مقدمہ ختم،عدالت کا جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو فوری رہا کرنے کاحکم

 
0
73

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے دفاعی تجزیہ کار اور ریٹائرڈ جنرل امجد شعیب کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف دائر مقدمے ختم کرتے ہوئے انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں آج بروز جمعرات 2 مارچ کو امجد شعیب کے خلاف سرکاری ملازمین کو حکومت کے خلاف اکسانے کے مقدمے کے خلاف دائر ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالت کی جانب سے درخواست ضمانت پر کچھ دیر کیلئے فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔
درخواست ضمانت پر سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ کے جج عباس شاہ نے کی۔ اس موقع پر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت کے روبرو اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وکیل میاں اشفاق نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خلاف کسی بھی پبلک سرونٹ نے مقدمے کی درخواست نہیں دی، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے الفاظ پر کیس نہیں بن سکتا، امجد شعیب کے خلاف مقدمہ بوگس ہے، انہوں نے کسی کمیونٹی کیخلاف بات نہیں کی۔ امجد شعیب نے جو جو پروگرام پر کہا اس کو تسلیم کرتے ہیں، اگر دوبارہ ہمیں بلایا جائے گا ہم پھر وہی بات کریں گے۔ ہم ہر جگہ وہ بات کریں گے، ہم اپنی بات پر قائم ہیں۔ ہمیں پھر بھی بلایا جائے گا تو پروگرام میں وہی بات کریں گے۔
وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 6 لاکھ آرمی افسر ہیں، اور کروڑوں کی تعداد میں سرکاری ملازمین ہیں، کروڑوں کے سرکاری ملازمین میں سے کس نے آکر آپ کو شکایت کی کہ ہم اس بیان سے متاثر ہوئے ہیں، کتنا بڑا المیہ ہے ایک سابق فوجی جرنیل کے جیل کے کمرے میں کیمرہ لگا ہوا ہے، رات دس بجے پروگرام چلا 11 بجے ختم ہوا، پوری قوم سو رہی تھی، دوسرے دن بھی کروڑوں سرکاری ملازم سوتے رہے اور کوئی ایک بھی درخواست لیکر نہیں آیا، کروڑوں سرکاری ملازمین نے امجد شعیب کی درخواست کی ایسی گھٹیا تشریع نہیں کی جو اویس خان نے کی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرے الفاظ اتنے سخت نہیں جتنے حکومت کے رویے ہیں، دفعہ 505 کے تحت یہ مقدمہ بنتا ہی نہیں، سارا رونا دھونا الیکشن کرا سے متعلق تھا اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کروائیں، اگر فیصلہ پہلے ہو چکا ہوتا تو ایسا پروگرام ہی نہیں ہوتا۔
دوران سماعت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق کی جانب سے پروگرام کا ٹرانسکرپٹ پڑھا گیا۔ اور عدالت کے روبرو کہا کہ پروگرام میں امجد شعیب کی جانب سے اگر، مثال کے طور کے الفاظ استعمال کیے گئے۔
سماعت کے موقع پر مدعی امجد شعیب نے روسٹرم پر آنے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر امجد شعیب نے جج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ہمیشہ دھرنے اور لانگ مارچ کی مخالفت کی، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کیا دھرنے سے یا لانگ مارچ سے کبھی کوئی حکومت گرائی ہے، میرا تجزیہ ہوتا ہے، کبھی میرے تجزیہ پر عمل نہیں ہوا، میری کبھی کسی سیاسی رہنما سے ملاقات نہیں ہوئی، توڑ پھوڑ سے اپنے ہی ملک کو نقصان ہوتا ہے،اپنے ہی لوگ پریشان ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ماضی کی بات کر رہا تھا کہ کبھی دھرنوں اور ریلی سے کوئی حاصل وصول نہیں ہوا، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم اپنی ایف آئی آر میں آج بھی دیکھتے ہیں کہ للکارا کا لفظ استعمال ہوتا، کیا یہ آپ کا للکارا تو نہیں تھا جس کی بنیاد پر مشورہ دیا گیا ہو، آپ کا مقف سن لیا میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔
وکیل میاں اشفاق کی جانب سے عدالت سے جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے کیس کو ختم کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ امجد شعیب محب وطن اور اس ملک کے معزز شہری ہیں۔ عدالت یہ مقدمہ ختم کر دے۔ امجد شعیب کے وکیل میاں اشفاق کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر عدنان کی جانب سے جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہوا۔ بعد ازاں دونوں جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کیلئے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کیس ختم کرنے اور امجد شعیب کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا۔
