستان میں سترہ سال تک پھسنے رہیں گے ، کیا ویت نام جنگ میں امریکہ نے سوچا تھا کہ یہ جنگ اتنی دور جائے گی ؟ دنیا کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جنگوں میں مس کلیکولیشن ہوتی ہے۔ میرا بھارت سے یہ سوال ہے کہ جو ہتھیار آپ کے اور ہمارے پاس ہیں ، کیا اس صورتحال میں ہم مس کلیکولیشن افورڈ کر سکتے ہیں۔کیا ہمیں اس وقت سوچنا نہیں چاہئیے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو یہ کدھر جائے گی ، نہ یہ جنگ میرے کنٹرول میں ہو گی نہ نریندر مودی کے ،اسی لیےمیں آپ کو پھر سے دعوت دیتا ہوں ، ہم تیار بیٹھے ہیں۔ ہم نے آپ سے کہا کہ پلوامہ حملے میں آپ کو جو دکھ پہنچا ہے اس حوالے سے کوئی تحقیقات یا بات چیت کرنا چاہتے ہیں، دہشتگردی پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں۔ لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ اس وقت عقل و فہم کی ضرورت ہے، ہمیں بیٹھ کر بات چیت سے مسائل کا حل نکالنا چاہئیے۔