وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں دہشتگردی سے نمٹنے کا عزم

 
0
193

پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنےاور پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے‘ کےعزم کا اعادہ کرکے قوم کا مورال بلند کردیا جو دہشتگردی کی لہر کے بعد کافی ڈاؤن تھا۔اس ضمن میں وزیراعظم شہبازشریف سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نےبھی ملاقات کی اور دونوں نے دہشتگردی سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔


وزیراعظم شہبازشریف سے آرمی چیف جنرل عاصم منیرکی ملاقات میں ملکی سلامتی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی صورتحال پرمشاورت کی گئی۔ وزیراعظم شہبازشریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے دہشتگردی سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کیا اور ملکی دفاع میں جانیں قربان کرنے والے شہید اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ آرمی چیف نے ملاقات میں وزیراعظم کو ملکی امن و امان کی صورتحال پر بریفنگ دی، جب کہ اسلام آباد میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس پربھی بات کی گئی۔خیال رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں دہشتگردی کی حالیہ لہر کے سدباب پرغور ہوگا، عسکری حکام دہشتگردی، افغان بارڈر کی صورتحال پر بریفنگ دیں گے، جب کہ کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان عملدرآمد پر بریفنگ دی جائے گی۔ یاد رہے کہ
پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیرکا کہنا ہے کہ ”پائیدار امن و استحکام کے حصول تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی”،


فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے سیزفائر کے خاتمے کے اعلان کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں خود دھماکے میں ایک پولیس اہلکار اور ٹیکسی ڈرائیور جاں بحق ہوگیا تھا اور اس واقعے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی،
خیال رہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس سے قبل 6 دسمبر کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کی وادی تیراہ کا دورہ کیا تھا اور کہا تھا کہ قبائلی عوام اور سیکیورٹی فورسز کی بے شمار قربانیوں سے ریاست کی رٹ قائم ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ جب تک ہم پائیدار امن اور استحکام حاصل نہیں کر لیتے، دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ قوم کی حمایت سے جاری رہے گی۔
پاک فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ مادر وطن کے دفاع کو ہر قیمت یقینی بنایا جائے گا، امن خراب کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا تھا کہ کسی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک حاصل کی گئی کامیابیوں کو روکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سے قبل 3 دسمبر کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے بھارتی عہدیدار کی جانب سے گلگت بلتستان اور آزاد جموں اور کشمیر پر قبضے کے حوالے سے دیے گئے متنازع بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاک فوج دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ’ہمہ وقت‘ تیار ہے۔
آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے لائن آف کنٹرول کا دورہ کیا اور فرنٹ لائن پر تعینات جوانوں سے ملاقات کی اور کہا کہ فوج نے بھارتی قیادت کی جانب سے حال ہی میں گلگت بلتستان اور آزاد جموں اور کشمیر کے حوالے سے دیے گئے انتہائی غیرذمہ دارانہ بیان کا نوٹس لیا ہے۔

آرمی چیف نے کہا تھا کہ ’میں یہ واضح کردوں کہ اگر ہمارے اوپر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنے مادر وطن کے ہر چپے کے دفاع کے لیے بلکہ دشمن کو بھرپور جواب دینے کے لیے بھی تیار ہے‘۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز میں 254 واں کور کمانڈرز اجلاس منعقد ہوا۔بیان میں کہا گیا کہ 27 اور 28 دسمبر کو منعقدہ اجلاس میں ’فوج کے پیشہ ورانہ اور تنظیمی امور کا مکمل جائزہ لیا گیا‘۔
آئی ایس پی آر نے کورکمانڈرز اجلاس کے بارے میں بتایا کہ ’دہشت گردی کے خلاف بلاتفریق لڑنے اور پاکستان کے عوام کی خواہشات کے مطابق اس ناسور کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا‘۔ملک کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر تشدد اور دہشت گردی کے

واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان واقعات کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔ٹی ٹی پی کی جانب سے 27 نومبر کو جنگ بندی ختم کرنے کے ایک دن بعد، عسکریت پسند گروپ کے نام نہاد ‘وزیر دفاع’ مفتی مظہیم نے ایک بیان میں تحریک کے تمام گروپ رہنماؤں کو پاکستان بھر میں قانون نافذ کرنے اداروں اور سیکورٹی فورسز پر حملے کے احکامات جاری کیے تھے۔اس دوران بنوں میں سیکیورٹی فورسز نے انسداد دہشت گردی کے مرکز کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ 20 دسمبر کو ہونے والی جھڑپ میں 24 دہشت گرد اور 8 سیکورٹی اہلکار مارے گئے تھے۔ انسداد دہشت گردی کے مرکز بنوں پر حملے میں ہلاک ہونے والے 24 شدت پسندوں کی فہرست جاری کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مفتی مظاہم ٹی ٹی پی کے نائب امیر قاری امجد کا تنظیمی نام ہے جس کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کے علاقے ثمر باغ سے ہے۔ مفتی مظاہر کی جانب سے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملے شروع کرنے کے اعلان کے چند روز بعد، امریکہ نے برصغیر میں شدت پسند تنظیم القاعدہ کے قاری امجد اور تین دیگر رہنماؤں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا ۔دسمبر 2007 میں، پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم مقامی طالبان گروپوں کے انضمام سے ابھرنے والی ٹی ٹی پی، قبائلی اضلاع میں فوج کی موجودگی کو جواز بنا کر، پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جس میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ ملک میں اسلامی نظام کیلئے ان کارروائیوں میں شہریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سیکیورٹی فورسز کے ہزاروں اہلکار بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق 2020 کے وسط تک پاکستانی فورسز کے کریک ڈاؤن اور افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے تنظیم کی قیادت کی ہلاکت کی وجہ سے ٹی ٹی پی کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ اسی عرصے کے دوران تنظیم کے اندر دھڑے بندی کی وجہ سے کچھ لیڈر افغان سرحد سے ملحقہ کنڑ اور ننگرہار میں چلے گئے تھے۔


فروری 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ منظم ہونے کی ترغیب دی ہے۔ جولائی 2020 کے بعد، 2014 میں تقسیم ہونے والے ٹی ٹی پی کے دھڑے دوبارہ متحد ہو گئے، جب کہ کچھ جو پاکستان میں القاعدہ اور لشکر جھنگوی جیسی شدت پسند تنظیموں کا حصہ تھے،انہوں نے بھی ٹی ٹی پی میں شمولیت اختیار کی۔ ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ تنظیم کا نیا ڈھانچہ منحرف دھڑوں اور نئے شدت پسندوں کے ٹی ٹی پی میں شامل ہونے کے بعد تشکیل دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے حملوں کی تعداد اور دائرہ کار میں اضافہ ہوگیا.

ٹی ٹی پی کا نیا تنظیمی ڈھانچہ سمجھنے کے لیے کالعدم جماعت کے اندرونی معاملات سے واقف لوگوں، قانون نافذ کرنے والے افسران اور ماہرین کے انٹرویوز کے ساتھ ساتھ تنظیم کے اندرونی طور پر تقسیم کیے گئے تنظیمی مواد کا مطالعہ کیا گیا۔

ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات سے واقف لوگ، قانون نافذ کرنے والے افسران اور ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ٹی ٹی پی کے مرکزی امیر مفتی نورولی نے ماضی کی غلطیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے گزشتہ دو سالوں میں تنظیم سازی کے معاملے پر کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی تحریر “انقلاب محسود” اور دیگر اشاعتوں میں کیا۔ حاصل کردہ معلومات کے مطابق تنظیم کو اس وقت قومی سطح پر نو ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں تنظیمی طور پر افغانستان کی طرز پر صوبے یا صوبے کا نام دیا گیا ہے۔ ان نو ڈویژنوں میں خیبرپختونخوا اور سابق قبائلی علاقوں کو سات ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، کوہاٹ، پشاور، مالاکنڈ، مردان اور ہزارہ شامل ہیں۔ بلوچستان کے علاقوں کو ژوب ڈویژن میں شامل کیا گیا ہے جبکہ کراچی کے نام سے الگ ڈویژن بنا دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ 9 دسمبر کو، ٹی ٹی پی نے حکومت کے ساتھ ایک ماہ کے جنگ بندی کے معاہدے اور مستقل مفاہمت کے لیے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ۔ اس اعلان کے بعد دہشت گردی کے واقعات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
اس سلسلے کی ایک کاروائی کے دوران ضلع ٹانک میں نامعلوم عسکریت پسندوں نے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کی جو انسداد پولیو مہم میں سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار جاں بحق اور دو زخمی ہو گئے۔
پولیس حکام نے ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ علاقے میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ جبکہ انسداد پولیو مہم میں شامل پولیس اہلکاروں پر حملوں میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میںشمالی وزیرستان کی تحصیل سپانوام میں عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بموں سے حملہ کیا۔ ایک حملے میں سیکیورٹی اہلکار محفوظ رہے تاہم دوسرے حملے میں ایک اہلکار ہلاک اور دوسرا زخمی ہوگیا۔ سیکیورٹی حکام کی جانب سے واقعے کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں ان دونوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہواتھا جس میں وفاقی کابینہ نے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے ملک میں امن و امان کی صورت حال پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم کیاتھا ،
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی حقوق ِ انسانی کے حوالے سے سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی سے ہلاکتوں کی تعداد میں 40 فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2017 کے اختتام تک پاکستان میں دہشت گردی سے ہونے والی اموات کی تعداد ایک ہزار 84 تھی جبکہ 2016 میں یہ تعداد ایک ہزار 803 تھی۔
جبکہ اگر 2017 آخری کے دو ماہ کو بھی اس میں شامل کرلیا جاتا تو یہ شرح مزید گر سکتی تھی۔
امریکی رپورٹ میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ غیر ریاستی عناصر کی جانب سے پرتشدد واقعات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ملک میں انسانی حقوق کے مسائل کا سبب بنے، پاک فوج نے عسکریت پسند اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں تا ہم اس کے باوجود ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند تنظیموں اور غیر ریاستی عناصر ملک کے مختلف علاقوں میں تشدد، سماجی اور ثقافتی عدم برداشت، لاقانونیت کے فروغ میں سرگرم رہے ۔ جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ 2017 میں ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں لوگوں کے اغوا اور جبری گمشدگیوں کے واقعات دیکھے گئے ۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے تحریکوں اور مذہب کی آزادی کو محدودکیے جانےاور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور فرقہ وارا نہ تشدد کے واقعات جاری رہے۔ اس کے علاوہ حکومت اور پولیس میں کرپشن، جرائم کی تحقیقات میں کمی، جنسی تفریق اور ریپ کے واقعات بھی پاکستان میں انسانی حقوق کے مسائل میں شامل ہیں۔پاکستان میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے سینیٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے امن مذاکرات کو خود کو منظم کرنے کے لیے استعمال کیا تھا ۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان میں حالیہ دنوں میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ کالعدم تنظیم نے حکومت پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم کرکے اپنی کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ خیال ہے کہ امن مذاکرات نے نہ صرف کالعدم تنظیم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اس موقع کو تنظیم نے منظم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ نیکٹا کی رپورٹ اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ سال جب مذاکراتی عمل شروع ہوا تو حکومت پاکستان کی پوزیشن کمزور تھی۔ سیکورٹی فورسز پر آئے دن حملے ہو رہے تھے اور دہشت گردی بڑھ رہی تھی۔
ان حالات میں حکومت مذاکرات پر مجبور ہوئی اور جنگ بندی کی وجہ سے فریقین نے ایک دوسرے پر حملے بند کر دیے۔ قبائلی روایات میں بات چیت ہمیشہ طاقتور فریق کے ساتھ کی جاتی ہے۔ چنانچہ جب مذاکرات شروع ہوئے تو ٹی ٹی پی بہتر پوزیشن میں تھی۔سوال یہ ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنا تھے توعوام کو اعتماد میں کیوں نہ لیا گیا ؟ اس میں جو بھی شامل ہے اسکو سامنے لانا چاہیے ،