وزیر اعظم شہباز شریف کا ملک کی سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا عزم

 
0
197

وزیر اعظم شہباز شریف نے ملک میں تمام سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا عزم کا اظہار کیا ہے جس کا مقصد ماہانہ 300 سے 500 میگاواٹ کی بچت اور درآمدی بل میں کمی لانا ہے جو تقریباً 27 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔اس اقدام کا آغاز اپریل تک وفاقی حکومت کے زیرانتظام سرکاری عمارتوں اور دفاتر کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے سے ہوگا۔
اسلام آباد میں سولرائزیشن/شمسی توانائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران برسر اقتدار رہنے والی تمام حکومتوں کو توانائی کے شعبے میں بے لگام گردشی قرضوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جوکہ تقریباً 2500 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔


ملک میں موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر دیرینہ اصلاحات کا وقت آگیا ہے جس کے لیے بیوروکریٹس کو قوم کی خدمت کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا اور نیب کے خوف کے بغیر سرکاری فائلوں کو کلیئر کرنا ہوگا۔ توانائی کی بچت کے منصوبے کے تحت وفاقی حکومت کی تمام وزارتیں، محکمے، اتھارٹیز اور صوبوں میں ان کی ذیلی شاخوں کی عمارتیں آئندہ 4 ماہ میں فوری طور پر شمسی توانائی پر منتقل ہو جائیں گی، یہ اقدام صوبائی حکومتوں کے لیے بھی ایک ماڈل ہوگا۔ زیر اعظم نے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر زور دیا کہ وہ وفاق کی طرح صوبوں میں بھی سولر سسٹم متعارف کرائیں اور اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔


شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک میں شمسی توانائی سے 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، وفاقی حکومت کی عمارتوں کی شمسی توانائی پر منتقلی اس طرح کی تبدیلی کا پہلا مرحلہ ہو گا۔
وزیراعظم نے شرکا کو بتایا کہ ’ذمہ داری اور اصلاحات کے فقدان کی وجہ سے پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور گزشتہ 30 برسوں میں آنے والی تمام سابقہ حکومتیں اس کی ذمہ دار ہیں، گردشی قرضہ ہمارے 700 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز سے 4 گنا بڑھ گیا ہے‘۔ وزیراعظم کا کہناتھا کہ عمران نیازی نے ملک کی ترقی کا راستہ روکا، ہم نے آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنا ہے اس کے بغیر گزارہ نہیں، ہم نے 15 سال میں اصلاحات نہیں کیں جس کا خمیازہ بھگتا، ایسے اقدامات کرنا ہونگے جس سے صنعت اور زراعت ترقی کرے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ جب گیس سستی مل رہی تھی اُس وقت کی حکومت نے غفلت سے کام لیا، جس کی وجہ سے آج گیس کا بحران ہے، ہم نے ملک کو توانائی بحران سے نکالنے کا عزم کر رکھا ہے۔دہشت گردوں کیلئے عمران خان کی جو پالیسی تھی، وہ چھوڑنا پڑے گی، ہم نے 15 سال میں اصلاحات نہیں کیں جس کا خمیازہ بھگتا، پچھلے دور میں احتساب کے نام پر انتقام لیا گیا، میں نے پنجاب میں 10 سال تک خدمت کی۔
وزیر اعظم نے سابق وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت میں نیب نیازی گٹھ جوڑ کے سبب سرکاری افسران کو کرپشن کے الزامات پر نیب کی غیر ضروری کارروائی اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑا جوکہ بعد میں ثابت بھی نہ ہوسکے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نیب نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے بنائی گئی 56 کمپنیوں کے خلاف بے بنیاد کیس بنایا لیکن 5 سال گزر جانے کے بعد بھی کرپشن ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ ’قوم اس وقت یقیناً بدترین مہنگائی کا شکار ہے، مشکل وقت کو برداشت کرنے پر عوام کو سراہتے ہیں تاہم حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا‘۔ ’پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام سے پیچھے ہٹ کر ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا اور اسی لیے آئی ایم ایف کو ہم پر اعتماد نہیں‘۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کہ کورونا وبا کے دوران گیس کی قیمتیں 2 ڈالر فی یونٹ کی ریکارڈ کم ترین سطح پر آگئی تھیں لیکن اس وقت کی حکومت نے اس کی درآمد میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جس کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس وقت عالمی صورتحال کے سبب گیس دستیاب نہیں ہے، ایندھن بھی عالمی مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے، اس صورتحال میں شمسی توانائی پر منتقل ہونے کا عمل برق رفتاری سے ہونا چاہیے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ توانائی کے حصول کیلئے مقامی کوئلے کو بھی بروئے کار لا رہے ہیں، ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے جنون سے کام کرنا ہوگا۔ جس ملک میں 27 ارب ڈالر کا تیل اور گیس امپورٹ ہوتا ہو وہاں ترقی کیسے ہوگی، ہم نے آئی ایم ایف معاہدے کی دھجیاں اُڑائیں، وہ ہم پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں، ہم نے آئی ایم ایف پروگرام جاری رکھنا ہے اس کے بغیر گزارہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے صنعت اور زراعت ترقی کرے، عمران نیازی نے ملک کی ترقی کا راستہ روکا، 56 کمپنیاں کہاں گئیں؟، ثاقب نثار ان کمپنیوں کے پیچھے پڑگئے تھے، ان 56 کمپنیوں کیخلاف ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں کرسکے۔ ملک کو بدنام کرکے ہماری ترقی کی رفتار کو روک دیا گیا، نیب نیازی گٹھ جوڑ سے ملک کو نقصان پہنچا۔خیال رہے کہ سورج کی دھوپ اپنے آپ میں آلودگی سے پاک ہے اور بہ آسانی میسر ہے۔ ہندوستان کو یہ سہولت حاصل ہے کہ سال کے 365 دنوں میں 250 سے لے کر 320 دنوں تک سورج کی پوری دھوپ ملتی رہتی ہے۔ دن میں سورج چاہے دس سے بارہ گھنٹے تک ہی ہمارے ساتھ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سورج کی گرمی ہمیں رات دن کے 24 گھنٹے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ دھواں ہے، نہ کثافت اور نہ ہی آلودگی۔ دیگر ذرائع سے حاصل توانائی کے مقابلے میں سورج کی روشنی سے 36 گنا زیادہ توانائی حاصل ہوسکتی ہے۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ سورج کی روشنی کرنوں کی شکل میں صرف چوتھائی حصہ ہی زمین پر آتی ہے اور تین چوتھائی حصہ کرہ ¿ باد میں ہی رہ جاتی ہے۔ سورج اپنی توانائی X-Ray سے لے کر Radio-Wave کے ہر Wave-Length پر منعکس کرتا ہے۔ اسپکٹرم (Spectrum) کے 40فیصد حصے پر یہ توانائی نظر آتی ہے اور 50 فیصد شمسی توانائی انفرا ریڈ (Infra-Red) اور بقیہ Ultra-Violet کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی ”سولر انرجی“ یا ”شمسی توانائی“ کہلاتی ہے۔ دھوپ کی گرمی کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دھوپ قدرت کا عطیہ ہے، ہر روز دنیا پر اتنی دھوپ پڑتی ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ سورج زمین سے تقریباً 15کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔ چونکہ آفتاب میں صرف تپتی ہوئی گیس پائی جاتی ہے، اس لیے اس کی کثافت (Density) کم ہے۔ اس کا وزن زمین سے سوا تین لاکھ گنا زیادہ ہے۔ سورج کی باہری سطح کا درجہ ¿ حرارت تقریباً 6ہزار ڈگری سیلسیس ہے۔ اس کے مرکزی حصے کا درجہ ¿ حرارت ایک کروڑ ڈگری Celcius ہے۔ اس کے چاروں طرف روشنی اور حرارت نکلتی رہتی ہے۔ سورج کی سطح کے فی مربع سینٹی میٹر سے پچاس ہزار موم بتیوں جتنی روشنی نکلتی ہے اور زمین سورج سے نکلی ہوئی طاقت کا محض دوسو بیس کروڑواں حصہ ہی اخذکر پاتی ہے۔ شمسی توانائی کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں۔ سبز پتیوں والے پودے اس طاقت کا استعمال کرتے ہیں جس کے باعث ان میں Photosynthesis کا عمل ہوتا ہے۔

