اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)کا افغانستان کی صورتحال پر پاکستان کی میزبانی میں غیر معمولی اجلاس

 
0
199

اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی)کا افغانستان کی صورتحال پر پاکستان کی میزبانی میں غیر معمولی اجلاس

دنیا نے اقدامات نہ اٹھائے تو افغانستان میں انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا۔وزیراعظم پاکستان عمران خان

پاکستان افغان جنگ کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہوا 70 ہزار سے زائد جانیں قربان کی،مالی نقصان برداشت کیا

دنیا کے کسی بھی ملک نے افغانستان جیسی صورتحال کا سامنا نہیں کیا

ماضی میں افغانستان میں کرپٹ افراد اقتدار میں رہے، بجٹ کا 75 فیصد انحصار غیر ملکی امداد پر تھا جو اب بند ہو چکی ہے

دینا مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند کرے

اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے موثر آواز بنیں گے رحمت العالمین اتھارٹی کے پلیٹ فارم سے مغربی دنیا کو ناموس رسالت صلی اللہ و علیہ السلام کی اہمیت سے آگاہ کریں گے۔

مستحکم افغانستان ہی دہشتگردی کے خاتمے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے،وزیراعظم پاکستان عمران خان کا او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب

رپورٹ؛ عبدالرحمن

اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کا افغانستان کی صورت حال پر غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا سعودی عرب کا تجویز پر طلب کردہ اجلاس کی میزبانی پاکستان نے کی،او آئی سی کا قیام 25 ستمبر 1969 کو عمل میں آیا اور پہلی سربراہی 22 سے 25 ستمبر تک رباط میں منعقد ہوا جس کے مختلف مواقعوں پر تنظیم کے معمول اور غیر معمولی اجلاس طلب کیئے گئے اور دنیا کو اسلامی ممالک کی سب سے بڑی تنظیم کے پلیٹ فارم سے مشترکہ موقف پیش کیا گیا،پاکستان نے تقریبا 41 برس قبل بھی افغانستان ہی کی صورتحال پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس طلب کیا تھا تاہم موجودہ اجلاس اس لحاظ سے مختلف ہے کہ افغانستان میں ایک بڑا انسانی المیہ جنم لینے کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے،او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس میں او آئی سی کے رکن ممالک سے 20 وزرائے خارجہ،10 نائب وزیر خارجہ اور 70 سے زائد مندوبین شریک ہیں جبکہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک کے نمائندے بھی اجلاس میں شریک ہیں،پاکستان کی میزبانی میں جاری اس غیر معمولی اجلاس کے موقع پر وفاقی دارالحکومت میں سخت سیکورٹی کے انتظامات کیئے گئے ہیں اور 3 دن کی سرکاری تعطیل کا بھی اعلان کیا گیا،او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا،
وزیراعظم عمران خان نے او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام معزز مہمانوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں، خوشی کی بات ہے کہ اجلاس میں شامل تمام ممالک افغانستان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں،ان کا کہنا تھا کسی بھی ملک کو افغانستان جیسی صورت حال کا سامنا نہیں رہا، افغانستان میں سالہا سال کرپٹ حکومتیں رہیں، افغانستان کی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے اور بینکنگ نظام جمود کا شکار ہے،
انہوں نے مزید کہا کہ افغان جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان نے اٹھایا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد قربانیاں دیں، 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ بردا شت کیا اور اب بھی لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں بس رہے ہیں،ماضی میں افغانستان کا 75 فیصد بجٹ غیر ملکی امداد پر منحصر رہا لیکن اب افغانستان کو بیرونی امداد بند ہو چکی ہے، اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری مائیکل گرفٹ نے جو اعداد و شمار دیے وہ حیران کن ہیں، یہ مسئلہ افغان عوام کا ہے، ہم پہلے ہی تاخیر کا شکارہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا طالبان وزیر خارجہ سے ایک ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے کہا وہ اپنی شرائط پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں، دنیا نے اقدامات نہ کیے تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ سب سے بڑا انسانی بحران ہو گا، وزیراعظم نے او آئی سی کے غیر معمولی اجلاس کے پلیٹ فارم سے دنیا کو مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر زور دیا اور کہا کہ کشمیر اور فلسطین میں انسانی کی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی معنی خیز ہے انہوں نے کہا کہ اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمیں ایک موثر آواز بننا ہے،ان کا کہنا تھا ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں عدم استحکام سے ایسے عناصرمضبوط ہوں گے، افغانستان میں عدم استحکام سے مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا،انہوں نے کہا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چند ہزار مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کرتے پاکستان ماضی اور حال میں مہاجرین کا بڑا گھر ہے،ان کا کہنا تھا افغانستان کی مدد کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری بھی ہے، کشمیر اور فلسطین کےعوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں، فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے،انہوں نے مزید کہا کہ دینا میں اسلامو فوبیا بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، اسلامو فوبیا کے خاتمے کے لیے او آئی سی کردار ادا کرے، ہمارے معاشرے میں بھی کچھ عناصر نفرت پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں، کوئی بھی مذہب دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا لیکن بدقسمتی سے اسلام کے بارے میں بہت پروپیگنڈا کیا گیا، نائن الیون کے بعد اسلاموفوبیا کی لہر میں شدت آئی،ان کا کہنا تھا دہشتگردی اور اسلام کو جوڑا گیا اور ریڈیکل اسلام کی ٹرم بنائی گئی، اس سب کے نتیجے میں اسلامو فوبیا پیدا ہوا، ہم نے پاکستان میں رحمت للعالمین اتھارٹی بنائی ہے جس کا ایک مقصد ہے کہ اگر نبی کریم ﷺ کا کوئی خاکہ آئے تو اس کا سوچا سمجھا جواب دیا جائے، نبی کریم ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا، اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمیں ایک موثر آواز بننا ہے، پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی او آئی سی غیر معمولی اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی کا اجلاس افغانستان کے لوگوں کے مسائل سے متعلق ہے، افغانستان کے عوام کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام بھی افغانستان میں خوراک کی کمی کے مسئلے کی نشاندہی کر چکا ہے،انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت کا وزرائےخارجہ اجلاس بلانا قابل تعریف ہے، سیکرٹری جنرل ابراہیم طحہ اور ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں، افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے امت مسلمہ اپنا کردار ادا کرے،وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آج کا اجلاس افغانستان کے لوگوں کے مسائل سے آگاہی کے لیے ہے اور یہ اجلاس افغانستان کی بقاء کے لیے بہت اہم ہے، افغان عوام کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم متحد اور ان کے ساتھ ہیں، افغانستان کے حوالے سے ہماری آواز دنیا تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 40 سال قبل بھی پاکستان نے افغانستان کے لیے اسی طرز کا اجلاس بلایا تھا، پاکستان ایک بار  پھر افغانستان کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے،افغانستان کے منجمند اثاثے بحال کرکہ انسانی المیے پر قابو پایا جانا انتہائی ضروری ہے

