اسلام آباد (ٹی این ایس) عوام دوست بجٹ پر سرمایہ کاروں کا اظہار اعتماد

 
0
9

( اصغرعلی مبارک )

اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیراعظم شہباز شریف نے اسٹاک مارکیٹ کے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچنے پر اظہار اطمینان کیا اور کہا ہےکہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سرمایہ کاروں کا عوام دوست بجٹ پر اعتماد کا اظہار ہے وزیر اعظم شہباز شریف نےکہا ہےکہ بجٹ میں عام آدمی پرٹیکس کا مزید بوجھ نہیں ڈالا گیاشہباز شریف کا کہنا تھا کہ تنخواہوں میں اضافہ اور ٹیکس میں کمی سے نوکری پیشہ افراد کو ریلیف ملے گا، الحمدللہ ملکی معاشی ترقی کا سفر شروع ہے، پاکستانی عوام نے قربانیاں دیں، اب ہم سب کو مل کر عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کےلیے محنت کرنی ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ مہنگائی کی شرح میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ معاشی ٹیم کی محنت سے ممکن ہوا، پاکستان کی ڈیفالٹ کے دہانے سے واپسی اور ترقی کا سفر ایک معجزہ ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہےکہ پچھلے سوا سال میں ملک نے بے انتہا چیلنجز کا سامنا کیا اور عام آدمی نے قربانی دی۔ تنخواہ دار طبقے نے پچھلے بجٹ میں بوجھ اٹھایا، اشرافیہ کو اس سوال کا جواب دینا ہوگا کہ انہوں نے کتنا اور تنخواہ داروں نے کتنا ٹیکس دیا، پچھلے سوا سال میں ملک نے بے انتہا چیلنجز کا سامنا کیا اور عام آدمی نے قربانی دی۔ مشکل حالات میں حکومت نے جو کارکردگی دکھائی ہے وہ کوئی معمولی کامیابی نہیں، پاکستان کو اب ٹیک آف کرنا ہوگا۔وفاقی حکومت نے 175 کھرب سے زائد (17 ہزار 573 ارب) کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیاہے,وزیر خزانہ کا بجٹ تقریر میں کہنا تھاکہ یہ بجٹ انتہائی اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، حالیہ پاک بھارت جنگ میں قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، حالیہ جنگ میں کامیابی پر عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد دیتا ہوں، عالمی برداری میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہماری توجہ اب معاشی ترقی پر ہے، معاشی اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام لایا گیا، معیشت کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے، افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی اور ترسیلات زر 10 ماہ میں 36ارب ڈالر رہیں۔مالی سال 2025-2026 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح4.2فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 7.5فیصد متوقع ہے، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9فیصد ، پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4فیصد ہوگا۔ بجٹ دستاویز کے مطابق ٹیکس ریونیو کا ہدف 14ہزار 131 ارب روپے، نان ٹیکس ریونیو وصولی کا ہدف 5147ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، بجٹ خسارہ رواں سال 5.9 فیصد تھا جوکہ 8500 ارب روپے بنتا ہے۔ قرض پر سود کی ادائیگی کی مد میں 8207 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، رواں سال اس مد میں 9ہزار 9775ارب روپے مختص کیےگئےتھے۔ وفاقی بجٹ میں دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور بجٹ میں دفاع کیلئے 2550 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے ہوگی جبکہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17ہزار 573 ارب روپے ہے، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کےلیے ایک ہزار ارب کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔جٹ میں تنخواہوں میں 10 اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی جبکہ تنخواہوں پر بھی انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ وزیرخزانہ نے بتایاکہ 6 لاکھ روپے سے 12لاکھ روپے تنخواہ پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردی گئی جبکہ 22 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے 11 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایاکہ 22لاکھ روپے سے 32 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس 25 سےکم کرکے 23 فیصد کرنے کی