افغانستان میں کاربم دھماکہ،طالبان سے جھڑپیں،بس کو حادثہ پیش آنے سے 150افرادہلاک

 
0
408

کابل جولائی24(ٹی این ایس ):افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے ایک زوردار بم دھماکے میں 35افراد ہلاک اور 50زخمی ہو گئے ۔ یہ دھماکا افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نائب محمد محقق کی رہائش گاہ کے قریب ہوا۔ ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ کم از کم پندرہ موٹر کاریں اور پندرہ دوکانیں بھی تباہ ہوئیں،اس سے علاقے کی کئی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ، جن میں یونیورسٹی کی عمارت بھی شامل ہے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہاکہ پیر کی صبح افغانستان میں ہزارہ شیعہ برادری کے اکثریتی علاقے میں ہونے والے اس خودکش حملے میں کم از کم پینتیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چْکی ہے جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق یہ خود کش دھماکا کابل شہرکے مغربی حصے کے تھرڈ ڈسٹرکٹ میں کیا گیا۔ افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نجیب دانش کا کہنا تھا کہ فی الحال زخمیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ مسافروں کو لے جانے والی ایک چھوٹی بس مکمل طور پر دھماکے میں تباہ ہو گئی ہے۔ ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ کم از کم پندرہ موٹر کاریں اور پندرہ دوکانیں بھی تباہ ہوئیں۔ اس سے علاقے کی کئی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ، جن میں یونیورسٹی کی عمارت بھی شامل ہے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر میں بہت زیادہ گہرا دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے اور لوگ دھماکے کے مقام سے دور بھاگ رہے ہیں۔رواں برس دارالحکومت کابل میں ہونے والا یہ دسواں بڑا حملہ تھا۔افغان دارالحکومت میں طالبان کی طرف سے یہ بم دھماکا ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب امریکا اور اس کی اتحادی فورسز افغانستان کے حوالے سے ایک نئی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں۔ ابھی ایک روز پہلے ہی افغانستان میں سرگرم طالبان نے شمالی اور وسطی صوبوں میں دو اضلاع پر قبضے کا اعلان کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ افغان فوج کو ملک کے کئی مقامات پر طالبان کی شدید عسکری کارروائیوں کا سامنا ہے۔ سترہ جولائی کو اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سب سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکتیں دارالحکومت کابل میں ہوئی ہیں اور یہ مجموعی ہلاکتوں کا انیس فیصد ہیں۔جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ابھی تک ایک ہزار اڑتالیس عام شہری ہلاک ہوئے اور ان میں سے 219 ہلاکتیں کابل میں ہوئیں۔اسی طرح کابل میں ہونے والے حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 829 بنتی ہے۔

اس سے قبل افغانستان میں سرگرم طالبان نے شمالی اور وسطی صوبوں میں دو اضلاع پر قبضے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب افغان فورسز کو طالبان کی مسلح سرگرمیوں میں شدید اضافے کا سامنا ہے۔امریکی ٹی وی کے مطابق جن دو اضلاع پر طالبان نے قبضہ کیا ہے، ان میں ایک غور صوبے کا تیورہ ضلع ہے اور دوسرا فریاب صوبے کا ضلع کوہستان ہے۔ طالبان تحریک کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی تیورہ اور کوہستان پر قبضے کی تصدیق کی ۔ غور صوبے کی صوبائی کونسل کے نائب سربراہ محمد مہدوی کا کہنا تھا کہ طالبان نے ضلع تیورہ پر جمعرات سے چڑھائی کر رکھی تھی۔اس ضلع پر طالبان اب پوری طرح قابض ہو گئے ہیں، مہدوی نے یہ بھی بتایا کہ اس حملے میں حکومتی فورسز کو خاصے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کم از کم 70سکیورٹی اہلکاروں کی موت لڑائی کے دوران ہوئی ہے۔ غور کی صوبائی کونسل کے نائب سربراہ نے یہ بھی بتایا کہ مقامی پولیس کو بھی شدید جانی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔غور کی صوبائی کونسل کے رکن عبدالباصر قدیری نے بتایا کہ طالبان عسکریت پسندوں نے تیورہ شہر کے ہسپتال میں داخل ہو کر ڈاکٹروں اور مریضوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ قدیری کے مطابق ہلاک ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے

