روس کا یوکرین کے شہر سولیدار پر قبضے کا دعویٰ، ’لڑائی ابھی جاری ہے‘

 
0
93
روس نے جنگ کے دوران کئی ماہ کی ناکامیوں کے بعد مشرقی یوکرین میں سولیدار شہر پر قبضے کا دعویٰ کیا ہے تاہم یوکرینی افواج کا کہنا ہے کہ شدید لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دونوں فریقین کو نمک کی کان کنی والے شہر سولیدار میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ یوکرین بھی اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم ہے۔
روسی وزارت دفاع نے جمعے کی رات گئے اعلان کیا کہ سولیدار کی ’آزادی‘ کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے اور یہ فتح ڈونیٹسک کے علاقے میں مزید ’کامیاب آپریشنز‘ کا سبب بنے گی۔
ایک اور بیان میں وزارت دفاع نے سولیدار شہر پر حملہ کرنے والے ’ویگنر‘ فورس کے اہلکاروں ان کی بہادری کو سراہا۔
روسی حکومت کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کے گروپ ’ویگنر‘ کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ روسی سرکاری افواج کے بجائے ویگنر نے سولیدار پر حملے کی قیادت کی ہے۔
دوسری جانب یوکرین نے روس کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صنعتی شہر سولیدار میں شدید لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔
اس سے قبل یوکرین کی وزیر دفاع گانہ میلر نے ’اسے جنگ کا مشکل مرحلہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سولیدار پر قبضے کے لیے روس نے ڈونیٹسک کے علاقے کے گرد اپنی فوج تعینات کر دی ہے۔
سولیدار کا قبضہ حاصل کرنے سے روسی افواج اپنے اصل ہدف ’بخموت‘ شہر کو نشانہ بنانے کی بہتر پوزیشن میں آ سکتی ہیں۔
روسی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ سولیدار پر قبضے سے یوکرینی افواج کا گھیراؤ اور ان کے سپلائی کے راستوں کو منقطع کرنا بھی ممکن ہوگا۔
امریکی ادارہ ’سٹڈی آف وار‘ کا کہنا ہے کہ روس نے سولیدار کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور اس معمولی فتح سے بخموت کے گھیراؤ کا امکان نہیں ہے۔
امریکی ادارے نے مزید کہا کہ سولیدار کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے روس کے فوجی وسائل کو شدید نقصان پہنچا ہے اور بخموت کی جانب بڑھنے کے لیے اس کی صلاحیت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
روس کے علاوہ یوکرین کی افواج کو بھی سولیدار اور بخموت کے قبضے کی جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے اور اس نے اپنے اتحادیوں سے مزید ہتھیاروں کا مطالبہ کیا ہے۔
یوکرینی صدارتی دفتر کے سربراہ آندرے یرماک کا کہنا ہے کہ ’یہ جنگ جیتنے کے لیے ہمیں مزید فوجی سامان کی ضرورت ہے۔‘
یوکرینی وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سے بات چیت کے دوران انہوں نے مغربی ساختہ ٹینکوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
خیال رہے کہ یوکرین اپنے اتحادیوں سے کئی مرتبہ مطالبہ کر چکا ہے کہ اسے مغربی ٹینک، طیارے اور طویل فاصلے تک نشانہ بنانے والے ہتھیار فراہم کیے جائیں۔