وزیراعظم کی کفایت شعاری پالیسی پر عملدرآمد کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل

 
0
85

….وزیراعظم محمد شہباز شریف کی ہدایت پر کفایت شعاری اور سادگی پالیسی پر عملدرآمد کے حوالے سے مانیٹرنگ کمیٹی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔کمیٹی میں وفاقی وزراء اسحاق ڈار،رانا تنویر حسین،سید امین الحق، اعظم نذیر تارڑ،طارق بشیر چیمہ ،مشیر وزیراعظم قمر زمان کائرہ اوروزیر مملکت ہاشم نوتیزئی شامل ہیں،کمیٹی وفاقی کابینہ کے 22فروری 2023کے اجلاس میں کفایت شعاری کے حوالے سے لئے گئے فیصلوں کے نفاذ کا جائزہ لے گی،ہر وفاقی وزارت ،ڈویژن و محکمے کا پرنسپل اکائونٹنگ افسر فیصلوں کے نفاذ کے حوالے سے تجاویز 27 فروری 2023 تک اس کمیٹی کے سامنے پیش کریگا۔.وزیر اعظم شہباز شریف نے چند روز قبل اعلان کردہ کفایت شعاری کے اقدامات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے باضابطہ طور پر ایک کمیٹی تشکیل دی۔ رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کی ہدایت پر کمیٹی کی تشکیل کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔7 رکنی کمیٹی میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر تعلیم رانا تنویر حسین، وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن سید امین الحق، وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ، وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ طارق بشیر چیمہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان قمر زمان کائرہ اور وزیر مملکت برائے بجلی ہاشم نوتیزئی شامل ہیں۔ کمیٹی 22 فروری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرے گی، تمام وزارتوں، ڈویژنز اور محکموں کے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر 27 فروری تک کمیٹی کے سامنے ان اقدامات کو نافذ کرنے کے لیے تجاویز پیش کریں گے۔
خیال رہے کہ معاشی بحران کے پیش نظر وزیر اعظم نے کفایت شعاری کے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ 200 ارب روپے کی سالانہ بچت ہوگی۔
یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا جب حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے لیے ضروری اقدامات کو حتمی شکل دی۔ یاد رہے کہ پاکستان پُرامید ہے کہ رواں ہفتے اسٹاف لیول معاہدے پر دستخط کردیے جائیں گے جس سے ایک ارب ڈالر سے زائد قرض کی قسط کے اجرا کی راہ ہموار ہوگی، حکومت کو توقع ہے کہ اس معاہدے سے دیگر دوطرفہ اور کثیرالجہتی قرض دہندگان کی جانب سے رقوم کی آمد کا سلسلہ بحال ہوجائے گا۔ معیشت کو اقتصادی سہارے کی اشد ضرورت ہے، ملک اس وقت بدترین معاشی بحران سے نبرد آزما ہے، زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 3 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جو کہ بمشکل 3 ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ گزشتہ ہفتے وفاقی کابینہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کفایت شعاری کی پالیسی سے متعلق بتایا تھا کہ ’آج کابینہ میں ڈھائی گھنٹے کی بحث کے بعد ہم نے متعدد فیصلے کیے ہیں‘۔ ان کا کہنا کہ اس حکومت کے تمام وفاقی وزرا، مشیر ، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی نے رضاکارانہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

کفایت شعاری کے تحت اہم اقدامات؛
وفاقی وزرا، مشیر، وزرائے مملکت، معاونین خصوصی تنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے
تمام وزرا گیس اور بجلی سمیت یوٹیلٹی بلز اپنی جیب سے ادا کریں گے
کابینہ اراکین سے لگژری گاڑیاں واپس لے کر نیلام کی جائیں گی
وزرا کو ضرورت کے تحت سیکیورٹی کے لیے ایک گاڑی دی جائے گی
وفاقی وزرا اندرون اور بیرون ملک اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، معاون عملے کو بیرون ملک دورے کی اجازت نہیں ہوگی
بیرون ملک دوروں کے دوران کابینہ اراکین 5 اسٹار ہوٹلوں میں قیام نہیں کریں گے
تمام وزارتوں، ذیلی ماتحت دفاتر، ڈویژن، متعلقہ محکموں کے جاری اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی جائے گی
جون 2024 تک تمام لگژری اشیا کی خریداری پر مکمل پابندی، ہر طرح کی نئی گاڑیوں کی خریداری پر مکمل پابندی ہوگی
وفاقی وزارتوں اور ڈویژن میں سینیئر افسران سے سرکاری گاڑیاں واپس لی جائیں گی
سفر، قیام و طعام کے اخراجات میں کمی کے لیے زوم میٹنگ کو ترجیح دی جائے گی
تمام سرکاری تقاریب میں کھانے کے لیے سنگل ڈش اپنائی جائے گی
سرکاری افسران سے انگریز کے زمانے کے بنے بڑے اور شاہانہ گھر خالی کرائے جائیں گے، وہ زمین فروخت کی جائے گی
بجلی بچت پلان پر عمل نہ کرنے والی مارکیٹس اور بڑے شاپنگ مالز کی بجلی منقطع ہوگی
خیال رہے کہ یہ ایک ماہ سے زائد عرصے میں وزیر اعظم کی جانب سے بنائی گئی دوسری کمیٹی ہے جسے کفایت شعاری کے اقدامات کے ذریعے حکومتی اخراجات میں کمی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
20 جنوری کو سابق بیوروکریٹ ناصر محمود کھوسہ کی سربراہی میں 15 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جسے 15 روز میں اخراجات میں کمی کے حوالے سے تجاویز پیش کرنی تھی، تاہم کمیٹی کا ایک بار بھی اجلاس نہ ہو سکا اور کمیٹی غیرفعال ہو گئی۔ دوسری جانب نگراں پنجاب حکومت نے وزیراعظم شہباز شریف کی کفایت شعاری پالیسی پر صوبائی سطح پر عملدرآمد کا فیصلہ کرلیا، وزیراعلیٰ محسن نقوی نے جامع پلان اور قابل عمل تجاویز طلب کرلیں۔

نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا 7 واں اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کفایت شعاری پالیسی پر صوبائی سطح پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا، صوبائی کابینہ نے وزیراعظم کی کفایت شعاری پالیسی کو سراہا ہے ۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے ہر سطح پر کفایت شعاری اپنانے کیلئے جامع اور سرکاری وسائل کی بچت اور کفایت شعاری کیلئے قابل عمل تجاویز طلب کرلیں ہیں ۔ محسن نقوی کا کہنا ہےکہ کفایت شعاری اور بچت کے حوالے سے نگراں وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء مثال قائم کریں گے، معاشی حالات کے پیش نظر سرکاری سطح پر کفایت شعاری اپنانے کیلئے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب حکومت کے افسران ترکیہ اور شام کے زلزلہ متاثرین کی امداد کیلئے ایک سے 3 دن کی تنخواہ عطیہ کریں گے،گریڈ 22 کے افسران 3 دن، گریڈ 20 اور21 کے افسران 2 دن اور گریڈ 18 اور 19 کے افسران ایک دن کی تنخواہ زلزلہ متاثرین کیلئے قائم وزیراعظم ریلیف فنڈ میں عطیہ کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سادگی اور بچت کے حوالے سے فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت حکومتی سطح پر کفایت شعاری اور سادگی کی پالیسی کے نفاذ کے حوالے سے اجلاس ہوا، اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ کفایت شعاری اور سادگی کے حوالے سے جو تاریخ ساز فیصلے لئے گئے ان کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ فیصلوں کو عوام میں پذیرائی ملی ہے، فیصلوں پر نفاذ میں کسی قسم کی تاخیر قابل قبول نہیں ہو گی اور ان پر سختی سے نفاذ ہو گا۔ شہباز شریف نے سادگی اور بچت کے حوالے سے فیصلوں پر عمل درآمد کیلئے مانیٹرنگ کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کر دی، وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ کمیٹی میں ہر اتحادی جماعت کے کابینہ رکن کی نمائندگی ہو گی، کمیٹی کا اجلاس کم از کم دو ہفتے بعد منعقد کیا جائے۔مہنگائی کا طوفان کسی طور تھمنے میں نہیں آ رہا ہے۔ حکومت اس قدر بے بس و لاچار ہے کہ آئی ۔ ایم۔ ایف کی شرائط کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ عمومی طور پر آئی۔ ایم ۔ ایف کی شرائط کا بوجھ عوام الناس کے کمزور کاندھوں کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس صورتحال پر اکثر تبصرہ کیا جاتا ہے کہ نازک ملکی معیشت کی وجہ سے حکومت کو جو مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں، ان کا بوجھ غریب آ دمی پر ڈالنے کے بجائے اشرافیہ اور حکمران طبقے پرمنتقل ہوناچاہیے۔ یہ بات قابل جوا ز ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ حکومت کی طرف سے عوام الناس کو توکفایت شعاری کا درس دیا جاتا ہے، لیکن وزیروں، مشیروں، سرکاری افسروں اور دیگر اعلیٰ عہدیداران کی مراعات اور سہولیات اسی طرح جاری رہتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ صورتحال عام آدمی کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ عام شہری اپنے آپ کو قربانی کا بکرا محسوس کرنے لگتا ہے۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ مراعات یافتہ طبقہ بھی نازک معیشت کا بوجھ اٹھائے۔ بالکل اسی طرح بچت اور کفایت شعاری کی شروعات وزیروں، مشیروں، افسران اور دیگر حکومتی اراکین سے ہونی چاہیے۔اس سے عام شہری کو یہ پیغام جائے گا کہ حکمران طبقہ بھی اس مشکل میں ان کے ہم قدم ہے۔ چند دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایسا ہی ایک اعلان کیا تھا۔ کابینہ کی میٹنگ کے بعد یہ بات سننے میں آئی تھی کہ حکومتی سطح پر کفایت شعاری کو یقینی بنانے کے لئے ایک بڑا منصوبہ زیر غور ہے۔ دو دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے اس پلان کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اطلاع دی ہے کہ حکومتی سطح پر سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سرکاری اداروں کے بجٹ میں کمی کی جائے گی۔ سرکاری ملازمین، کابینہ اور ارکان پارلیمان کی مراعات اور سہولیات میں بھی کٹوتی کا فیصلہ ہوا ہے۔قیمتی لگثری گاڑیوں اور پروٹوکول میں نمایاں کمی کی جائے گی۔کفایت شعاری مہم کے تحت تجویز ہوا ہے کہ سرکاری تقریبات میں ون ڈش کی پابندی ہو گی۔ غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ بجلی کے استعمال میں کمی لانے اور سیکیورٹی گاڑیاں واپس لینے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔یہ اعلان بھی ہوا ہے کہ وزراءتنخواہیں اور مراعات نہیں لیں گے۔ مہنگی گاڑیاں واپس کریں گے اور اپنے یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی اپنی جیب سے کریں گے۔بزنس کلاس میں سفر کرنے اور پنج ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنے پر پابندی عائد ہو گی۔ وزیر اعظم کے دفتر کی طرف سے دفتر خارجہ کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے۔ مراسلے میں تجاویز مانگی گئی ہیں کہ کس طرح بیرون ملک مشنز کے اخراجات کو کم کر کے کفایت شعاری کی راہ اپنائی جا سکتی ہے۔ قومی کفایت شعاری کمیٹی نے بیرون ملک پاکستانی مشنز کے اخراجات میں 15 فیصد کٹوتی کی تجویز دی ہے۔بتایا گیا ہے کہ اس طرح 200 ارب روپے کی بچت ہو سکے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان،چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے بھی درخواست کی جائے گی کہ عدلیہ کے اخراجات میں کمی کر کے اس کفایت شعاری مہم میں اپنا حصہ ڈالیں۔ اس ضمن میں وزارت دفاع اور وزارت خزانہ بھی سفارشات پیش کریں گی کہ کس طرح غیر جنگی نوعیت کے بجٹ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اگر اس کفایت شعاری پلان پر واقعتا عمل ہوتا ہے تو یہ قابل تحسین اقدام ہوگا۔یوں بھی حکومتی وزیروں، سرکاری افسران اور اراکین پارلیمان کا پروٹوکول اکثر و بیشتر میڈیا پر زیر بحث رہتا ہے۔ ایک وزیریا افسر کے پیچھے درجنوں گاڑیوں کا قافلہ چلتا ہے۔ پولیس کی گاڑیاں بھی اس قافلے میں شامل ہوتی ہیں۔ اس طرح سینکڑوں لٹر تیل ضائع ہوتا ہے۔ پولیس جسے امن عامہ کی صورتحال بہتر بنانے کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے، وہ اس کے بجائے حکومتی اراکین اور افسران کے پروٹوکول کی ذمہ داری نبھانے میں مصروف رہتی ہے۔ ٹی وی پر ایسے مناظر دیکھ کر عام آدمی کا دل جلتا ہے۔ اس کفایت شعاری مہم سے پروٹوکول اور لگثری گاڑیوں کے استعمال پر زد پڑتی ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ نہایت ضروری ہے کہ وزیر اعظم کے اعلانات محض زبانی جمع خرچ تک محدود نہ رہیں۔ جو اعلانات ہوئے ہیں، ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ اس سے دو سو ارب روپے کی بچت تو ہو گی ہی، علامتی طور پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ عوام میں حکومت کا اچھا تاثر ابھرے گا۔
شہباز شریف جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے ، تب بھی ان کے قریبی حلقوں میں ان کی کفایت شعاری کا تذکرہ ہوتا تھا۔ سنتے تھے کہ اپنے پانچ سالہ دور میں انہوں نے جتنے بھی سرکاری غیر ملکی دورے کئے ان کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کئے۔ ان کے وفد میں شامل افراد کو بھی یہی ہدایت تھی۔ وزیر اعظم پاکستان بننے کے بعد 2022 میں انہوں نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ اس کے اخراجات بھی اپنی جیب دے ادا کئے۔ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کفایت شعاری کے اس فیصلے کو یقینی بنائیں گے۔تاہم بہت اچھا ہوتا اگر وزیر اعظم شہباز شریف اپنی بھاری بھرکم کابینہ کے حجم پر ایک نظر ڈالتے اور اسے کم کرنے کی تدبیر کرتے۔ لیکن ہر دورمیں اتحادی حکومتوں کا یہی المیہ رہا ہے کہ اتحاد میں شامل ہر جماعت کو کابینہ میں حصہ دینا پڑتا ہے۔کاش اس اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں ہی دل بڑا کریں اور اپنے وزیروں، مشیروں، معاونین وغیرہ کی تعداد میں رضاکارانہ طور پر کمی لائیں۔ اس بات کا انتظار بھی رہے گا کہ عدلیہ اور دفاعی ادارے اس مہم میں کیا حصہ ڈالتے ہیں۔ ان اداروں کا بھاری بجٹ بھی اکثر میڈیا پر زیر بحث آتا ہے۔ مراعات اور سہولیات کا ذکر بھی ہوتا ہے۔امید کی جا سکتی ہے اس ضمن میں بھی جلد اعلانات سامنے آئیں گے۔
یقینا حکومت نے اخلاص نیت سے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس میں ایک توازن بھی برقرار رہنا چاہیے۔ ہم اکثر سنتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اورافسران کے آگے پیچھے اس قدر پروٹوکول نہیں ہوتا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہاں کے ملکی حالات ہم سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں امن عامہ کے سنگین مسائل موجود ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ کسی
وزیر ، مشیر ، سرکاری افسر کو واقعتا سیکیورٹی کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ہمارے ہاں حفاظتی حصار کو بھی پروٹول سمجھ کر اس پر تنقید کی جاتی ہے۔بالکل اسی طرح بہت سے غیر ملکی دورے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔یہ دورے اہم قومی معاہدوں کی خاطرکئے جاتے ہیں۔ بہرحال امید ہے کہ اس مہم میں اعتدال کی راہ اختیار کی جائے گی۔
کفایت شعاری کی مہم اور دو سو ارب روپے کی بچت علامتی طور پر اچھا فیصلہ ہے لیکن عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے لئے قومی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو درست سمت گامزن کرنا ہوگا۔عام آدمی کی زندگی تب آسان ہو گی جب ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے گی۔جب روپے کی قدر بہتر ہو گی۔جب کاروبار چلتے رہیں گے اور درآمدات میں اضافہ ہوگا۔ جب سرکاری دفاتر اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر معاملات میں بہتری آئے گی تو اس کے اثرات عام آدمی پر مرتب ہوں گےاور اسے ریلیف ملے گا۔ اس سب کے لئے لازم ہے کہ ملک میں موجود سیاسی بے یقینی کا خاتمہ کیا جائے۔ جب تک ملک سیاسی انتشار کا شکار رہے گا۔ تب تک یہ بے یقینی قائم رہے گی۔ سیاسی بے یقینی کی موجودگی میں معاشی صورتحال کی بہتری کسی صورت ممکن نہیں ۔