یہ امر اہم ہے کہ تیورہ ضلع کو افغانستان میں انتہائی اسٹریٹیجک اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی سرحدیں شمال مغرب میں فرح اور جنوب میں ہلمند صوبوں سے ملتی ہیں۔ ان دونوں صوبوں میں سلامتی کی مجموعی صورتحال انتہائی مخدوش بتائی جاتی ہے۔ ضلع تیورہ پر قبضے سے حکومت مخالف عسکریت پسندوں کو مغرب اور شمال میں اپنی مسلح سرگرمیاں جاری رکھنے کا راستہ میّسر آ گیا ہے۔ طالبان نے ایک روز قبل فریاب صوبے کے ضلع کوہستان پر قبضہ کیا۔ صوبائی گورنر کے ترجمان جاوید بیدار کے مطابق کئی طالبان عسکریت پسندوں نے کئی سمتوں سے حملہ کیا۔ بیدار کے مطابق شدید لڑائی میں اطراف کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس چڑھائی کے بعد ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب میں افغان فوج اور پولیس کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔افغان طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ تیورہ اور کوہستان میں کابل حکومت کی فوج کے کئی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ افغان فوج کو ملک کے کئی مقامات پر طالبان کی عسکری کارروائیوں کی شدت کا سامنا ہے۔

افغان فوج کو مسلسل قندوز اور بغلان کے علاقوں میں بھی طالبان کے حملوں کا سامنا رہتا ہے۔دریں اثناء افغان پولیس نے 30دیہاتیوں کی تلاش کے لیے ایک بڑی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے، جنہیں ابھی دو دن قبل اغوا کیا گیا تھا۔ اس واقعے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی جا رہی ہے۔قندھار پولیس کے ترجمان ضیاء درانی نے غیرملکی خبررساں ادارے کوبتایاکہ جمعے کو تقریباً ستر افراد کو اغوا کیا گیا تھا، جن میں سے سات کی لاشیں ہفتے کے روز مل گئی تھی۔ ان کے بقول ہفتے کے روز ان میں سے تیس افراد کو رہا کر دیا گیا ہے جبکہ تیس بدستور اغوا کاروں کے قبضے میں ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان افراد کو اغوا کرنے کا مقصد کیا تھا۔چند سرکاری اہلکاروں کی رائے میں ان افراد کو حکومت کا ساتھ دینے کے شک میں اغوا کیا گیا ہے۔ اس علاقے میں طالبان حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

دوسری جانب طالبان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے مجاہدین نے پولیس اہلکاروں اور حکومت نواز ملیشیا تنظیموں کے جنگجوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں اور انہیں ہلاک بھی کیا ہے۔ اس دورن پوچھ گچھ کے لیے سترہ افراد کو حراست میں بھی لیا گیا تھا، جنہیں بعد میں رہا کر دیا۔ ہم نے کسی عام شہری کو نہ اغوا کیا ہے اور نہ ہی قتل۔ایک اورخبر ک ے مطابق شمالی افغان صوبے بغلان میں ہونے والے بس کے ایک حادثے میں کم از کم پندرہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ اٹھائیس زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے، حادثے کا شکار ہونے والی بس دارالحکومت کابل سے مزار شریف جا رہی تھی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس حادثے کی وجہ کیا تھی،گزشتہ روزبس سڑک پر سے بے قابو ہو کر الٹ گئی تھی۔ حادثہ صوبہ بغلان کے دوشی ضلع میں پیش آیا۔ اٹھائیس زخمیوں کو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ حادثے کا شکار ہونے والی بس دارالحکومت کابل سے مزار شریف جا رہی تھی۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس حادثے کی وجہ کیا تھی۔