سیکرٹری جنرل او آئی سی ابراہیم حسین طلحہ کا اجلاس سے خطاب میں کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں امن کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہا ہے،پاکستان نے افغان بحران کے حل کے لیے عزم کا اظہار کیا اور افغانستان میں امن خطے میں امن کے لیے ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام کو مدد کی اشد ضرورت ہے، او آئی سی نے ہمیشہ افغانستان کے مسئلے پر مضبوط موقف اپنایا، افغانستان میں تیزی سے بدلتی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں، یہ اجلاس افغانستان کی مدد کے لیے کامیاب ہوگا۔

او آئی سی کے افغانستان سے متعلق غیر معمولی اجلاس سے سعودی وزیر خارجہ کا خطاب

سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کا او آئی سی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان نے کم ترین وقت میں اجلاس کو ممکن بنایا، اجلاس کے انعقاد پر پاکستان سے اظہار تشکر کرتے ہیں، اجلاس میں شرکت پر سیکرٹری جنرل او آئی سی اور دیگر کے شکر گزار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں سمیت افغان عوام مشکلات کا شکار ہیں،افغانستان میں معاشی بحران مزید خراب ہو سکتا ہے اور کشیدہ صورت حال کے خطے اور دنیا پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں افغانستان کے عوام ہماری امداد کے منتظر ہیں اور ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں، افغانستان کے معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھنا ہو گا۔سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان کو غذائی امداد اور مالیاتی اداروں کے استحکام کی ضرورت ہے، عالمی ادارے افغان عوام کی مدد کے لیے آگے بڑھیں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب افغانستان کو ایک بلین ریال کی مدد بھی فراہم کرے گا

او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے ترک وزیر خارجہ کا خطاب

ترک وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ افغانستان کے بحران پر مثبت اقدامات کو سراہتے ہیں لیکن افغانستان میں انسانی بحران مسلم ممالک کے لیے چیلنج ہے،ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام کو خوراک کی کمی سمیت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، افغانستان کی صورتحال کے اثرات دیگر ممالک پر بھی مرتب ہوں گے، او آئی سی کو دیگر عالمی اداروں سے مل کر افغان بحران پر قابو پانا چاہیے۔

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندے مائیکل گریفن کا افغانستان کی صورت حال پر غیر معمولی اجلاس سے خطاب

سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کے نمائندے مائیکل گریفن نے اپنے خطاب میں کہا کہ میرا خطاب سیکرٹری جنرل کا خطاب ہے جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں،ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا بحران بہت بڑا ہے، 80 فیصد افغان عوام روزمرہ اخراجات پورے کرنے سے قاصرہیں، افغانستان میں بےروزگاری 29 فیصد تک بڑھ سکتی ہے،ہ افغانستان میں لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں، 70 فیصد اساتذہ تنخواہوں سے محروم ہیں، افغانستان کی معیشت بحران اور کرنسی گراوٹ کا شکار ہے،یواین نمائندے کا کہنا تھا کہ بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو پوری دنیا متاثر ہو گی، افغانستان ٹرسٹ فنڈ کو خوش آمدید کہتا ہوں، افغانستان کے عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں،ان کا کہنا تھا افغان عوام موسم سرما صرف مدد کے ساتھ نہیں گزار سکیں گے، ہمیں افغانستان کو صحت اور لائیولی ہڈ کے لیے مدد بھی دینا ہوگی،اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس سے دیگر رکن ممالک کے وزرائے خارجہ، نائب وزرائے خارجہ،مندوبین اور نمائندوں نے بھی خطاب کیا اور بڑے انسانی المیے پر قابو پانے کیلئے اقدامات کی یقین دہانی کرائی