پنجاب اسمبلی الیکشن، ججز کا ازخود نوٹس کے لیے چیف جسٹس کو تحریری نوٹ

 
0
103
پاکستان کی سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو ایک نوٹ کے ذریعے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے ازخود نوٹس لینے کا کہا ہے۔
جمعرات کو عدالت عظمیٰ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے لاہور کے سابق سی سی پی او غلام محمد ڈوگر کے تبالے کے مقدمے میں تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس کو معاملے کا نوٹس لینے کے لیے کہا۔
اپنے تحریری حکم نامے میں سپریم کورٹ نے لکھا کہ ’پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل کی گئی تھی اور آئین کے آرٹیکل 224 کی شق دو کے تحت 90 روز میں الیکشن کرانا ضروری ہے تاہم تاحال اس حوالے سے پیش رفت نہیں کی گئی۔‘
حکم نامے کے مطابق صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے تاخیر کا شکار ہونے کا خطرہ موجود ہے جو آئین کے خلاف ہوگا۔
سپریم کورٹ کے تحریری حکم کے مطابق چونکہ یہ معاملہ براہ راست بینچ کے سامنے نہیں تھا اور ایک الگ مقدمے میں نوٹس میں آیا اس لیے چیف جسٹس کو ریفر کیا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس لینا عوامی مفاد میں ہوگا۔
’عام انتخابات کا معاملہ سنجیدہ نوعیت اور بنیادی حقوق کے نفاذ کا ہے۔ آئین کا دفاع کرنا عدالت کا قانونی آئینی اور اخلاقی فرض ہے، براہ راست کیس نہ ہونے سے انتخابات پرکوئی حکم جاری نہیں کرسکتے۔ پنجاب میں عام انتخابات کا معاملہ ازخود نوٹس کے لیے بہترین کیس ہے۔‘
قبل ازیں سپریم کورٹ میں سابق سی سی پی اور لاہور غلام محمد ڈوگر کے تبادلے کے کیس کیس سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ نگراں حکومت تقرر و تبادلے نہیں کر سکتی۔
عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کو سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے کیس میں طلب کیا۔
سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ غلام محمود ڈوگر کو ٹرانسفر کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ’سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی او کو تبدیل کیا گیا؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دے گی۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے غلام محمود ڈوگر کو دوسری مرتبہ تبدیل کیا گیا۔
اس موقع پر جسٹس مظاہر علی اکبر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد ہوتا ہے۔
اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ پنجاب میں نگراں سیٹ اپ آنے کی وجہ سے الیکشن کمشین سے اجازت لی گئی۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نے ریمارکس دیے کہ آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کر دیا گیا۔ ’کیا پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفر نہ ہوئی ہو۔‘
جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟
عدالت نے بعد ازاں سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کر دی۔