عمران خان کا صدر مملکت کو خط ،حملے کے ذمہ داروں کے محاسبے کا مطالبہ

 
0
65

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نےصدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کولکھے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں آئین و قانون کے انحراف کی راہ روکنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیںتاکہ شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے ۔چیئرمین تحریک انصاف نے خط میں لکھا کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا گیا ہے، قوم میری حقیقی آزادی کی پکار پر کھڑی ہوچکی ہے۔

عمران خان نے کہاکہ ہمیں جھوٹے الزامات، حراسگی، بلاجواز گرفتاریوں حتیٰ کہ زیر حراست تشدد جیسے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے، وزیر داخلہ بار بار مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا رہا ہے،وزیراعظم شہباز شریف، وزیرِداخلہ رانا ثناءاللہ اور آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر کیجانب سے میرے قتل کا منصوبہ میرے علم میں لایا گیا۔گزشتہ ہفتے ہمارے حقیقی آزادی مارچ کے دوران اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی،اللہ رب العزت نے مجھے بچایا اور میرے قتل کی کوشش ناکام رہی۔

عمران خان نے کہاکہ بطور سربراہِ ریاست اور دستور کے آرٹیکل 243(2) کے تحت افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے التماس ہے کہ قومی سلامتی سے جڑے ان معاملات کا فوری نوٹس لیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ صدرِ مملکت اپنی قیادت میں ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات، ان ذمہ داروں کے محاسبے کا اہتمام کریں، بطور وزیراعظم میرے، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے مابین گفتگو میڈیا کو جاری کرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں۔سنجیدہ ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی محفوظ گفتگو پر نقب لگانے کا ذمہ دار کون ہے؟

عمران خان نے خط میں لکھا کہ وزیراعظم کی محفوظ لائن پر یہ نقب قومی سلامتی پر اعلیٰ ترین سطح کا حملہ ہے،امریکہ سے ہمارے سفیر نے تبدیلئ حکومت کی امریکی دھمکی پر مشتمل خفیہ مراسلہ بھجوایا،میری وزارتِ عظمیٰ کے دوران اس مراسلے پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا،قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں واضح فیصلہ کیا گیا کہ یہ ہمارے اندرونی معاملات میں ناقابلِ قبول مداخلت ہے،قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے فیصلے کے تحت دفترِ خارجہ نے امریکی سفیر کو احتجاجی مراسلہ (ڈی مارش) دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کے دورِ حکومت میں منعقد ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس اجلاس کی کارروائی/فیصلوں کی توثیق کی،27 اکتوبر کو آئی ایس پی آر اور آئی ایس آئی کے ڈی جیز نے مشترکہ پریس کانفرنس کی،اس پریس کانفرنس میں قومی سلامتی کمیٹی کے دونوں اجلاسوں کے فیصلوں سے یکسر متضاد نکتۂ نظر اپنایا گیا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو فوجی افسران کیونکر کھلے عام قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں کو جھٹلا سکتے ہیں۔اس پریس کانفرنس سے ان فوجی افسران کی جانب سے جان بوجھ کر غلط بیانیے کی تخلیق کی کوشش کا سنجیدہ ترین معاملہ بھی پیدا ہوتا ہے، اس حوالے سے قابلِ غور اور جواب طلب دو اہم ترین سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔

عمران خان نے لکھا کہ اوّل یہ کہ پاکستان کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کا سربراہ پریس کانفرنس سے مخاطب ہو کیسے سکتا ہے،دو عسکری افسران کیسے مکمل طور پر ایک سیاسی پریس کانفرنس میں وفاقِ پاکستان کی سب سے بڑی اور واحد سیاسی جماعت کے سربراہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں،عساکر کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے حدودِ کار کو دفاعی و عسکری معاملات پر معلومات کے اجراء تک محدود کرنے کی ضرورت ہے،افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر کے طور آپ سے التماس ہے کہ آپ آئی ایس پی آر کی حدودِ کار کے تعین کے عمل کا آغاز کریں۔