24 ذی الحجہ عید مباہلہ: اسلام کی عیسایت پر علمی و اعجازی فتح کا دن

 
0
30038

اسلام آباد 15 اگست 2020 (ٹی این ایس): چوبیس ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہے، مباہلہ پیغمبر(ص) کی حقانیت اورامامت کی تصدیق کا نام ہے۔ اس دن رسول خدا (ص) نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اپنے اہلبیت کے ہمراہ تاریخی فتح حاصل کی، عظیم فتح کی یاد میں آج دنیا بھر میں عید مباہلہ منائی جا رہی ہے۔

مباہلہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت کا اسلام پر آنے والی ہرآنچ پرقربان ہونے کیلئے الہی منشورکا نام ہے۔

فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے نجراں کے نصاریٰ کی طرف خط لکھ کر انہیں اسلام قبول کرنے،جزیہ دینے یا جنگ کے لیے تیار ہونے کا کہا۔ نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔

نجران کا یہ قافلہ بڑی شان وشوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ مسجد میں تشریف فرما پیغمبر(ص) نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی،جو ہر ایک کیلئے سوال برانگیز ثابت ہوا۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی(ع) نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عام لباس میں آنحضرت(ص) کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ، آپکا استقبال ہوگا۔

اب کارواں عام لباس میں حضرت ص کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ گروپ نے حضور ص سے بحث و مناظرہ شروع كیا۔

پیغمبر (ص) كے محكم دلائل كے باوجود عیسائی اپنے مذہب اور اپنے عقائد كی حقانیت پرڈٹے رہے۔ یہاں تک کہ سورۂ آل عمران کی آیت نازل ہوئی جو آیہ مباہلہ کے نام سے مشہور ہے۔

سورۂ آل عمران کی آیت (آیہ مباہلہ)

پروردگار نے فرمایا: “اے پیغمبر ص ! علم كے آجانے كے بعد جو لوگ تم سے كٹ حجتی كریں ان سے كہہ دو كہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں كو بلائیں اور پھرخدا كی بارگاہ میں دعا كریں اورجھوٹوں پرخدا كی لعنت قراردیں۔”

اس پر طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع) صحرا میں مباہلہ ہوگا۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔

لوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمائندے آپس میں کہتے تھے کہ اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہے اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتے ہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔

سب کی نظریں شہر کے دروازے پرٹکی ہیں، دورسے مبہم سایہ نظرآنے لگا جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئے ہیں اور دوسری جانب سے حسن علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ رکھا ہے، آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور سب کے پیچھے آنحضرت کا عموزاد بھائی، حسنین کے بابا اور فاطمہ کے شوہرعلی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

صحرا میں ہمھمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو ، پیغمبر اپنے سب سے عزیزوں کو لےآیا ہے۔ دوسرا کہہ رہا ہے اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے۔ اس دوران بڑے پادری نے کہا : میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں وہ بھی اپنی جگہ سے کھستا ہوا نظر آئے گا اگر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الہی میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اس کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں۔ اور ایسا ہی کیا گیا۔اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی۔