پاکستان کے ایٹمی پروگرام پرسوالات کیوں؟ غیر ضروری تبصرو ں سے گریز ضروری

 
0
235

اندر کی بات ؛کالم نگار؛اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 06 جون 2022 (ٹی این ایس): چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا کاکہناہےکہ ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا , جنرل ندیم رضا نے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا ہےکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بے بنیاد اور غیر ضروری تبصرے سے ہر صورت گریز کیا جائے، سول اورملٹری قیادت اس اسٹریٹیجک پروگرام کے ساتھ سیسہ پلائی دیوارکی طرح کھڑی ہے نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ندیم رضا نے کہاکہ پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت وطن کے دفاع اور سالمیت کی ضامن ہے،نیوکلیئر پروگرام کو عوام اور تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ جنرل ندیم کا کہنا تھا کہ قومی سکیورٹی ناقابل تقسیم ہے اور پاکستان اپنے نیوکلیئر پروگرام پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا، پاکستان ایک ذمہ دار اور پراعتماد نیوکلیئر ملک ہے، پاکستان کی پالیسی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس ہے جو کہ قابل اعتماد ایٹمی توازن کے دائرہ کار میں ہے۔ انہوں نے کہاکہ قومی اسٹریٹیجک پروگرام پر بے بنیاد اور غیر ضروری تبصرے سے ہر صورت گریز کیا جائے، سول اورملٹری قیادت اس اسٹریٹیجک پروگرام کےساتھ سیسہ پلائی دیوارکی طرح کھڑی ہے۔ ڈپٹی چیئرمین نیشنل کمانڈ اتھارٹی جنرل ندیم رضا نے مزید کہا کہ ہماری قومی سکیورٹی اور سیفٹی میکنزم ہر قسم کے خطرے کے خلاف تمام قومی اور بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق ہے، نیوکلیئر ممالک میں رائج طریقہ عمل کے مطابق صرف نیشنل کمانڈ اتھارٹی ہی اسٹریٹیجک پروگرام پر رسپانس اور تبصرہ دینے کی مجاز ہے۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پالیسی کے تحت علاقائی عوامل اور سیکیورٹی پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل ندیم رضا نے کہا کہ ملکی نیوکلیئرصلاحیت مادروطن کےدفاع اورسالمیت کی ضامن ہے، ملکی نیوکلیئرپروگرام کوعوام، سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ قومی سیکیورٹی ناقابل تقسیم ہے، پاکستان اپنے نیوکلیئر پروگرام پرکسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا، پاکستان ایک ذمہ داراور پر اعتماد نیوکلیئر ملک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سول وملٹری قیادت نیشنل کمانڈاتھارٹی کےاس اسٹریٹجک پروگرام کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہے،ڈپٹی چیئرمین نیشنل کمانڈاتھارٹی کا کہناتھا کہ ملکی پالیسی فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس ہے ، جو قابل اعتماد ایٹمی توازن کے دائرہ کارمیں ہے اور ہماری قومی سیکیورٹی،سیفٹی میکنزم ہرقسم کے خطرے کے خلاف تمام ضابطوں کے مطابق ہے۔ قومی اسٹریٹجک پروگرام پربےبنیاداورغیرضروری تبصرےسےگریزکیاجائے ، نیوکلیئر ممالک میں رائج طریقے کے مطابق نیشنل کمانڈاتھارٹی اسٹریٹجک پروگرام پر رسپانس اور تبصرے کی مجاز ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ھےکہ اعلیٰ فوجی عہدیدار کا یہ بیان پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ’صحیح فیصلے‘ کرنے پر زور دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔ بول نیوز کے پروگرام ‘تجزیہ’ کے لیے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کو انٹرویو دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے سربراہ نے خبردار کیا تھا کہ اگر پاکستان اپنی جوہری ڈیٹرنس کھو دیتا ہے تو وہ ‘تین ٹکڑوں’ میں بٹ جائے گا۔ سابق وزیر اعظم عمران نے مزید کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال ملک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے، جس نے مسلسل دعویٰ کیا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے کیونکہ سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ملک سیاسی ہلچل سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا اگر اسٹیبلشمنٹ نے درست فیصلے نہیں کیے تو میں تحریری طور پر یقین دلاتا ہوں کہ وہ اور فوج تباہ ہو جائیں گے کیونکہ اگر ملک دیوالیہ ہو گیا تو اس کا کیا بنے گا،”۔ پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو کون سا ادارہ [سب سے زیادہ] متاثر ہوگا؟ فوج. عمران نے کہا۔ اس کے بعد ہم سے کیا رعایت لی جائے گی؟ جوہری تخفیف، …. انہوں نے مزید کہا کہ اگر اس وقت درست فیصلے نہ کیے گئے تو ملک خودکشی کی طرف جا رہا ہے۔ حکمران اتحاد کے سیاستدانوں نے عمران کو ان کے ریمارکس پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ان پر “ملک کے خلاف دھمکیاں دینے” اور انہیں عوامی عہدے کے لیے نااہل قرار دینے کا الزام لگایا ۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر غیر ضروری تبصرو ں سے گریز کیا جائے۔یہاں یہ بتانا ضروری ھےکہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نےبول نیوز کے پروگرام ’تجزیہ‘ کے اینکر پرسن سمیع ابراہیم کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو فوج تباہ اور ملک 3 ٹکڑے ہوجائے گا۔ عمران خان کا کہنا تھاکہ دشمنوں کی جانب سے لاحق خطرات کے سبب ملک کے لیے مضبوط فوج کا ہونا ضروری ہے لیکن ایک مضبوط فوج اور مضبوط حکومت کے درمیان توازن قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سربراہ پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا تھاکہ موجودہ سیاسی صورتحال ملک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا ’یہ اصل میں پاکستان کا مسئلہ ہے، اسٹیبلشمنٹ کا مسئلہ ہے، اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ صحیح فیصلے نہیں کرے گی تو میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں یہ بھی تباہ ہوں گے اور فوج سب سے پہلے تباہ ہوگی کیونکہ ملک دیوالیہ ہوگا‘۔عمران خان نے کہا کہ ’اگر ہم دیوالیہ کر جاتے ہیں تو پاک فوج نشانہ بنے ہوگی، جب فوج نشانہ بنے گی تو ہم سے ایٹمی پروگرام لے لیا جائے گا‘۔ انتخابات کا اعلان نہ ہوا تو ملک خانہ جنگی کی طرف جائے گا۔ان کا کہنا تھا ’ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ ہمیں قانونی اور آئینی طریقوں سے انتخابات کی جانب جانے دیتے ہیں ورنہ یہ ملک خانہ جنگی کی طرف چلا جائے گا‘۔عمران خان نے کہا کہ جب ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ان کی حکومت کمزور تھی اور اسے اتحادیوں کی ضرورت پڑی، انہوں نے مزید کہا کہ اگر دوبارہ وہی صورتحال پیدا ہوئی تو وہ دوبارہ انتخابات کی جانب جائیں گے اور اکثریت حاصل کریں گے ورنہ اقتدار قبول نہیں کریں گے۔انہوں نے کوئی وضاحت یا حوالہ دیے بغیر کہا ’ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، ہمیں ہر جگہ سے بلیک میل کیا گیا، طاقت ہمارے پاس نہیں تھی، سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں طاقت کا مرکز کہاں ہے اس لیے ہمیں ان پر انحصار کرنا پڑا‘۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر وقت ان پر بھروسہ کیا، انہوں نے بہت اچھی چیزیں بھی کیں لیکن انہوں نے بہت سے وہ کام نہیں کیے جو ہونا چاہیے تھے، ان کے پاس طاقت ہے کیونکہ وہ نیب (قومی احتساب بیورو) جیسے اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں جوکہ ہمارے اختیار میں نہیں تھا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ ان کی حکومت برسراقتدار تھی لیکن اس کے پاس تمام طاقت اور اختیار نہیں تھا۔ ’اگر میں اقتدار میں ہوں لیکن میرے پاس مکمل طاقت اور اختیار نہ ہو تو کوئی ادارہ کام نہیں کرتا، نظام تب کام کرتا ہے جب اقتدار اور اختیار ایک جگہ ہو‘۔ایک اور سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ قومی اسمبلی میں واپسی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا مطلب اس سازش کو قبول کرنا ہوگا جس نے ان کی حکومت کو ہٹایا۔انھوں نے کہا کہ وہ مظاہرین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ان کی پارٹی کی درخواست پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں، جس کے بعد وہ اگلے مارچ کی تاریخ دیں گے۔ایک سوال کے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ صلح حدیبیہ تو اس روز ہوئی تھی جب میں نے صبح دھرنا نہیں دیا، میں اس کو صلح حدیبیہ سمجھتا ہوں، صلح حدیبیہ بڑے مقصد تک پہنچنے کیلئے ایک سمجھوتہ تھی۔عمران خان نے کہا کہ اگر پاکستان اپنی جوہری صلاحیت کھو دیتا ہے تو اس کے 3 ٹکڑے ہو جائیں گے، انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس وقت درست فیصلے نہ کیے گئے تو ملک خودکشی کی جانب جا رہا ہے۔ عدم اعتماد کے ووٹ کی رات سے متعلق سوال پر عمران خان نے مزید تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ’تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، چیزیں سامنے آتی ہیں، اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا لیکن جب تاریخ لکھی جائے گی تو وہ ایسی رات شمار کی جائے گی جس میں پاکستان اور اس کے اداروں کو بہت نقصان پہنچا‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ان اداروں نے ہی پاکستان کو کمزور کیا جنہوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی اور اسے مضبوط کیا تھا‘۔