ہنگاموں سے نمٹنے میں ناکام مودی سرکار نے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت پولیس کو لامحدود اختیارات دیدیے

 
0
351

نئی دہلی جنوری 21 (ٹی این ایس): مودی سرکار نے نئی دہلی میں پولیس کو نیشنل سیکیورٹی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت خصوصی اختیارات دے دیے گئے ہیں جن کے تحت پولیس کسی بھی شخص کو ملک کی سیکورٹی یا امن عامہ کے نام پر غیرمعینہ مدت تک حراست میں رکھ سکتی ہے دہلی پولیس کے مطابق وزارت داخلہ کے جاری کردہ احکامات عمومی کارروائی ہے اس کا حالیہ صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے. قواعد کے تحت این ایس اے کے اطلاق کے لیے تین ماہ کے احکامات جاری ہوتے ہیں تاہم موجودہ حکومت نے جولائی 2019، اکتوبر 2019 اور حالیہ احکامات جاری کیے ہیں اس قانون کے تحت سیکیورٹی ادارے کسی بھی مشتبہ شخص کو 10 ماہ سے ایک سال کے لیے حراست میں رکھ سکتے ہیں.قانون سیکیورٹی اہلکاروں کو اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ 10 روز تک زیر حراست شخص کو اس کے جرم یا الزام سے آگاہ نہ کریں نیشنل سیکیورٹی ایکٹ کے تحت زیر حراست شخص اپنی گرفتاری کے خلاف ہائی کورٹ کے مشاورتی بورڈ میں اپیل دائر کر سکتا ہے تاہم اسے وکیل کی معاونت کی اجازت نہیں ہوتی.واضح رہے کہ اس قانون پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے کیونکہ اس قانون کے تحت کسی بھی شخص کا یہ بنیادی حق ختم ہو جاتا ہے کہ اس حراست میں لیے جانے کے بعد اس پر عائد الزام سے آگاہ نہیں کیا جاتا بھارت میں 11 دسمبر کو دونوں ایوانوں سے منظور ہونے والے متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے جب کہ اس احتجاج کا مرکز اب دہلی بن چکا ہے جہاں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں جب کہ مستقل احتجاج کے لیے کئی مقامات پر مظاہرین موجود ہیں.متعدد شہروں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اب تک دو درجن سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 1500 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا نئے قانون کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے نقل مکانی کر کے بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بدھ مت، جین، پارسی اور مسیحی مذاہب کے ان افراد کو شہریت دی جائے گی جو 2014 سے قبل بھارت آئے ہوں یا وہ چھ برس تک بھارت میں مقیم رہے ہوں اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اسے مسلمانوں کے خلاف سمجھا جا رہا ہے.بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے یہ بل 2016 میں بھی لوک سبھا میں پیش کیا تھا تاہم، اس وقت بل راجیہ سبھا میں منظور نہیں ہو سکا تھا بھارت میں 20 کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں جب کہ شمالی مشرقی علاقوں میں بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں مسلمان ریاست آسام میں آ کر آباد ہوئے ہیں رواں سال اگست میں بھی یہ تنازع سامنے آیا تھا کہ جب این آر سی کا اجرا ہوا تو اس میں 20 لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، یعنی یہ افراد بھارت کے شہری تسلیم نہیں کیے گئے تھے ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان میں لاکھوں ہندو بھی شامل تھے.
بھارت کی حکومت کا موقف رہا ہے کہ وہ مسلمان جو اپنے خاندان کے ساتھ بنگلہ دیش سے آئے تھے، ا±نہیں بھارت میں رہنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے واضح رہے کہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے متنازع شہریت ترمیمی بل پیش کیا تھا جس پر تقریباً 12 گھنٹے تک بحث ہوئی بھارت کی لوک سبھا میں بل کے حق میں 311 اور مخالفت میں 80 ارکان نے ووٹ دیا جب کہ ایوان بالا میں یہ بل 105 ووٹوں کے مقابلے میں 125 ووٹوں سے منظور ہوا تھا.