مری کی برفباری میں پھنسے سیاح: ’کچھ گاڑیوں پر دستک دے رہے ہیں تو وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا‘

 
0
129

اسلام آباد 08 جنوری 2022 (ٹی این ایس): مری میں شدید برفباری کے بعد سڑکوں پر درخت اور بجلی کے کھمبے گرے ہوئے ہیں اور لوگ جگہ جگہ کھڑی گاڑیوں کے شیشوں پر دستک دے کر ان کی خیریت پوچھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جب جواب نہیں ملتا تو پھر گاڑیوں کو کھول کر اندر موجود افراد کو طبی امداد دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مری کی مقامی انتظامیہ، ریسکیو 1122 کے اہلکار اور مقامی افراد محصور مسافروں اور بے ہوش ہونے والوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ اس وقت مری میں شدید برفباری کی وجہ سے سیاح ٹریفک میں محصور ہیں جبکہ گاڑیوں میں طویل وقت تک بیٹھے رہنے، شیشوں کو بند کرنے اور ہیٹر آن ہونے کی وجہ سے بہت سے سیاحوں کے بیہوش ہو جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے اس برفباری میں اب تک 16 سے 19 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے لیکن راستوں کی بندش کے باوجود سیاح اب بھی وہاں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام آباد سے مری روڈ کی جانب جانے والے مرکزی راستوں پر حکام کی جانب سے چیکنگ کی جا رہی ہے اور راستہ مکمل طور پر بند ہے لیکن مری جانے والے ٹول پلازے پر اب بھی سینکڑوں گاڑیاں کھڑی دکھائی دے رہی ہیں۔

’لوگ گزرتی گاڑیوں کو ہاتھ دے کر پوچھ رہے ہیں کہ مری جائیں گے’
مری کے مقامی شخص شفیق نے بتایا کہ ’ابھی یہاں پر ٹریفک بہت زیادہ ہے اور کم از کم تین سو گاڑیاں سترہ میل ٹول پلازہ پر کھڑی ہیں جبکہ موٹروے پر جانے والے راستے میں پانچ سو کے قریب گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔‘

شفیق کے مطابق وہاں موجود لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’ہمیں رات سے یہی پتا تھا کہ راستے بند ہیں۔ کچھ لوگ رات تین بجے سے یہاں کھڑے ہیں اور کچھ صبح پانچ بجے سے یہاں کھڑے ہیں۔‘

شفیق نے اپنے سفر کا آغاز آج صبح اسلام آباد سے کیا تھا اور وہ کہتے ہیں کہ ’پہلا پوائنٹ آتے ہوئے سرینہ ہوٹل کے پاس اور دوسرے پوائنٹ ڈھوکری چوک کے پاس چیک پوسٹ لگی ہوئی ہے اور ایک سائڈ بند کی گئی۔ سرینہ چوک بند ہے۔ آگے بھارہ کہو میں آنے والوں کا رش زیادہ ہے۔‘

شفیق کہتے ہیں کہ ’مری کے راستے بند ہو جانے کی اطلاعات کے باوجود بھارہ کہو کی مین مری روڈ پر بہت سے لوگ گزرتی ہوئی گاڑیوں کو ہاتھ دے کر یہ پوچھ رہے ہیں کہ مری جائیں گے۔’

شفیق جو کہ مری کے رہائشی ہیں، ایک کچے راستے سے اپنے گھر جو گھوڑا گلی کے قریب ہے، پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

ثانیہ داؤد نے بتایا کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ جمعے کی شب مری کے لیے روانہ ہوئی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

’ہم لوگ اس وقت جھیکا چوک سے دو سو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ یہاں واش روم کے لیے لائن لگی ہوئی ہے اور سڑک پر دور دور تک صرف گاڑیاں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ہم صبح بچوں کو تھوڑی سی واک کر کے ناشتہ کرانے لے گئے لیکن اب پتا چلا ہے کہ گیس بھی کم ہو چکی ہے۔ راستے میں پھسلن کی وجہ سے نہ گاڑی نکل سکتی ہے اور نہ ہی اب ہم لوگ کہیں نکل سکتے ہیں۔‘

ریحان عباسی جو جمعے کی شب اپنے آبائی علاقے بیروٹ جا رہے تھے، کا کہنا ہے کہ وہ کل شام چھ بجے سے برف میں پھنسے ہوئے ہیں۔

’میں ابھی تک برف میں پھسا ہوا ہوں۔ لوگوں کی گاڑیوں میں ایندھن ختم ہو چکا ہے۔ انتہائی سردی ہے۔ میں نے اپنی گاڑی میں اس طرح وقت گزارا ہے۔ جیسے بس یہ سمجھ لیں کہ میں برف کی قبر میں دھنسا ہوا ہوں۔ قسمت تھی کہ بچ گیا ہوں۔‘

مری کے رہائشی مہتاب عباسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں برفباری کے دوران ایسی صورتحال نہیں دیکھی۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت وہ سنی بینک میں مرکزی شاہراہ پر موجود ہیں جبکہ ان گاڑی گذشتہ روز سے گلڈنہ سے دو کلومیٹر پیچھے پھنسی ہوئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ روز صبح ساڑھے گیارہ بجے باڑیاں سے نکلے تو اس وقت برفباری شروع ہو چکی تھی۔ ’جمعے کے دن دوپہر بارہ بجے برفباری کا آغاز ہوا۔ میں ٹریفک میں پھنس گیا تو گلڈنہ سے دو کلومیٹر پیچھے ہی گاڑی سے اترا اور پیدل چلنے لگا۔ برفباری کا سلسلہ صبح چھ بجے کے بعد تھم گیا ہے اور اب ہلکی ہلکی دھوپ نکل آئی ہے۔‘

مہتاب نے بتایا کہ رات کو تو انتظامیہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن اب امدادی اداروں کے اہلکار پیدل جا کر گاڑیوں میں محصور سیاحوں کی مدد کی کوشش کر رہے ہیں۔

مہتاب کہتے ہیں کہ مرکزی علاقوں میں ہوٹل تو کھل گئے ہیں لیکن شدید ٹریفک کی وجہ سے سیاح ایسی جگہوں پر ہیں جہاں سے ان کے لیے یہاں تک پہنچنا مشکل ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت مشینری کو آگے پیچھے لے جانے میں بھی مشکلات دکھائی دے رہی ہیں۔ ہائی وے کی ایک گاڑی سنی بینک پر پھنسی ہوئی ہے اور دو مشینیں اس سے آگے پھنسی ہوئی ہیں۔‘

مہتاب عباسی کے مطابق اس وقت مری میں بجلی نہیں اور جگہ جگہ بجلی کی تاریں گری ہوئی ہیں۔

’کچھ گاڑیوں پر دستک دے رہے ہیں تو وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا‘
امدادی سرگرمیوں میں شریک ایک مقامی شخص نے بتایا کہ مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں سیاحوں کو جگہ دی ہے جبکہ ہوٹلوں میں بھی لوگوں کو رہائش دی جا رہی ہے اس کے علاوہ دختران اسلام نامی اکیڈمی میں بھی سیاحوں کو رہائش دی گئی ہے۔

’رات کو انتظامیہ کا فوکس مرکزی سیاحتی مقام پر رہا۔ کلڈنہ کا زیادہ علاقہ جنگل میں ہے انتظامیہ صبح وہاں پہنچی میں خود وہیں موجود ہوں۔ رضاکارانہ طور پر مقامی لوگ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام میں مدد کر رہے ہیں۔‘

صحافی زبیر خان کے مطابق مری روڈ کی نواحی بستی اور امدادی کاموں میں اس وقت شریک ایک شخص گل حسن کے مطابق کچھ گاڑیاں ایسی ہیں جن پر دستک دے رہے ہیں تو وہاں سے کوئی جواب نہیں ملتا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے دو ایسی گاڑیوں کی نشاندہی کی ہے۔ جن کے بارے میں حکام کو آگاہ کیا گیا ہے، ان گاڑیوں پر دستک دی تو کوئی جواب نہیں ملا۔

امدادی کاموں میں شریک اور ایک شخص محمد محسن کا کہنا ہے کہ ہمیں تو لگتا ہے کہ جو صورتحال بتائی جا رہی ہے، حقیقت اس سے زیادہ بری ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صبح سے امدادی کارکناں مصروف عمل ہیں اور مقامی لوگ بھی مصروف ہیں مگر ہمارے خیال میں یہ سرگرمیاں بہت کم ہیں۔ ہمیں امدادی سرگرمیوں میں انتہائی تیزی پیدا کرنا ہو گی۔

پوری دنیا میں برف پڑنے سے پہلے تنبیہ جاری کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں موسم کبھی بھی خراب ہوسکتا ہے اس لیے گھر میں رہیں لیکن مری میں الرٹ جاری کرنے میں بہت دیر کر دی گئی۔

اس بارے میں ماہر ماحولیات توفیق پاشا معراج نے بتایا کہ برفباری کی صورت میں انتظامیہ کو سب سے پہلے مری جانے والی سڑکیں بند کرنی چاہیے تھیں۔

وہ اس حوالے سے چند احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں جن پر عمل کر کے برفباری میں پھنسے سیاح مزید نقصان سے بچ سکتے ہیں:

جو لوگ گاڑیوں میں اپنے بچوں یا گھر والوں کے ساتھ بند ہیں وہ مدد آنے تک اپنی گاڑی کا پیٹرول یا ڈیزل بچانے کے لیے اسے بند کر دیں۔
گاڑی کو کسی کی مدد سے سڑک کے کنارے پر پارک کریں نہ کہ بیچ راستے میں، ٹائر پر لوہے کی زنجیر لگا دیں اور ہو سکے تو گاڑی کو گرم رکھنے کے لیے ہیٹر نہ چلائیں۔
لوگ بھری گاڑی میں بھی ہیٹر چلا دیتے ہیں جس سے گاڑی میں گھٹن ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اگر آپ ایک گاڑی میں دو سے تین لوگ ہیں تو ویسے ہی انسانی جان کی گرمی سے گاڑی اندر سے گرم ہی رہے گی۔
کسی بھی صورت اپنی گاڑی کو چھوڑ کر پیدل نہ نکلیں کیونکہ آپ جہاں کھڑے ہیں اس سے آگے موسم کی کیا صورتحال ہے اس کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے۔ سڑک پر تنہا پھنسے سے گاڑی کے اندر بیٹھنا قدرے بہتر ہے۔