انسانی زندگی کی نقل و حرکت کا خاصا انحصار توانائی پر ہے۔ آج جس بڑے پیمانے پر توانائی کا استعمال ہو رہا ہے اس سے خدشہ یہ ہے کہ توانائی کے ذخائر بہت دنوں تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ توانائی کے یہ ذخائر اور ذرائع ماحول کو بھی آلودہ کر رہے ہیں۔ ہمیں توانائی کے نئے متبادل تلاش کرنے ہوںگے تاکہ توانائی کے ساتھ ساتھ ماحول کو بھی آلودگی سے بچایا جاسکے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم تیل، کوئلہ، لکڑی اور گوبر کے علاوہ دھوپ، ہوا، پانی اور دیگر توانائی کے قدرتی ذرائع کا استعمال کریں۔ مزید برآں شمسی توانائی جو کبھی نہ ختم ہونے والا ذریعہ ہے۔ روایتی توانائی کے ذرائع ہیں کوئلہ، معدنی تیل، لکڑی اور گوبر وغیرہ جب کہ غیر روایتی توانائی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں شمسی توانائی، آبی یا موجی توانائی، ہوائی توانائی،پودوں سے پٹرول کشید کرکے توانائی حاصل کرنا، جوہری توانائی، بائیو گیس اور ارضی حرارتی توانائی۔ کوئلہ، معدنی تیل اور برقاب— توانائی حاصل کرنے کے تین اہم وسائل ہیں جن میں جوہری توانائی کا اضافہ ابھی حال میں ہوا ہے۔ کوئلہ توانائی کے حصول یا صنعتی ایندھن کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ کوئلے کی تین قسمیں ہیں۔ اینتھرا سائیٹ، بِیٹُومینس اور لگنائیٹ۔ ان سب میں سب سے عمدہ قسم اینھتراسائیٹ کی ہوتی ہے جس میں دھواں کم نکلتا ہے اور بہت گرمی دیتا ہے۔ دوسری قسم میں دھواں نسبتاً زیادہ نکلتا ہے مگر یہ بھی کافی گرمی دیتا ہے۔ تیسری قسم میں آنچ کم اور دھواں بہت ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئلے کے علاوہ قدرتی تیل یا پٹرولیم توانائی حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ہے۔ اور یہ نہایت کار آمد ایندھن بھی ہے۔ کچے قدرتی تیل سے ہمیں مٹی کا تیل، ڈیزل، پٹرول، اسپرٹ، کھانا پکانے کی گیس وغیرہ حاصل ہوتی ہے۔ ہماری روزانہ کی زندگی میں قدرتی تیل اور اس سے بنی ہوئی اشیا کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اسکوٹر، موٹر سائیکل، کار، بسیں، ریل گاڑیاں، جہاز، ہوائی جہاز ملیں اور فیکٹریاں وغیرہ پٹرول اور ڈیزل سے چلتے ہیں۔ غرض یہ کہ قدرتی تیل یا پٹرولیم ہماری معاشی زندگی کی شہہ رگ ہے۔ زمین کی گہرائیوں میں حرارت کا بے شمار خزانہ دفن ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق زمین کی اس پپڑی کے نیچے درجہ ¿ حرارت 7200oF یعنی 4000 سینٹی گریڈ ہے۔ حرارت اکثر آتش فشانو ں کے علاوہ زمین کے مختلف حصوں سے خارج ہونے والی بھاپ کی شکل میں بھی ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ 1904 میں Geo-Thermal Energy کو کام میں لانے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ زمین کے اندر کی بھاپ کو پائپ کے ذریعے چرخاب تک لایا گیا اور اس سے بجلی پیدا کی گئی۔ زمین اندر سے بہت گرم ہے اور اس میں جگہ جگہ پر گرم پانی کی دھار یا سوکھی بھاپ کی تیز دھار پھوٹتی رہتی ہے۔ اس حرارت کو اگر توانائی میں بدل دیا جائے تو ہزاروں سال تک توانائی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کوئلہ سے پٹرول بنانے کا طریقہ جنوبی افریقہ میں شروع ہوا۔ وہاں کوئیلے کی کانیں وافر مقدار میں کوئلہ فراہم کر سکتی ہیں مگر یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اور اس میں کوئلے کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کوڑا کرکٹ سے بھی توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکا میں سالانہ 25 کروڑ ٹن کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ اس سے دس کروڑ ٹن کوئلے کے برابر توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پودوں سے بھی پٹرول حاصل کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق گنے کے رس سے الکوہل (Alcohal) بنائی جاتی ہے اور اس الکوہل کو بطور پٹرول استعمال کرکے گاڑی چلائی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں پودوں سے الکوہل کا سب سے زیادہ ایندھن پیدا کرنے والا ملک برازیل ہے کیونکہ وہاں گنا بہت پیدا ہوتا ہے۔ اس تکنیک کا ہمارے ملک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ عہد حاضر کے سائنس داں سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے تجربات میں مصروف ہیں اور کافی حد تک انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ہوا کی طاقت کا استعمال دنیا کے کچھ ممالک نے آٹے کی چکیوں کو چلاکر کیا ہے۔ بہتے ہوئے پانی کوباندھ کے ذریعے روک کر بہت اونچائی سے گرا کر بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اگر سائنسی ترقی اسی رفتار سے ہوتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب سورج کی روشنی سے طاقت حاصل کرکے ہر وہ کام کیا جائے گا جو آج قدرتی تیل سے ہو رہا ہے اور جس کے ذخائر محدود ہیں۔ شمسی توانائی کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی ہے۔آج شمسی توانائی سے بہت سے کام لیے جا رہے ہیں۔ چاہے کھانا پکانا ہو، پانی گرم کرنا ہو یا مکانوں کو ٹھنڈا یا گرم رکھنا ہو۔ فصلوں کے دنوں میں دھان سکھانا ہو یا پائپوں کے ذریعے سینچائی۔ دہلی کے نزدیک گوالی پہاڑی میں سورج سے بجلی کی توانائی حاصل کرنے کے لیے ایک بجلی گھر بنایا گیا ہے جہاں پیداوار اور تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں۔ ملک کے دیگر حصوں میں Solar Photovoltaic Centres قائم کیے جا چکے ہیں جو ایک کلوواٹ سے ڈھائی کلوواٹ تک بجلی پیدا کرتے ہیں۔ گھروں، ڈیریوں، کارخانوں، ہوٹلوں اور اسپتالوں میں پانی گرم کرنے کے لیے ایسے آلات لگے ہیں جو 100 لیٹر سے لے کر سوا لاکھ لیٹر تک پانی گرم کر سکتے ہیں۔ شمسی چولھے کم سے کم دو کلو لکڑی کی بچت کر سکتے ہیں۔