سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے۔” طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ وزیراعظم پاکستان

 
0
105

اسلام آباد 01 اپریل 2022 (ٹی این ایس): وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے۔ ساڑھے 3 سالوں میں عالمی سطح پر پاکستان کو جو عزت ملی اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، ایک طاقتور ملک نے ناراض ہوکر ہمیں کہا کہ آپ روس کیوں چلے گئے؟ اور غصہ ہوگئے، حالانکہ ان کا اپنا اتحادی بھارت بھی روس-یوکرین جنگ میں نیوٹرل رہا اور روس سے تیل بھی خرید رہا ہے۔سینئر صحافی اصغرعلی مبارک کی خصوصی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں 2 روزہ نیشنل سیکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آج برطانیہ کی فارن سکیریٹری کا بیان پڑھا کہ ہم بھارت کو کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ آزاد ملک ہے اور اس کی آزاد خارجہ پالیسی ہے، تو پھر ہم کیا ہیں؟انہوں نے کہا اس سب کی ذمہ داری میں کسی اور پر نہیں ڈالتا، جن لوگوں نے اچکنیں سلوا لی ہیں وہ کل بیان دے رہے تھے کہ امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے، امریکا کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہوسکتا، ان لوگوں کی وجہ سے آج ہم یہاں پہنچے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ جس ملک کی آزاد خارجہ پالیسی نہ ہو وہ کبھی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتا اور نہ دنیا میں اس ملک کی عزت ہوتی ہے، ہم نے اپنے ساڑھے 3 سالہ دور حکومت میں پوری کوشش کی کہ ملک کی آزاد خارجہ پالیسی ہو، کسی بلاک کا حصہ بننے سے بھی ہم دور رہے۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مدینے کی ریاست کے نظریے کی سمجھ نہیں آرہی، مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ ووٹ لینے کے لیے اور سیاست کے لیے ریاست مدینہ کا نام لیتا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی ملک میں عدم تحفظ کا احساس سب سے زیادہ تب ہوتا ہے جب ملک میں امیر غریب کا فرق موجود ہو، مساوی قانون کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا، یہی ریاست مدینہ کا تصور تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سیکیورٹی تب آتی ہے جب ہر شہری ذمہ داری لیتا ہے، سیکیورٹی فوج نہیں عوام دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی تاریخ پر نظرڈالیں تو باہر سے حملہ آور آتے تھے اور قبضہ کرلیتے تھے، لوگ کوئی مزاحمت اس لیے نہیں کرپاتے تھے کیونکہ ان کو کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا اور محض اوپر بیٹھنے والے ہی فیصلے کرتے رہتے تھے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے ملک میں عدم تحفظ کا سب سے بڑا مسئلہ غیر مساوی ترقی کے سبب ہے، ہمارے امیر غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے رہے اور ایلیٹ کلاس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کرلیاان کا کہنا تھا کہ میں اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کا بار بار حوالہ دیتا ہوں کہ ہر سال 1.6 ٹریلین ڈالرز غریب ملکوں سے امیر ملکوں میں جاتا ہے، اس کی وجہ بھی ان ممالک میں قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے۔ انہوں نے کہا خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی ملک کے لیے بہت ضروری ہے، پاکستان کے آگے نہ بڑھنے کی ایک وجہ دیگر ممالک پر انحصار کرنا بھی ہے، ملک کا انحصار بیرونی امداد پر ہو تو قوم بن ہی نہیں سکتی۔انہوں نے کہا کہ بھارت، بنگلہ دیش، ویت نام، کمبوڈیا جیسے ممالک ہم سے آگے نکل گئے، ہم اسی لیے پیچھے رہ گئے کیونکہ ہم نے لوگوں کی بہتری کی بجائے بیرونی امداد کے لیے فیصلے کیے، کسی اور ملک کے مفادات کے لیے ہم نے اپنے ملک کو قربان کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کبھی یہ جائزہ نہیں لیا کہ افغان جہاد میں حصہ لے کر ہم نے کیا کھویا کیا پایا، کیا ہم نے افغان جہاد میں افغان عوام کی مدد کے لیے شرکت کی یا ڈالرز کے لیے کی تھی؟ کرپشن، کلاشنکلوف، ڈرگز جیسے مسائل اس فیصلے کے ہی کے اثرات تھے، نائن الیون کے بعد ہم نے پھر یہ غلطی دہرائی۔