روس نے جنگ کے دوران کئی ماہ کی ناکامیوں کے بعد مشرقی یوکرین میں سولیدار شہر پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے تاہم یوکرینی افواج کا کہنا ہے کہ شدید لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دونوں فریقین کو نمک کی کان کنی والے شہر سولیدار میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ یوکرین بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔
روسی وزارت دفاع نے جمعے کی رات گئے اعلان کیا کہ سولیدار کی ’آزادی‘ کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے اور یہ فتح ڈونیٹسک کے علاقے میں مزید ’کامیاب آپریشنز‘ کا سبب بنے گی۔
ایک اور بیان میں وزارت دفاع نے سولیدار شہر پر حملہ کرنے والے ’ویگنر‘ فورس کے اہلکاروں ان کی بہادری کو سراہا۔
روسی حکومت کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے گروپ ’ویگنر‘ کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ روسی سرکاری افواج کے بجائے ویگنر نے سولیدار پر حملے کی قیادت کی ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے روس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی شہر سولیدار میں شدید لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔
اس سے قبل یوکرین کی وزیر دفاع گانہ میلر نے ’اسے جنگ کا مشکل مرحلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سولیدار پر قبضے کے لیے روس نے ڈونیٹسک کے علاقے کے گرد اپنی فوج تعینات کر دی ہے۔
سولیدار کا قبضہ حاصل کرنے سے روسی افواج اپنے اصل ہدف ’بخموت‘ شہر کو نشانہ بنانے کی بہتر پوزیشن میں آ سکتی ہیں۔
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ سولیدار پر قبضے سے یوکرینی افواج کا گھیراؤ اور ان کے سپلائی کے راستوں کو منقطع کرنا بھی ممکن ہوگا۔
