وزیراعظم نوازشریف کے بچے فلیٹ خریدنے کے لیے دی گئی رقم کا ذریعہ ثابت نہ کر سکے تو اس کانتیجہ وزیراعظم کو بھگتنا ہو گا، جسٹس اعجاز افضل

 
0
426

اسلام آباد جولائی20(ٹی این ایس): سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم نوازشریف کے بچے لندن کے فلیٹ خریدنے کے لیے دی گئی رقم کا ذریعہ ثابت نہ کر سکے تو اس کے نتائج پبلک آفس ہولڈر وزیراعظم نوازشریف پر مرتب ہوں گے۔1993 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ فلیٹ نہیں خرید سکتے۔ الزام یہ ہے کہ فلیٹس وزیراعظم نے خریدے اور درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیراعظم اس کے لیے استعمال شدہ رقم کا ذریعہ بتائیں۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بادی النظر میں عدالت میں جعلی دستاویزات پیش کی گئی ہیں اورعدالت میں جعلی دستاویزات پیش کرنے کی سزا سات سال قید ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس جعلسازی کے بارے میں قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔عدالت نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیلیبری فونٹ کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے اور ماہرین کی رپورٹ میں مریم نواز کے دستخطوں کو بنیاد بنایا گیا ہے اور یہ غلطی ایک جیسی ہی ہے۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ چار فروری کو جب یہ دستخط کیے گئے اور فونٹ استعمال ہوا وہ ہفتے کا دن تھا اور برطانیہ میں عام تعطیل تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق نوٹری پبلک سے جب کروائی گئی اس دن بھی ہفتہ تھا۔کیلیبری فونٹ کے حوالے سے جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا کوئی قانونی فرم فونٹ چوری کرکے استعمال کر سکتی ہے؟ان کا کہنا تھا کہ یہ کام کالج یا یونیورسٹی کا کوئی طالبعلم تو کر سکتا ہے لیکن قانونی فرم نہیں کر سکتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اس بارے میں لا فرم لکھا تھا لیکن انھوں نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مونزیک فونسیکا کے مطابق ان فلیٹس کی مالک مریم نواز ہیں اگر ایسا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ان کے پاس فنڈز کہاں سے آئے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے، ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالتا ہے۔سلمان اکرام راجہ نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ لندن کے فلیٹس 1993 اور 1995 کے درمیان خریدے گئے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ الزام تو یہ بھی ہے کہ یہ فلیٹس آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے گئے ہیں۔بینچ کے سربراہ اعجاز افضل نے کہا کہ الزامات یہ بھی ہیں کہ جس وقت یہ فلیٹس خریدے گئے اس وقت حسن اور حسین نواز کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اور درخواست گزار یہ بھی کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے یہ پیسے ادا کیے ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہم نے جو آپ سے سوال پوچھنے ہیں کیا پہلے اخبار میں اشتہار دیں پھر آپ جواب دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا آپ کے موکل کے پاس مختارنامہ ہے کہ دو حصہ داروں کی رقم ادا کر دی گئی ہے۔سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اگر کوئی عدالت میں نہیں گیا تو بادی النظر میں یہ بات طے ہے کہ ادائیگیاں کر دی گئی ہوں گی۔ اگر یہ حصہ دار چاہیں تو عدالت میں اپنا موقف دے سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وہ ڈاکومنٹس دکھائیں کہ جن میں باقی دو حصے داروں کے شیئرز حسین نواز نے خرید لیے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 65 ملین حسین نواز کو ملے اور وہ اسے استعمال کرنے کے مجاز تھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سلمان اکرام راجہ سے سوال کیا کہ وہ دستاویزات دکھائیں کہ آپ نے باقی دو حصے داروں کی ادائیگیاں بھی کر دی ہیں۔اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ دستاویزات جیب میں موجود نہیں کہ نکال کر دکھا دوں۔ان کے اس جواب پر جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لیے ہی جے آئی ٹی بنائی گئی تھی۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عزیزیہ مل کے واجبات کسی خفیہ شخص نے ادا کیے ہیں۔اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں معلوم کروں گا کہ یہ واجبات کس نے ادا کیے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا قطری خاندان کے ساتھ قابل قبول ہیں تو سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ یقیناً ایسا ہی ہے اور ان سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا-جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نجی کمپنی حسین نواز کے بارے میں کچھ بھی لکھ سکتی ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی رانگ ڈوئنگ کا معاملہ سامنے نہیں آیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رائٹ ڈوئنگ کے بارے میں بھی تو کچھ نہیں کہا گیا۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رونگ ڈوئنگ کا ثبوت سامنے آئے تب ہی نیب کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔اس پر جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ اثاثوں میں عدم توازن پایا جائے تو نیب کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور جس کی جائیداد ہے اس کو وضاحت دینا ہوگی-سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ برٹش ورجن آئی لینڈ اور ایف آئی اے فنانس انویسٹی گیشن اتھارٹی یو کے درمیان خط و کتابت خفیہ تھی۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ جب سے پاناما کا معاملہ سامنے آیا ہے کیا آپ نے موزیک فونسیکا سے رابطہ کیا ہے، کیا آپ یہ چاہتے ہیں باہمی قانونی معاونت ایم ایل اے کے تحت جو دستاویزات سامنے آئی ہیں اس کو مسترد کر دیا جائے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت نان ریزیڈنٹ پاکستانی کی جائیداد کی تحقیقات نہیں کر سکتی۔ نجی کمپنی کی جو دستاویزات دی ہیں انھیں تسلیم کر لیا جائے۔