بزنس کمیونٹی کے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے حوالے سے مقدمات ایف بی آر کو بھیجیں گے، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں فرق ہے،

 
0
268

اسلام آباد اکتوبر 03 (ٹی این ایس): قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی کے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس کے حوالے سے مقدمات ایف بی آر کو بھیجیں گے، ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ میں فرق ہے، منی لانڈرنگ جرم ہے، سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے کئی مقدمات نیب کو بھیجے ہیں، نیب مکمل تحقیقات اور انکوائری کے بعد ریفرنس دائر کرتا ہے، پانامہ سکینڈل کے حوالے سے دیگر کیسز بھی چل رہے ہیں، منزل کا تعین کرلیا ہے، پاکستان کو کرپشن فری بنانا ہے، نیب عوام دوست ادارہ ہے، نیب نے بزنس کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلئے ایک کمیٹی قائم کی ہے جس میں ملک بھر سے ایوان صنعت و تجارت کے نمائندے شامل ہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت لاہور میں بزنس کمیونٹی اور ممتازصنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سینئر نائب صدر سارک چیمبر آف کامرس افتخار علی ملک اور سینئر نائب صدر وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت عبدالرئوف موجود تھے۔ ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور شہزاد سلیم بھی تقریب کے دوران موجود تھے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ نیب اقدامات سے بزنس کمیونٹی پریشان ہے، بزنس کمیونٹی سے حقائق پر بات کروں گا، نیب کے کسی اقدام سے تاجر برادری کیلئے مشکلات پیدا نہیں ہوئیں اور نہ ہوں گی، نیب کے اقدامات سے بزنس کمیونٹی پریشان اور نہ ہی اس کو پریشان ہونے کی ضرورت ہے، نیب کے اقدامات سے نیب ملک میں بزنس کے فروغ کیلئے بزنس کمیونٹی کی مکمل مشاورت سے اپنے فرائض قانون کے مطابق سرانجام دینے پر یقین رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب تاجر دوست ادارہ ہے، نیب سے متعلق باتیں غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور کاروبار میں فرق ہوتا ہے۔ منی لانڈرنگ قانونی طور پر جرم ہے، منی لانڈرنگ کے بہت سے کیسز سپریم کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے ہیں، یہ ٹیکس چوری نہیں ہے کیونکہ منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے اکتوبر 2017ء کے بعد ٹیکس چوری کا کوئی کیس شروع نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ شروع کریں گے۔
ایسے مقدمات ایف بی آر کو بھیجیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بینک نادہندگی کے مقدمات میں نیب براہ راست کارروائی نہیں کرتا۔ اسٹیٹ بینک یہ کیس نیب کو بھجواتا ہے، جب بینک اور صارف کے درمیان بات چیت ناکام ہو جاتی ہے تو وہ اس پر کارروائی شروع کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بینک اور تاجروں کا کاروبار کے لئے چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تاجر قرض لیتے ہیں اور اقساط میں واپس کرتے ہیں، اگر تاجر قرض واپسی کا اپنا وعدہ پورا نہیں کریں گے تو بینک کارروائی کرے گا۔
نیب نے بینک نادہندگی کے مقدمات میں بینک کی شکایت کے بغیر کوئی اقدام نہیں اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اقبال زیڈ احمد کے کیس کا ذاتی حیثیت میں جائزہ لے رہا ہوں، ملکی قوانین کے تحت جزا و سزا کا نظام موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کے دیگر مقدمات پر بھی کارروائی جاری ہے۔ بیرون ملک سے بعض مقدمات کا ریکارڈ جلد ملنے پر کارروائی میں تیزی آئی۔
