ملکی برآمدات، درآمدات کے مقابلے میں 40 فیصد رہ گئیں: وزیر خزانہ

 
0
110

اسلام آباد 09 جون 2022 (ٹی این ایس): وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل مالی سال 22-2021 کی اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کررہے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شرح نمو 4.8 فیصد کے مقابلے میں 5.97 فیصد رہی۔

اسلام آباد میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور خرم دستگیر کے ہمراہ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ پاکستان کا مسئلہ بدقسمتی یہ ہے کہ جب ہم ترقی کرتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں پھنس جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں مجموعی ملکی پیداوار میں شرح نمو 5.97 فیصد رہی اس نئے تخمینے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارا آپے سے باہر ہوگیا اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران آگیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ رواں برس ہماری درآمدات 76 سے 77 ارب ڈالر کے درمیان ہو گی جو تاریخی اور جی ڈی پی کے تناسب سے بھی سب سے بڑا نمبر ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن صرف 28 فیصد ہوا جس کی وجہ سے تجارتی خسارا 45 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایک زمانہ تھا جب پاکستان کی برآمدات، درآمدات کے مقابلے نصف ہوتی تھی جو اب صرف 40 فیصد رہ گئی ہے، یہ ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہم صرف 40 فیصد درآمدات کی ادائیگی برامدات سے کرسکتے ہیں 60 فیصد کے لیے ہمیں ترسیلات زر اور قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہم بار بار ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران جب دنیا بھر میں تجارت کم، پیٹرولیم مصنوعات، گیس سستی ہوگئی تھی اس دوران ادائیگیوں میں توازن آگیا تھا لیکن اس کے بعد جیسے ہی نمو کی اور وہی نسخہ اپنایا گیا تو ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ بڑے عرصے کے بعد پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے کم ہو کر 9.6 ارب ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں اور آئندہ پیر منگل تک چین سے 2 ارب 40 کروڑ ڈالر ملنے کے بعد یہ دوبارہ 12 ارب ڈالر کی سطح پر آجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی سمت سدھارنے کی ضرورت ہے تیل کی قیمت عالمی منڈی میں بہت بلند ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ہمیں بھی قیمتوں میں 30، 30 روپے اضافہ کرنا پڑا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں مشکل فیصلے لینے پڑے، ملک دیوالیہ ہونے کی طرف جارہا تھا اب ہم اس راستے سے ہٹ گئے ہیں اب استحکام کے راستے پر گامزن ہیں اور جلد مستحکم نمو دیکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری نمو کے 2 پہلو ہیں ایک وہ کہ جو مستحکم ہو جس میں بار بار کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، ادائیگیوں کا توازن خراب نہ ہو۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ رواں مالی سال جی ڈی پی کی شرح نمو 5.97 فیصد رہی لیکن ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن کا مسئلہ آگیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جامع نمو چاہیے، ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ سرمایہ کار طبقے کو تجارت آگے بڑھانے کے لیے مراعات دیتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوتا ہے کہ امرا جب صنعتیں لگاتے ہیں، مراعات پاتے ہیں تو درآمدات بہت بڑھ جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر جامع نمو ہوگی، غریب اور متوسط طبقے کی قوت خرید بڑھا کر نمو کی جائے تو اس سے مقامی اور زرعی پیداوار بڑھے لیکن درآمدی بل نہیں بڑھے گا کیوں کہ امرا جب خرچ کرتے ہیں تو اس میں درآمدی اشیا زیادہ ہوتی ہیں جبکہ غریب شخص آٹے دال وغیرہ جیسی چیزوں پر خرچ کرتا ہے۔