بے مثال قربانی کی یاد

 
0
389

اور جب ہم نے ابراہیم ؑ کے لئے خانہ کعبہ کی جگہ مقرر کر دی (اور حکم دیا) کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھنا اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو کہ تمہارے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر دور دراز رستوں سے چلے آئیں گے۔ تاکہ وہ اپنے فوائد کے لئے آ موجود ہوں اور مقررہ ایام میں (ذبح کرتے وقت) چو پایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دئیے ہیں۔ پھر ان میں سے خود بھی کھاؤ اور مصیبت زدہ فقیر کو بھی کھلاؤ۔ پھرچاہیئے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں پوری کریں اور اس آزاد گھر کا طواف کریں۔ بات یہ ہے اور جو اللہ کے شعائر کا احترام کرے گا تو یہ اس کے حق میں اس کے رب کے نزدیک بہتر ہے اور تمہارے لئے مویشی حلال کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے سوا جو تم کو پڑھکر سنائے جاتے ہیں۔سو چاہیئے کہ تم بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے احتراز کرو۔ خالص اللہ کے ہو رہو (اور) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ا ور جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے گو یا وہ ایسا ہے جیسے آسمان سے گرپڑا۔ پھر اسے پرندے اچک لے جائیں یا ہوا نے اسے اٹھا کر دور دراز جگہ پھینکا۔ بات یہ ہے اور جو اللہ کے شعائر کی عزت کرتا ہے تو یہ کام دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔ تمہارے لئے جانوروں میں ایک معین وقت تک منافع ہیں۔ پھر ان کو آزاد گھر تک پہنچنا ہے۔
قرآن مجید کے پارہ:4 سورۃآل عمران، آیت 97 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں “اور اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر لازم ہے، جسے وہاں پہنچنے کی طاقت ہے۔”
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے، جس مسلمان میں اس کے فرض ہونے کی شرطیں پائی جائیں اس پر عمر میں ایک بار حج کرنا فرض ہے۔ حج کے لغوی معنی ارادہ کرنا، زیارت کرنا، غالب آنا وغیرہ ہے لیکن اسلام میں حج ایک مشہور عبادت ہے جو خانہ کعبہ کے طواف اور مکہ مکرمہ شہر کے متعدد مقدس مقامات میں حاضر ہوکر کچھ آداب واعمال بجالا نے کا نام ہے۔ مسلمانوں پر حج 9ہجری پر فرض ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ 300صحابہ کرامؓ کے امیر حج مقرر ہوئے۔ اس دوران حضرت علی ؑ نے سورۃ برآت کی آیات لوگوں کو پڑھ کر سنائیں جس کے مطابق کوئی مشرک بیت اللہ کے اندر داخل نہ ہو سکے گا اور طواف کعبہ ننگا ہو کر نہ کیا جا سکے گا 26ذیقعدہ 10ہجری حضور ﷺ نے ظہر کی نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا اور لوگوں کو مناسک حج سکھائے۔
حج کیلئے آٹھ شرائط فرض ہیں۔
۱)مسلمان ہونا 2) اگر کفار کے ملک میں ہو تو حج فرض ہونے کا علم ہونا 3) عقلمند ہونا یعنی پاگل نہ ہونا۔ 4) بالغ ہونا 5)آزاد ہونا 6) تندرست ہو نا یعنی عضاء سلامت ہوں لیکن اگر پہلے تندرست تھا اور دیگر شرائط فرضیت حج پائے جانے کے بعداپاہج ہو گیا تو کسی دوسرے مسلمان کو اپنی طرف سے حج کروانا ضروری ہے اور اسے حج بدل کہا جائے گا۔ 7) مکہ مکرمہ پہنچنے کی طاقت ہونا اس سے مراد یہ ہے کہ حاجت اصلیہ مثلاََ رہائش کا مکان، سواری استعمال کے کپڑے، برتن و بستر اور اوزاروغیر ہ کے علاوہ اس کے پاس سوا رہوکرسفر کے اخراجات و دیگر ضروریات خود ر و نوش و رہائش کے علاوہ اپنی واپسی تک اپنے اہل و عیال جن کا خرچہ اس کے ذمہ ہے موجود ہو۔ 8) ان شرائط بالا حج کے مہینوں شوال، ذیقعد اور ذوالحج میں موجود ہو نا۔ عورت کیلئے اگر اس کا گھر خانہ کعبہ سے 57میل 3فرلانگ(تقریباََ 29کلومیٹر) کی مسافت پر یا اس سے زائد ہو تو واجب ہے کہ شوہر یا محرم کے ساتھ حج کیلئے روانہ ہو ورنہ سخت گنہگار ہوگی۔ محرم سے مراد وہ رشتہ ہے جس کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکاح حرام ہے مثلاََ بھائی، باپ، بیٹا وغیرہ اور محرم کا بالغ اور مالج ہونا بھی ضروری ہے۔حج میں کچھ کام فرض ہیں جن کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں کچھ کام واجب ہیں جن میں سے عموماََ (قربانی) واجب ہو جاتی ہے۔ کچھ کام سنت ہیں جن کے رہ جانے سے ثواب و برکت میں کمی آتی ہے لیکن حج ہو جاتا ہے اور کچھ کام منع ہیں جن کے کر لینے سے جرمانہ وا جب ہوتا ہے اور بعض میں حج فاسد ہو جاتا ہے اور بعض میں صرف ثواب میں کمی آتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے بڑے جلیل القدر پیغمبر اور رسول ہیں۔آپ کا لقب “خلیل اللہ “ہے آپ کعبہ اللہ کے بانی اور ابوالانبیاء ہیں اللہ تعالیٰ کی شان کہ بہت عرصہ تک آپکے گھر کوئی فرزند نہیں پیدا ہوا تھا اور آپ ہمیشہ رب کریم کے حضور فرزند صالح کی تمنا باربار کرتے رہتے اور یوں دعا کرتے رہے “اے میر ے پروردگار مجھے نیک اور صالح فرزند عطاء فرما” دل اور خلوص سے مانگی ہوئی دعا بارگاہ خداوندی میں قبول و منظور ہوئی اور بڑھاپے میں آپکی اہلیہ حضرت حاجرہ ؑ کے بطن اطہر سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے۔
حضرت ابراہیم اپنے فرزند ارجمند سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ظاہر ہے کہ جو بچہ بڑی دعاؤں اور مرادوں کے بعد ملا ہو گا وہ ماں باپ کی نظروں میں کتنا عزیز اور کس قدر پیار ا ہوگا۔ حضرت اسماعیل ؑ کی عمر جب سات برس کی ہوئی (اور ایک روایت میں تیرہ برس)کی تھی آپ بہت ہونہار اور حسین و جمیل تھے۔
ماہ ذوالحج کی آٹھویں تاریخ کی رات حضرت ابراہیم ؑ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ یہ حکم خداوندی سنا رہا ہے کہ اے ابراہیم ؑ اپنے بیٹے کی قربانی کرو آپ سمجھ گئے کہ میرے فرزند اسماعیل ؑ کی قربانی کا حکم ہے حضرت ابراہیم ؑ نے حکم خداوندی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لخت جگر اور نور نظر فرزند حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کیلئے تیار ہو گئے یہ خواب مسلسل تین راتوں تک آتے رہے چنانچہ دس ذوالحج کی صبح حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی زوجہ محترمہ سے فرمایا “اے نیک بخت ہم سفر! آج تمہارے لخت جگر کی ایک بہت بڑے شہنشاہ کے دربار میں دعوت ہے یہ سن کر محبت کی پیکر ماں نے فرط مسرت سے اپنے نورنظر کو نہلا دھلا کر عمدہ اور نفیس پو شا ک پہنا کر اور اپنے لعل کو دلہا بنا کر اسکی انگلی باپ کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ حضرت ابراہیم ؑنے چھری اور رسی لی اور وادیِ منیٰ کی طرف روانہ ہوگئے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان مردود نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم ؑ کو بہکا نے کی کوشش کی اور ہربار حضرت ابراہیم ؑنے اسے سات کنکریاں مار کر بھگا دیا اسی لئے آج تک “ایام حج ” کے دوران وادی منیٰ میں اسی محبوب عمل کی یادگار شیطان کو کنکریاں مار کر منائی جاتی ہے۔ جب شیطان مایوس ہوگیا تو پھر حضرت اسماعیل ؑ کو ورغلانے لگا اور قریب جا کر کہا “اے اسماعیلؑ!تجھے تیرے والد ذبح کرنے کے لئے جارہے ہیں ” حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا”کیوں؟” شیطان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرما لیں تو میری خوش نصیبی کی اور کیا معراج ہوگی؟ بالآخر جب دونوں باپ بیٹا یہ انوکھی اور نرالی عبادت سر انجام دینے قربان گاہ پہنچے تو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے فرز ند ارجمندحضرت اسماعیل ؑ سے کہا۔ ” اے میرے بیٹے” میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں پس اس بارے میں خوب سوچ لو کہ تیری کیا رائے ہے؟ سعادت مند بیٹے نے بڑا پیارا اور تاریخی جواب دیا ” اے ابا جان آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اسے آپ بلا خوف و خطرپورا کریں۔ مجھے آپ ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ پھر حضرت اسماعیل ؑ نے اپنے والد محترم سے عرض کی! اے ابا جان! میری قربانی دینے سے پہلے میری تین وصیتیں قبول فرمائیں۔۱) قربانی کرنے سے پہلے میرے ہاتھ پاؤں کو رسی سے باندھ دیجئے گا تاکہ بروقت ذبح میرا تڑپنا دیکھ کر آپ کو شفقت پدری کی وجہ سے مجھ پر رحم نہ آجائے۔ اور ہم اس سعادت سے محروم ہو جائیں۔ 2) مجھے منہ کے بل لٹائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا دل سینے میں دھڑکنا شروع کردے اور آپ کا ہاتھ جنبش کی وجہ سے رک جائے۔ 3) قربانی کے بعد جب آپ ؑ میری والدہ کے پاس جائیں تو میری قمیض ساتھ لے جائیں شائد اس سے انہیں کچھ تسلی ہو۔
حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے نور نظر کی معصومانہ باتیں سنیں تو اپنے معصوم صاحبزادے کی مقدس پیشانی کو چوما۔ اس کے بعد حضرت اسماعیل ؑ کے ہاتھ پاؤں کورسی سے خوب باندھ کر ایک پتھر کی چٹان پر اوندھے منہ لٹا دیا اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنے لخت جگر کے گلے پر چھری رکھ دی۔
پروردگار عالم کی تسلیم و رضا کا یہ فقید المثال منظر آج تک چشم قلم نے نہیں دیکھا ہوگا۔ تیز چھری حضرت اسماعیل ؑ کے حلق پر پہنچ کر کند ہو گئی۔ دوسری مرتبہ ایسا ہی ہوا تو حضرت ابراہیم ؑ نے ایک پتھر پر جوش غضب سے دے مارا۔ اسی چھری نے پتھر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ آخر کار حضرت ابراہیم ؑ کے اس جذبہ اخلاص و ایثار اور قربانی پر رحمت پروردگار کو پیار آ گیا۔ حضرت جبرائیل ؑ کو یہ حکم دیا کہ اے جبرائیل ؑ جنت سے ایک خوبصورت مینڈھا لاکر حضرت اسماعیل ؑ کی جگہ لٹادو اور جناب اسماعیل ؑکو اٹھا کر ان کے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دو۔چنانچہ حضرت جبرائیل ؑنے ایک بہشتی مینڈھا لاکر لٹادیا اور پرودگار عالم نے حکم دیا کہ اے ابراہیم اب چھری چلاؤ اب کی بار چھری چلائی تو چل گئی اور ایک عظیم قربانی ہوگئی مگر جب آنکھوں سے پٹی کھول کر دیکھا تو یہ عجیب و غریب منظرسامنے نظر آیا کہ ایک نہایت ہی فربااور حسین و جمیل مینڈھا ذبح پڑا ہو ا ہے اور حضرت اسماعیل ؑ ایک طرف کھڑے مسکرا رہے ہیں اسی وقت حضرت جبرائیل نے اللہ اکبر، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور حضرت اسماعیل ؑنے لا الہ اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر پڑھا اور حضرت ابراہیم نے اللہ اکبر وللہ ا لحمد کا کلمہ ادا فرمایا اور ادھر پروردگار عالم کی بارگاہ سے یوں آواز آئی جیسا کہ قرآن پاک میں ہے “اور ہم نے پکارا اے ابراہیم! بے شک تو نے خواب کو سچ کر دکھایا بلاشبہ ہم نیکوکاروں کو یوں ہی اجر عطاء کرتے ہیں درحقیقت یہ بہت بڑا امتحان تھا اور ہم نے ایک بہت بڑا ذبیحہ دے کر انہیں بچا لیا اور ہم نے ان کا ذکر ِ خیر بعد میں آنے والوں میں باقی رکھا اور ابراہیم ؑ پر ہمارا سلام ہو”
اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ تمام امت مسلمہ قیا مت تک جانور ذبح کرکے اس بے مثال قربانی کی یاد تازہ کرتے رہیں گے۔