پی ٹی آئی وفد کی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

 
0
126

تحریک انصاف کے سابق ارکان قومی اسمبلی کی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ پی ٹی آئی کا وفد اسپیکر قومی اسمبلی سے شاہ محمود قریشی کو قائد حزب اختلاف بنانے کا مطالبہ کرتا رہا جس پر انہیں بتایا گیا کہ شاہ محمود قریشی کی نشست پر تو علی موسی گیلانی منتخب ہو چکے ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا ہم نہیں چاہتے کہ اسپیکر قومی اسمبلی پر توہین عدالت لگے جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے جواب دیا کس کی جرات ہے کہ وہ اسپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے۔ پیر کے روز جب تحریک انصاف کے درجن بھر سابق ارکان قومی اسمبلی اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر پہنچے تو انہیں خوشگوار انداز میں خوش آمدید کہا گیا، اسپیکر آفس میں بیٹھتے ہی پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر نے کہا کہ ہمیں لاہور ہائی کورٹ نے بحال کر دیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ شاہ محمود قریشی کو قومی اسمبلی میں قائد حذب اختلاف نامزد کر دیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم سنجیدہ معاملے پر بات کر رہے ہیں ہمیں کسی طرح غلط بیانی سے کام نہیں لینا چاہیے، لاہور ہائی کورٹ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں کسی کی بحالی ہوئی ہو البتہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے الیکشن کرانے کے حکم کو معطل کیا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ بدستور اپنی جگہ پر برقرار ہے۔راجا پرویز اشرف کا مزید کہنا تھا دوسری جانب شاہ محمود قریشی ان 35 ارکان میں شمار نہیں ہیں جن کے بارے عدالت نے فیصلہ کیا ہے، شاہ محمود کی نشست پر تو انتخاب بھی ہو گیا اور علی موسی گیلانی وہاں سے ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں، آپ بتائیں شاہ محمود قریشی اب ایک سابق ممبر ہیں ان کو کیسے اپوزیشن لیڈر بنا دیا جائے؟

اسپیکر کے دو ٹوک جواب پر فواد چوہدری غصے میں آگئے اور کہا ہم چاہتے ہیں کہ توہین عدالت میں نہ جائیں، فواد چوہدری کی اونچی آواز مین بولنے پر اسپیکر بھی غصے میں آگئے اور بولے کون اسپیکر قومی کو توہین عدالت کا نوٹس بھیج سکتا ہے؟ نوٹس بھیجنے والوں کو اسپیکر نوٹس دے گا اور انہیں طلب کرے گا۔اسپیکر نے کہا فواد چوہدری آپ پارلیمنٹ کی بے توقیری کے لیے نہ کام کریں، جو ایسی بات بھی کرے گا میں اس کو نوٹس بھیجوں گا کیونکہ یہ راجا پرویز اشرف کی نہیں اسپیکر کی کرسی ہے، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اسپیکر کے عہدہ اور اس کا تقدس برقرار رہے گا۔

اسپیکر کے جواب پر فواد چوہدری انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں دھیمے لہجے میں بولے، اسپیکر صاحب آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سوال پوچھا سب پہلے یہ بتائیں کیا جو استعفے آپ نے دیے تھے وہ جعلی تھے؟ کیا وہ استعفے آپ سب نے خود نہیں دیے تھے؟ اس موقع پر اسپیکر آفس میں مکمل خاموشی چھا گئی۔

کچھ دیر بعد پی ٹی آئی کے ایک اور رکن ثنا اللہ مستی خیل اپنے سرائیکی لہجے میں بولے سائیں توساں ساڈے وڈے او، توساں سابقہ وزیر اعظم رہے ہو، توساں مہربانی فرما، ساڈے کولوں کوئی غلطی ہو گئی اے تے معاف کر دیو، تے کسی طرح اپنا فیصلہ واپس لے لیو تے ساڈیاں نشستاں بحال کر دیو آپ ہمارے بڑے ہیں، آپ سابق وزیراعظم بھی رہے ہیں، مہربائی فرمائیں، اگر ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو معاف کر دیں اور کسی طرح اپنا فیصلہ واپس لیکر ہماری نشستیں بحال کر دیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی اس دوران زیر لب مسکراتے رہے اور مستی خیل کے خاموش ہوتے ہی بولے، قانون کے مطابق میں نے آپ کا طویل مدت تک انتظار کیا، عامر ڈوگر صاحب آپ میرے پاس تشریف لائے تھے سابق اسپیکر اسد قیصر کے ساتھ اور آپ ہی نے مجھ سے شکایت کی تھی کہ میں نے استعفے قبول کیوں نہیں کیے اور قاسم سوری کا نوٹیفیکیشن کس لیے روکا ہے، ڈوگر صاحب آپ نے تو کہا تھا کہ آپ اور آپ کی جماعت کسی صورت اس اسمبلی میں نہیں بیٹھنا چاہتی، اب ڈیڑھ ماہ کے بعد آپ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ کے استعفے قبول کیوں کیے گئے ہیں، ہمیں واپس بحال کر دیں، آپ سب بتائیں آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ کا کون سا مقف درست ہے؟ اس موقع پر ایک مرتبہ پھر اسپیکر آفس میں خاموشی چھا گئی اور پی ٹی آئی ارکان میں سے کوئی کچھ نہ بولا۔

کچھ دیر بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ چونکہ آپ آگئے ہیں اور شرمندہ بھی ہیں تو میں اپنی قانونی ٹیم سے پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی راستہ نکل سکتا ہے اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ چلا ہوا تیر واپس آجائے، اس کے بعد پی ٹی آئی ارکان اسپیکر کا شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