آج کل بلدیاتی ادارے معطل ہیں اس لئے بلدیاتی نظام پر عملاً افسرشاہی کا قبضہ ہے

 
0
228

اسلام آباد 22 جون 2021 (ٹی این ایس): آج کل بلدیاتی ادارے معطل ہیں اس لئے بلدیاتی نظام پر عملاً افسرشاہی کا قبضہ ہے۔ جب تحریک ِ انصاف کی حکومت برسراقتدار آئی تو خیال تھا فوراً لوکل باڈیز الیکشن کے انعقادکااعلان کیا جائے گا لوگ خوش تھے کہ اب گلی گلی کوچے کوچے رونقیں بحال ہوجائیں گی اب چونکہ بلدیاتی انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے لٹک گئے تھے جس وجہ سے ملک بھر میں ایک بار پھر عوام اپنے مسائل کے حل کیلئے بیوروکریسی کے محتاج ہو کررہ گئے ہیں مہنگائی اور بدامنی نے عوام کی زندگی مشکل بنادی ہے بلدیاتی اداروں سے تو مسائل پہلی سٹیج پر ہی حل ہونے کی سبیل نکل آتی ہے کونسلر چیئرمین شرم وشرمی عوامی مسائل حل کردیتے ہیں حلقہ این اے 54 اسلام آباد بالخصوص علاقہ این اے 54 یوسی 45’46’47’48کے کئی علاقے ایسے ہیں وہاں مسائل کی بھرمارہے لوگ گندے پانی کے نکاس،پینے کا پانی انتہائی آلودہ،ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور مسائل در مسائل سے یہ آبادیاں دیہات کا منظر پیش کررہی ہیں لگتا ہی نہیں یہ وفاقی دارالحکومت کا علاقہ ہے بلکہ اسے اسلام آباد کہنا بھی اسلام آباد کی بے عزتی محسوس ہوتی ہے بلدیاتی الیکشن کی آمد سے قبل ہی پرانے شکاری نئے جال بچھانے لگے ماضی میں بھی برسر اقتدار حکومتوں نے من پسند افراد کو نوازا اکیسویں صدی میں بھی سنگ جانی سیکٹر 16 میں آج بھی وڈیرہ سسٹم کا راج قائم ہے یہاں کے وڈیرے اداروں میں غلط بیانی کرتے ہوئے ان علاقوں میں رہنے والوں کو اپنا مزارہ بتاتے ہیں مگر حقیقت کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں اکیسویں صدی میں بھی یہ لوگ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں ان علاقوں کی ترقی کی رکاوٹ یہاں کے مقامی با اثر افراد ہے یہ علا قے جنجال پورہ بنے ہوئے ہیں اس وقت آدھا اسلام آباد بالخصوص علاقہ این اے 54 یوسی 45’46’47’48 مسائلستان بناہوا ہے لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ان تمام مسائل کو وفاقی حکومت پر چھوڑ دیا گیا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اسلام آباد میں متعدد میگا پرا جیکٹ پرکام ہورہا ہے ۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن علاقوں میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں کیا حکمرانوں کی نظر میں وہی اسلام آباد ہے؟ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس ترقی میں سب کو شامل کیا جاتا۔۔یہ بات ریادہ اہم ہے کہ جو کام اداروں کے کرنے کیلئے ہوتے ہیں وہ ایک روٹین ورک میں ادارے ہی بہتر کرسکتے ہیں جنرل مشرف کا وضح کردہ بلدیاتی نظام ایک بہتر سسٹم تھا اس سے اختلاف کرنا سب کا حق ہے لیکن یہ بات ماننی پڑے گی کہ ضلعی حکومتوں کے دورمیں پاکستان کی تاریخ میں ملک بھر میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے افادیت کے اعتبارسے یہ ایک اچھا نظام تھا آج تک کسی حکومت نے بلدیاتی اداروں اور نمائیذوں کو کوئی اختیارات نہیں دیئے حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کا صاف صاف مطلب یہ لیا جا سکتا ہے ایک ڈکٹیٹر نے پہلی بارعوامی نمائندوں کو نچلی سطح پر بااختیار بنایا اور جمہوریتبالخصوص علاقہ این اے 54 یوسی 45’46’47’48 کے دعویداروں نے ان اختیارات میں اضافہ کرنے کی بجائے اسے بے دست و پا بنا دیا اور بلدیاتی انتخابات نہ کروا کر افسرشاہی کے اختیارات کو مزید مستحکم بنا ڈالا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دل میں کروڑوں عوام کی خواہش کا کوئی احترام نہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا اس وقت کے منتخب وفاقی وزیر اسد عمر نے عوام کی حمایت میں عوام میں آنا پسند نہیں کیا شاید حکمران اپنے آپ کو بادشاہ سلامت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی جمہوری حکمران نے آج تلک بلدیاتی انتخابات کروانے کا تکلف نہیں کیا تاریخ اٹھا کر خود ملاحظہ کرلیں جب بھی لوکل باڈیز الیکشن ہوئے کسی نہ کسی ڈکٹیٹر کی چھتری تلے ہی ہوئے ہیں پھر کس طرح ہمارے حکمران خودکو عوامی سمجھتے ہیں بلدیاتی انتخابات کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے یہ الیکشن ہر چار سال بعد ہوتے رہیں تو پاکستان میں جمہوریت پھلنے اور پھولنے کا خواب شرمندہ ئ تعبیرہو سکتاہے اس وقت ہماری اسمبلیوں میں ایک بڑی تعداد ان افرادکی ہے جو ماضی میں بلدیاتی اداروں کاحصہ رہے ہیں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ وہی لوگوں کی اکثریت بلدیاتی انتخابات کروانے کے حق میں نہیں شاید اس لئے کہ کونسلروں چیئر مینوں کو فنڈ ملنے لگے تو ارکان ِ اسمبلی کی مناپلی ختم ہو جائے گی اور اسمبلیاں محض قانون ساز ادارے بن کررہ جائیں گی اور بلدیاتی اداروں کے فنڈزسے ایم پی اے،ایم این اے حضرات کی موجیں ختم ہوجائیں گی
آئی بات سمجھ میں؟ عمران خان نے وعدہ کرنے کے باوجود بلدیاتی انتخابات کروانے میں تاخیر کی لوگ کس پر یقین کریں ایک بات طے ہے جب حکومت کی مرضی ہوگی بلدیاتی انتخابات تبھی ہو ں گے یہی سچائی ہے