آج ہونے والی سماعت کے موقع پر ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس سِپرا کی عدالت کے باہر خاردار تاریں لگائی گئی تھیں۔ اس دوران لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب سے اظہار یک جہتی کرنے والے وکلا کو عدالت کے باہر ہی روک دیا گیا، جس پر وکلا کی جانب سے عدالت کے باہر نعرے لگائے گئے۔ صورت حال قابو کرنے کیلئے اسلام آباد پولیس کی بھاری نفری ایڈیشنل سیشن جج طاہرعباس سِپرا کی عدالت کے باہر تعینات کی گئی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کو گزشتہ دنوں اداروں کے خلاف اکسانے اور نفرت پھیلانے کے کیس میں اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ تاہم اب سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس میں دفاعی تجزیہ کار کو سلاخوں کے پیچھے دکھایا گیاہے۔ سوشل میڈیا پر موجود تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب حوالات میں ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ گرفتاری کے بعد امجد شعیب کو جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، تھانہ رمنا کے تفتیشی افسر، پراسیکیوٹر اور امجد شعیب کی لیگل ٹیم بھی عدالت میں پیش ہوئی۔
پراسیکیوشن کی جانب سے امجد شعیب کی 7 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی تاہم عدالت نے امجد شعیب کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کا 3 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا اور انہیں پولیس کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے ) کے مطابق ریٹائرڈ فوجی افسر امجد شعیب یوٹیوب چینل کے ذریعے پراپیگنڈہ مہم چلا رہے تھے۔ ایف آئی اے نے جنرل (ر) امجد شعیب کے موبائل فون کا فرانزک بھی مکمل کرلیا۔ جنرل (ر) امجد شعیب سے کون کون رابطے میں، کیا بات چیت ہوتی رہی، اہم تفصیلات منظر عام پر آگئی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کے قریبی رابطے میں ایک ہی نوعیت کی مہم چلانے والے شامل ہیں،اس مہم کے ذریعے ادارے، ریاست اور حکومت کو مسلسل ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، جنرل (ر)امجد شعیب موبائل فرانزک انکشافات کے تحت انہوں نے پی ٹی آئی اور عمران خان کے بیانات پر پروگرام بھی کیے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر، علی زیدی، عثمان ڈار، فواد چوہدری، شبلی فراز، زرتاج گل، فرخ حبیب اور غلام سرور، جنرل امجد شعیب کے واٹس ایپ حلقے میں شامل ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل کے فوجی سرکل میں بھی اہم رابطے ثابت ہوئے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید، ان کے دست راست کرنل ریٹائرڈلیاقت کا بھی امجد شعیب کے ساتھ واٹس ایپ پر مسلسل رابطہ نکلا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈعاصم باجوہ اور جنرل ریٹائرڈامجد شعیب کا بھی واٹس ایپ پر رابطہ رہتا تھا۔ ریٹائرڈ میجر جنرل محمد اعجاز بھی امجد شعیب کے واٹس ایپ کے قریبی حلقے میں شامل ہیں۔
نئے الزامات کے تحت امجد شعیب کو 26 فروری کو اسلام آباد پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری ریاست، حکومت کے خلاف سرکاری ملازمین کو اکسانے کے الزامات پر ہوئی تھی۔ 8 فروری کو ایف آئی اے طلبی سے پہلے امجد شعیب نے واٹس ایپ ڈیٹا ڈیلیٹ کیا، مگر فرانزک میں سب کچھ سامنے آگیا۔ موبائل ڈیٹا سے ملنے والی لیڈز سے مزید اہم انکشافات کی توقع ہے۔
امجد شعیب کے خلاف درج مقدمے میں عوام کو اکسانے کی 153 اے اور 505 کی دفعات شامل کی گئیں ہیں۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ ٹی وی کے پروگرام میں امجد شعیب نے عوام کو بغاوت پر اکسایا، بیان میں سرکاری ملازمین اور اپوزیشن کو سرکاری قانونی فرائض سے روکنے پر اکسایا گیا۔
درج مقدمے کے مطابق ان کے بیان سے ملک میں بے چینی، بے امنی اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، حکومت اور حزبِ اختلاف میں دشمنی، اشتعال انگیزی اور نفرت پھیلانے کی کوشش بھی کی گئی۔
درج مقدمے میں یہ بھی کہا گیا کہ امجد شعیب کی جانب سے حکومت، اپوزیشن اور سرکاری ملازمین میں نفرت پیدا کر کے ملک کو کمزور کرنے کی سازش بھی کی گئی ہے۔