عمران نے کہا کہ انہوں نے نیوٹرلز کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ کورونا وبا کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی کسی معجزے سے کم نہیں تھی۔انہوں نے کہا ’میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں اور اگر میری حکومت کو ہٹانے کی یہ سازش کامیاب ہوتی ہے تو ہماری معیشت تباہ ہوجائے گی‘۔انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کو بھی پریزنٹیشن دینے کے لیے بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس وقت ملک ایک فیصلہ کن مرحلے پر ہے، اس وقت سب کا ٹرائل ہے، اسٹیبلشمنٹ کا بھی ٹرائل ہے کیونکہ ساری قوم کو معلوم ہے کہ وہ پاور بروکرز ہیں، اسی طرح عدلیہ اور سپریم کورٹ کا بھی ٹرائل ہے‘۔واضح رہے کہ عمران خان کے اس بیان پر ہر طرف سے تنقید کی جارہی ہے اور خود ان کے پارٹی راہنما بھی ان سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔پاکستان دنیا کی پہلی اٹیمی ریاست ہے آزادی کے بعد پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنانے کا عندیہ نہیں دیا اور سنہ 1953 میں وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے سرکاری طور پر ’ایٹم بم نہ بنانے‘ کا پالیسی بیان جاری کیا۔ تاہم توانائی کی پیداوار کے لیے ایٹمی پروگرام کے آغاز میں دلچسپی ظاہر کی۔ 11 مئی کو جب انڈیا نے پوکھران میں تین ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے فوراً بعد دباؤ پاکستانی حکومت اورفیصلہ سازوں پر آ گیا۔ یہ دو طرفہ دباؤ تھا، اندرونی اور بیرونی۔
عوام تھے کہ انڈیا کے ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب چاہتے تھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو کسی بھی قیمت پرایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتی تھیں۔ پاکستانی حکمران ابھی اسی شش و پنج میں تھے کہ انڈیا نے 13 مئی کو دو مزید دھماکے کر دیے۔پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر تھیں۔ ایک طرف عوام تھے جن کے جذبات تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ بین الاقوامی طاقتیں لالچ اور پابندیوں کی دھمکیوں کے ذریعے پاکستان کو جوابی اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں اور دوسری طرف انڈین حکمران اور سیاستدان صبح شام اشتعال انگیز بیانات کے ذریعے پاکستان کو اکسا اور دھمکا رہے تھے۔پھر بالآخر پاکستان نے 28 مئی کو پانچ دھماکے کرکے دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا۔
ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان کا ایٹمی سفر بھی ایک منزل پر پہنچ گیا، جو پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف ادوار سے گزرنے اور مشکلات آنے کے باوجود جاری و ساری رہا تھا۔پاکستان نے سنہ 1953 میں امریکہ کے ساتھ صنعتی اور پُرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال اور ری ایکٹر کی تعمیرکی یادداشت پر دستخط کیے۔ 1953 میں امریکہ کی ’ایٹم فارپیس‘ پالیسی کی حمایت اور بعد ازاں اس کے ساتھ پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کی یادداشت کے بعد پاکستان ایٹمی پروگرام کے فروغ کے لیے سنہ 1953 میں اٹامک انرجی کمیشن کا باضابطہ قیام عمل میں لایا۔پاکستان نے سنہ 1960 اور 63 کے دوران یورینیم کی تلاش کا پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت لاہور اور ڈھاکہ میں دو سینٹرز قائم کیے گیے۔ ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر ملنے کے بعد پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اس کو نکالنا شروع کیا۔ 1965 میں پاکستانی اداروں کوعلم ہوا کہ بھارت ایٹمی ہتھیار بنانے کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔ جس پر اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقارعلی بھٹواور صدر ایوب خان نے بین الاقوامی اٹامک انرجی ایجنسی کے پاکستانی انجینئر منیراحمد خان سے ملاقاتیں کی۔ تاہم وقتی طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان نے کینیڈا کی مدد سے سنہ 1972 میں پہلا سویلین نیوکلیئر ری ایکٹر لگایا۔1973 میں مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کے بعد پاکستانی حکام نے یہ سوچنا شروع کر دیا تھا کہ انڈیا سے مقابلے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ضروری ہے۔ جب 1974 میں انڈیا نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کو ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ہر صورت ایٹم بم بنائے گا، چاہے گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔ 1974 میں کینیڈا نے جوہری عدم پھیلاؤ تنازع کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایٹمی تعاون ختم کر دیا۔ اسی سال پاکستان نے یورینیم کی افزودگی کے لیے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم کیں اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے یورینیم افزودگی پر کام شروع کیا۔ 1979 میں امریکہ نے پاکستان کی فوجی اور معاشی امداد یہ کہہ کر معطل کر دی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام پُرامن نہیں رہا۔پاکستان نے سنہ 1980 میں دعوٰی کیا کہ وہ ملک کے اندر موجود یورینیم سے ایٹمی ایندھن تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔مریکہ نے سنہ 1982 میں خطے میں رونما ہونے والی سیاسی اور فوجی تبدیلیوں کے بعد پاکستان سے معاشی اور فوجی امداد کی پابندیاں ہٹا لیں۔ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی بنا پرامریکہ نے سنہ 1990 میں دوبارہ پاکستان پر معاشی اور فوجی پابندیاں عائد کر دیں۔بھارت نے سنہ 1996 میں ایٹمی وار ہیڈ لے جانے والے پرتھوی میزائل کا تجربہ کیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اپریل 1998 میں ایٹمی میزائل غوری کا تجربہ کیا۔انڈیا نے 11 اور 13 مئی 1998 کو یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر دیے، دھماکوں کے بعد انڈیا کی جانب سے پاکستان کو دھمکی آمیز بیانات دیے جانے لگے، پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں کی جانب سے بھارت کو جواب دیے جانے کا مطالبہ ہوا، صورت حال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر متعدد ممالک پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے لیے آگے بڑھے۔ اس کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے گئے۔ دھماکوں کے لیے بلوچستان کے علاقے چاغی کی پہاڑی کو چنا گیا۔28 مئی 1998 کی صبح پاکستان کی تمام عسکری تنصیبات کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ دھماکے کے مقام سے دس کلومیٹر دورآبزرویشن پوسٹ پر دس ارکان پرمشتمل ٹیم پہنچ گئی جن میں اٹامک انرجی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے چار سائنس دانوں کے ساتھ پاک فوج کی ٹیم کے قائد جنرل ذوالفقار شامل تھے۔ تین بج کر 16 منٹ پر فائرنگ بٹن دبایا گیا جس کے بعد چھ مراحل میں دھماکوں کا خود کار عمل شروع ہوا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کے جوہری سائنسدانوں نے سنہ 1984 میں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور انھوں نے جنرل ضیاالحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں لیکن ان کے امریکی نواز وزیر خارجہ اور دوسرے وزیروں نے سخت مخالفت کی۔پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف اب بھی یہ پراپیگنڈہ ہوتا رہتا ہے کہ یہ ہتھیار دہشتگردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں حالانکہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کیلئے اتنا ہی مضبوط اور موثر نظام قائم کر چکا ہے جتنا کہ کسی دوسرے ایٹمی ملک نے کیا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں، پاکستان اپنی ایٹمی توانائی اور مہارت سے صحت، صنعت اور زراعت کے شعبوں کی ترقی کیلئے ہر طرح کا کام لے رہا ہے۔ پاکستان اپنے ایٹمی بجلی گھروں سے کم و بیش تین ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ وہ نیوکلیئر پاور پلانٹ سے مزید بجلی پیدا کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ پاکستان سے کینسر جیسے موذی مرض اور کئی دوسرے امراض کی تشخیص اور ان کے علاج کیلئے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ادارے بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح زراعت کے شعبہ میں زراعت کی ترقی، فصلوں کی پیداوار میں اضافے اور ان کے تحفظ کیلئے بھی ایٹمی توانائی کا استعمال ہو رہا ہے۔ صنعت اور انجینئرنگ کے شعبہ میں بھی ایٹمی توانائی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کو صرف ہتھیاروں کے لئے ہی استعمال نہیں کر رہا ہے، پاکستان اسے ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے بھی بروئے کار لا رہا ہےواضح رہے کہ عمران خان کے اس بیان پر ہر طرف سے تنقید کی جارہی ہے اور خود ان کے پارٹی راہنما بھی ان سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں…