وفاقی حکومت کے خلاف صوبوں کا احتجاج، ماضی میں مثال ملتی ہے؟

 
0
94
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کی حکومت کے خلاف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتوں کی سرپرستی میں احتجاج اور اس دوران اسلام آباد کا لاک ڈاؤن ملکی تاریخ میں ایک انوکھی مثال قائم  کر رہا ہے۔
وفاقی حکومت اسلام آباد میں امن و عامہ کی صورت حال برقرار رکھنے میں تو کامیاب ہے تاہم راولپنڈی سمیت ملحقہ شہروں میں سڑکوں اور موٹر ویزے کو کھلوانے میں ناکام رہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں اور پولیس اور انتظامیہ بظاہر مظاہرین کے سامنے مزاحمت نہیں کر رہے۔
اس صورت حال میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں رہنے والے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں اور وفاقی حکومت ان کی مدد کرنے میں بے بس نظر آتی ہے۔
منگل کو وفاقی وزارت داخلہ نے صوبوں میں امن و امان قائم کرنے اور راستے کھولنے کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹریز کو خط لکھا ہے جس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چھوٹے جتھوں نے موٹر ویز، ہائی ویز اور لنک روڈز بلاک کر رکھے ہیں۔
خط کے مطابق عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اور پولیس امن برقرار رکھنے اور راستے کھلوانے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مظاہرین نے عوام کی نقل و حرکت کو بند کر رکھا ہے جو آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں فوری طور پر احتجاج ختم کروائیں اور موٹر ویز سمیت دیگر راستے کھلوائیں۔
کیا ماضی میں صوبائی حکومتوں نے وفاق کے خلاف اس طرح احتجاج میں حصہ لیا؟

جس طرح کی صورت حال آج کل دکھائی دے رہی ہے، ماضی میں ایسی مثال کم ہی ملتی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنی سرپرستی میں وفاق کے خلاف اپنے صوبے کے اندر ہی احتجاج کروائیں اور سڑکوں اور راستوں کی بندش پر ایکشن نہ لیں۔
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی ان کے اپنے عوام تکلیف کا شکار ہیں۔‘
’آئین کے تحت صوبائی حکومتیں اپنی حدود میں امن و عامہ کی خود ذمہ دار ہیں۔ صوبوں میں احتجاج کی تو مثالیں موجود ہیں جیسے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں پارٹی نے وفاقی حکومت کے خلاف جلسے وغیرہ کیے ہیں مگر ایسا احتجاج جس سے صوبے کے اپنے لوگوں کو ہی تکلیف ہو اس کی مثال نہیں ملتی۔‘
ان کے مطابق عوام کے جان و مال کا تحفظ ایک حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر جب حکومت خود ہی راستے وغیرہ بند کروا دے تو لوگوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔‘
ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’احتجاج اور اظہار رائے کی آزادی ایک بینادی حق ہے تاہم نقل و حرکت و تجارت کی آزادی بھی ایک بنیادی حق ہے۔ ایک حق کی خاطر دوسرا حق مجروح نہیں کیا جا سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال میں وفاقی حکومت کے اختیارات محدود ہیں اور پولیس اور انتظامیہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہی ہوتی ہے۔‘
یاد رہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان (جن کے خلاف لاہور میں ایک بڑا احتجاج اتوار کو گورنر ہاؤس میں کیا گیا تھا) نے منگل کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صوبے میں گورنر راج کا نفاذ نامکمن نہیں ہے۔‘
 گورنر راج کے ذریعے وفاق براہ راست صوبائی حکومت کا نظام سنبھال سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