تجویز ہےبجٹ 2025-26 میں جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی 3.5 فیصد شرح کم کرکے 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے جبکہ اسلام آباد میں جائیداد کی خریداری پر اسٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 میں آئن لائن خریداری پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنےکی تجویز دی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیسز کی تیزی سے ترقی نے ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے روایتی کاروباروں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معیاری مسابقتی فضا پیدا کرنے اور ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانےکے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہےکہ ای کامرس پلیٹ فارمز کی طرف سے ترسیل کرنے والےکورئیر اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے ان ای کامرس پلیٹ فارمز سے سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے۔ اس کے علاوہ بجٹ 2025 میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہےکہ مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں، ہر چیز قرض لیکر کررہے ہیں اور کچھ ملکی اخراجات ضرورت کے تحت بڑھائے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کوشش تھی تنخواہ دار طبقے کو جتنا ریلیف دے سکیں اتنا دیا، پینشن اور تنخواہوں کو مہنگائی کے ساتھ لنک کرنا ہے، خسارے کی وجہ سےہرچیز قرضہ لےکرکررہےہیں، حقیقت یہ ہے کہ مالی گنجائش کے مطابق ہی ریلیف دے سکتے ہیں، ملک میں کچھ اخراجات بڑھائے ہیں اس کی ضرورت ہے، اپنی چادر کے مطابق آگے چلنا ہے۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ بجٹ میں ٹیرف اصلاحات کی گئی ہیں، مجموعی طور پر 7 ہزار ٹیرف لائنز ہیں جن میں سے 4 ہزار ٹیرف لائنز کو صفر کردیا گیا ہے، ٹیرف اصلاحات سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اس سال ہم نےانفورسمنٹ کےذریعے 400 ارب سےزیادہ ٹیکس اکھٹا کیا، دو ہی طریقے ہیں یا تو انفورسمنٹ کرلیں یا ٹیکس لگادیں، اس حوالے سے قانون سازی کے لیےدونوں ایوانوں سے بات کریں گے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی برقرار ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچیج میں کاروبار شاندار رہاہے اور کاروبار کے اختتام پر 100 انڈیکس 2328 پوائنٹس اضافے سے 124352 کی ریکارڈ بلندی پر بند ہوا پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا مثبت آغاز ہوا، اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کی بجٹ سے مثبت توقعات کے بعد مسلسل زبردست تیزی کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔کاروبار کے آغاز پر 100 انڈیکس میں 1233 پوائنٹس کا اضافہ ہوا، جس کے بعد انڈیکس ایک لاکھ 25 ہزار 585 کی سطح پر آگیا۔ تاہم کاروبار کے دوران مزید تیزی دیکھنے میں آئی اورانڈیکس میں مجموعی طور پر 1675 پوائنٹس کا اضافہ ہوا جس سے انڈیکس 126028 کی نئی بلند ترین سطح عبور کرگیا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں کاروباری ہفتے کے چوتھے روز مارکیٹ کا آغاز مثبت رجحان کے ساتھ ہوا اور ابتدا ہی میں ایک ہزار 233 پوائنٹس کے اضافے سے انڈیکس ایک لاکھ 25 ہزار 585 پوائنٹس کی سطح کو چھو گیا۔ مارکیٹ میں تیزی کا یہ رجحان برقرار رہا اور 100 انڈیکس میں مجموعی طور پر ایک ہزار 675 پوائنٹس کا زبردست اضافہ دیکھا گیا جس کے ساتھ ہی مارکیٹ نے ایک لاکھ 26 ہزار 28 پوائنٹس کی نئی تاریخی بلندی عبور کرلی۔ بعد ازاں اسٹاک مارکیٹ میں دیکھی جانے والی تیزی میں تبدیلی دیکھنے میں آئی اور 100 انڈیکس 259 پوائنٹس کم ہوکر ایک لاکھ 24 ہزار 93 پوائنٹس پر بند ہوا، اسی کے ساتھ ساتھ بازار میں 1.02 ارب شیئرز کے سودے 50.5 ارب روپے میں طے ہوئے جبکہ مارکیٹ کیپٹلائزیشن 42 ارب روپے کم ہو کر ایک لاکھ 49 ہزار 51 روپے ہے۔ یاد رہے کہ کاروبار کا اختتام 100 انڈیکس میں 2 ہزار 328 پوائنٹس اضافے کے ساتھ ایک لاکھ 24 ہزار 352 پوائنٹس پر ہوا تھا جو مارکیٹ کی بلند ترین سطح تھی وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ترسیلاتِ زر میں اضافے کو ریکارڈ اضافہ قرار دیدیا۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ 2 سال میں ترسیلاتِ زر میں 10 ارب ڈالر کا ریکارڈ اضافہ ہوا، 30 جون تک اسٹیٹ بینک کے مالی ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اور ترسیلاتِ زر اس سال 38 ارب ڈالر تک ہوں گی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال ایک ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ پاکستان کو ملے گا، اس سال پانڈا بانڈ جاری کریں گے اور آئندہ سال انٹرنیشنل مارکیٹ کا رخ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ بڑھانے پر ایک پیج پر ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 700 ارب سے زائد کا اضافہ کیا جب کہ متوسط طبقے کو گھروں کی تعمیر کے لیے سستے قرضے دیں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ تنخواہ یا پینشن کی بات ہوتو کوئی بینچ مارک ہونا چاہیے، ساری دنیا میں مہنگائی کے ساتھ اضافے کے بینچ مارک کو رکھا جاتا ہے، مہنگائی کی شرح ابھی بھی 7.5 فیصد ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ وفاقی اخراجات کو کم کریں۔ تنخواہ داروں پر انکم ٹیکس سلیبس سے متعلق سوال پر وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 6 سے 12 لاکھ تک تنخواہوں کے سلیب پر 2.5 فیصد انکم ٹیکس ہوگا۔ وفاقی حکومت نے بجٹ 2025-26 میں انکم ٹیکس کے سلیبز کو تو برقرار رکھا ہے، تاہم ان پر ٹیکس کی شرح میں تبدیلی کی گئی ہے۔
فنانس بل کے مطابق بجٹ 2025-26 میں گزشتہ سال کے بجٹ کی طرح کل چھ انکم ٹیکس سلیبز رکھے گئے ہیں، جن پر مختلف شرحوں کے مطابق ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ یہ سلیبز سالانہ چھ لاکھ تک تنخواہ، چھ لاکھ سے 12 لاکھ، 12 لاکھ سے 22 لاکھ، 22 لاکھ سے 32 لاکھ، 32 لاکھ سے 41 لاکھ، اور 41 لاکھ سے زائد سالانہ تنخواہ حاصل کرنے والوں کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ فنانس بل میں پہلی سلیب کے تحت سالانہ چھ لاکھ روپے تک تنخواہ پر زیرو انکم ٹیکس برقرار رکھا گیا ہے۔
بل کے مطابق انکم ٹیکس کی دوسری سلیب کے تحت سالانہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ روپے تک تنخواہ پر ڈھائی فیصد ٹیکس عائد ہو گا جبکہ اس سلیب پر پہلے پانچ فیصد ٹیکس عائد تھا۔ اس کے علاوہ تیسری سلیب میں شامل افراد کے لیے سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ روپے تک تنخواہ پر ٹیکس 15 فیصد سے کم کر کے 11 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ اس سلیب میں شامل تنخواہ دار طبقے پر چھ ہزار روپے فکسڈ ٹیکس بھی عائد ہو گا۔
فنانس بل میں یہ بھی درج ہے کہ اگلی یعنی چوتھی سلیب کے تحت 22 لاکھ سے زائد تنخواہ پر انکم ٹیکس 25 فیصد سے کم کر کے 23 فیصد مقرر کیا گیا ہے، جبکہ 22 سے 32 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ایک لاکھ 16 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس لاگو ہو گا۔ فنانس بل کے تحت بنائے گئے پانچویں سلیب کے مطابق سالانہ 32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے تنخواہ پر 30 فیصد انکم ٹیکس اور تین لاکھ 46 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس بھی عائد ہو گا۔

اسی طرح چھٹے سلیب میں شامل افراد کے لیے 41 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ تنخواہ پر 35 فیصد انکم ٹیکس اور چھ لاکھ 16 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس عائد ہو گاچھلے مالی سال 2024-25 میں تنخواہ دار افراد کے لیے بھی چھ انکم ٹیکس سلیبز مقرر کیے گئے تھے، تاہم ان کی شرح موجودہ سال کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
چھ لاکھ روپے سالانہ تک کی آمدنی پر اس وقت بھی مکمل ٹیکس چھوٹ حاصل تھی تاہم چھ لاکھ ایک روپے سے 12 لاکھ روپے تک آمدنی رکھنے والے افراد پر پانچ فیصد ٹیکس لاگو تھا، جو اب کم کر کے صرف ڈھائی فیصد کر دیا گیا ہے۔ 12 لاکھ ایک سے 22 لاکھ روپے آمدنی پر 15 فیصد، 22 لاکھ ایک سے 32 لاکھ روپے پر 25 فیصد، 32 لاکھ ایک سے 41 لاکھ روپے تک 30 فیصد، اور 41 لاکھ روپے سے زائد آمدنی پر 35 فیصد ٹیکس لاگو تھا۔ ہر سلیب کے لیے ایک فکسڈ رقم بھی شامل تھی، جو مخصوص آمدنی کی حد کے بعد لاگو ہوتی تھی۔ نئے بجٹ میں اگرچہ سلیبز کی تعداد وہی رکھی گئی ہے، تاہم ٹیکس کی شرحوں میں خاص طور پر درمیانے طبقے کے لیے واضح کمی کی گئی ہے تاکہ ان پر بوجھ کم کیا جا سکے