انہوں نے کہا کہ اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے ایک دن الله کے سامنے پیش ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر طبقہ معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، تاجر خوشحال ہو گا تو ملک خوشحال ہو گا، اس نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر نیب اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 342 ارب روپے بدعنوان عناصر سے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے ہیں جو کہ نمایاں کا میابی ہے جبکہ گزشتہ 22 ماہ کے دوران 71 ارب روپے بدعنوان عناصر سے برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب کے مقدمات میں ان افراد کے نام ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے، ان کے پاس 1980ء میں کچھ نہیں تھا لیکن آج وہ دبئی میں پلازوں کے مالک ہیں، ان کے پاس یہ رقم کہاں سے آئی۔ انہوں نے کہا کہ نیب مقدمات کی تفتیش کے دوران کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرتا، عزت و احترام اور وقار سے انہیں نیب میں طلب کیا جاتا ہے، میں نے جج کی حیثیت سے ہمیشہ لوگوں کے دکھوں کا مداوا کیا ہے اور اب بھی لوگوں کے دکھوں کے مداوا کی کوشش کر رہا ہوں، انہوں نے کہا کہ ملکی مفاد، ضمیر، پاکستان کی بہتری، معیشت کی بہتری، دیانتداری سے کام کرنے والے اور ہزاروں مزدوروں کو روزگار دینے والے تاجروں کو کسی صورت بھی ہراساں نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیب میں مقدمات کو شروع اور ختم کرنے سے پہلے ان کے قانونی پہلوئوں پر غور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں کیونکہ انہوں نے غریب لوگوں سے ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی لوٹی ہے۔ انہوں نے لوگوں کو نہ پلاٹ دیئے ہیں اور نہ ان کی رقوم واپس کی ہیں جس کے باعث وہ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وائٹ کالر کرائمز کی تفتیش پیچیدہ کام ہے، کیس لاہور سے شروع ہوتا ہے اور املاک بیرون ملک ملتی ہیں۔ بیرون ملک سے معلومات کے حصول کے لئے معاہدہ ہونا ضروری ہے، غریبوں کے خون پسینے کی کمائی کے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک بھاگ جانے والوں کو نیب کسی صورت نہیں چھوڑے گا چاہے وہ دنیا کے کسی گوشے میں چلے جائیں، ان کا پیچھا کریں گے، ان سے لوٹی گئی دولت واپس لائیں گے اور غریبوں تک پہنچائیں گے، یہ میرا فرض ہے، موجودہ دور میں کوئی خوف، حمایت، ڈر، سفارش اور اثر و رسوخ نیب افسران پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، نیب افسران قانون کے مطابق بد عنوانی کے خاتمہ کو اپنا قومی فرض سمجھ کر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کی شکایات کو فوری طور پر نمٹانے کیلئے نیب ہیڈ کوارٹرز میں خصوصی ڈیسک قائم کیا گیا ہے جہاں پر ڈائریکٹر سطح کا افسر موجود ہوتا ہے، اسی طرح نیب کے علاقائی بیوروز میں بھی خصوصی ڈیسک قائم کئے گئے ہیں۔ گزشتہ چار ماہ اور 28 دن کے دوران اس خصوصی ڈیسک کو تاجر برادری کی طرف سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی حالانکہ خصوصی ڈیسک پر موجود نیب افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 24 گھنٹے میں تاجروں کی شکایات کا ازالہ کرے، ایسا نہ ہونے کی صورت میں، میں ذاتی طور پر تین دن میں ان کی شکایات کا ازالہ کروں گا۔
ایسا یورپی اور مغربی ممالک میں بھی نہیں ہوتا کہ اتنی تیزی سے شکایات کا ازالہ کیا جائے۔ ہم نے یہ اقدام اس لئے اٹھایا ہے کیونکہ نیب تاجر برادری کے مفادات کے تحفظ کیلئے موجود ہے، ذاتی مفاد کی بجائے ملکی مفاد کو تحفظ دینے والے تاجر کے مفاد کو تحفظ دیا جائے گا، بلاتفریق تمام طبقوں کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، ملک 100 ارب ڈالر کا مقروض ہے، یہ پیسے ملک کی ترقی کیلئے لئے گئے تھے لیکن ان کو عوام پر خرچ نہیں کیا گیا، اس پیسے کو خرچ کرنے والوں کو جوابدہ بنانا میرا فرض ہے اسے پہلے بھی پورا کر رہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ نیب کسی فیس کو نہیں کیس کو دیکھتا ہے، جو کرے گا وہ بھرے گا، نیب کا کسی گروہ، گروپ، مفاد اور شخص سے کوئی تعلق نہیں، ہمارے مفادات اور وفاداریاں پاکستان اور پاکستانی عوام سے ہیں، ہمارا مقصد کمزور معیشت کو بہتر کرنا اور اربوں روپے باہر لے جانے والوں سے لوٹی گئی رقم واپس لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد الله کی خوشنودی اور ملکی بہتری کے لئے انصاف کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔
ملک میں ہسپتالوں اور تعلیمی شعبہ کی صورتحال ابتر ہے۔ بچوں کا مستقبل تباہ ہو رہا ہے، جب ذمہ داروں کو گرفتار کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ نیب نے معماران قوم کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہی لوگ نوجوانوں کا مستقبل تباہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی یہ عہد کرے کہ وہ بدعنوانی نہیں کرے گا اور اپنا احتساب خود کرے گا تو اس سے حالات بہتری کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نیب پر یکطرفہ احتساب کا الزام لگایا جاتا ہے حالانکہ جن کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے وہ 35 سال سے اقتدار میں رہے جبکہ دوسروں کو اقتدار میں آئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے۔ ہوائوں کا رخ تبدیل ہوا ہے اور موسم بدلا ہے۔ جن شخصیات کے خلاف کوئی کارروائی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وہ اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں، جو کرے گا وہ بھرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہر چیز نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں، میڈیا پر جب نیب کے خلاف پروگرام کئے جاتے ہیں تو اس وقت نیب کی کارکردگی کو دیکھنا چاہئے اور نیب کا موقف لینا چاہئے۔ کہا جاتا ہے کہ میں سعودی عرب کی طرز پر بدعنوان عناصر سے ریکوری کروں حالانکہ مجھے گرفتار ملزم کو 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ سعودی عرب میں بادشاہت ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیب طاقتور مافیا کے خلاف سرگرم عمل ہے جس کے باعث ہمارے خلاف الزام تراشی کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلا امتیاز احتساب کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دھمکیاں دی گئیں، موت کا وقت اٹل ہے، کسی ڈر، خوف کے بغیر احتساب کا عمل جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ منزل کا تعین کرلیا ہے، پاکستان کو کرپشن فری بنانا ہے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب 1998ء میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نیب نے تاجر برادری کی شکایات کے ازالہ کے لئے تاجر نمائندوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی میں ملک بھر سے ایوان صنعت و تجارت کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں ملکی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لئے سہولیات دی گئی ہیں۔ وہ اس کے مطابق اطمینان سے اپنا کاروبار اور سرمایہ کاری کریں۔
نیب ان سے نہیں پوچھے گا۔ انہوں نے کہا کہ قانون میں ترمیم پارلیمنٹ کا کام ہے، ہم قانون کے مطابق فرائض سرانجام دیں گے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ پلی بارگین ملزم کی درخواست پر کی جاتی ہے، میں ذاتی طور پر خود اس کی منظوری دیتا ہوں۔ پلی بارگین کی درخواست پر دستخط سے پہلے ملزم کو پڑھایا جاتا ہے، وہ ہوش و حواس سے پڑھ لے، اگر اتفاق نہیں ہوتا تو ملزم کو نیب کسٹڈی کی بجائے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا جاتا ہے۔
پلی بارگین رضاکارانہ فعل ہے۔ چیئرمین نیب نے بزنس کمیونٹی اور ممتاز صنعتکاروں کے سوالات کے اطمینان بخش جواب دیئے۔ بزنس کمیونٹی نے چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی قیادت میں نیب کی کارکردگی پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اسے سراہا۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بزنس کمیونٹی بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی تاکہ ملک کو خودکفیل بنایا جا سکے۔ انہوں نے چیئرمین نیب کی اسلام آباد سے لاہور آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا۔