خیبرپختونخوا میں ’ٹک ٹاک ویڈیو میں پولیس رولز کی خلاف ورزی‘ کرنے پر برطرف کیے گئے اہلکار جمشید خان کا کہنا ہے کہ ’میں نے پولیس لائنز دھماکے کے بعد پشاور پریس کلب کے باہر احتجاج کیا تھا، امن کا مطالبہ مہنگا پڑ گیا۔‘
فرنٹئیر ریزرو پولیس کے کانسٹیبل جمشید خان کو پولیس رولز کی خلاف ورزی کرنے پر نوکری سے نکالا گیا ہے۔ ڈپٹی کمانڈنٹ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جمشید خان پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹک ٹاک پر پولیس کے خلاف ویڈیوز بنا کر شیئر کیں اور مختلف واٹس ایپ گروپوں میں بھیجتے رہے۔
خیبرپختونخوا میں ’ٹک ٹاک ویڈیو میں پولیس رولز کی خلاف ورزی‘ کرنے پر برطرف کیے گئے اہلکار جمشید خان کا کہنا ہے کہ ’میں نے پولیس لائنز دھماکے کے بعد پشاور پریس کلب کے باہر احتجاج کیا تھا، امن کا مطالبہ مہنگا پڑ گیا۔‘
فرنٹئیر ریزرو پولیس کے کانسٹیبل جمشید خان کو پولیس رولز کی خلاف ورزی کرنے پر نوکری سے نکالا گیا ہے۔ ڈپٹی کمانڈنٹ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق جمشید خان پر الزام ہے کہ انہوں نے ٹک ٹاک پر پولیس کے خلاف ویڈیوز بنا کر شیئر کیں اور مختلف واٹس ایپ گروپوں میں بھیجتے رہے۔
الزامات کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی بنائی گئی اور کانسٹیبل جمشید سے وضاحت مانگی گئی لیکن وہ کمیٹی کو تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔
انکوائری رپورٹ مکمل ہونے کے بعد ڈپٹی کمانڈنٹ فرنٹیر ریزور پولیس جہانزیب خان برکی نے جمشید خان کو نوکری سے برطرف کر دیا۔
جمشید خان نےگفتگو کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ’میں نے پولیس لائنز دھماکے کے بعد پشاور پریس کلب کے باہر احتجاج کیا تھا جس میں پولیس جوانوں کے حقوق کی بات کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے نوکری سے اسی لئے ہٹایا گیا ہے کیونکہ میں نےسچ بولا اور میں بولتا رہوں گا۔‘
جمشید خان کے بقول انہوں نے نوکری سفارش سے نہیں بلکہ اپنی قابلیت سے حاصل کی تھی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’پولیس لائنز دھماکے سے متعلق میں نے ایک بیان میڈیا کو دیا تھا جو ٹک ٹاک پر بہت زیادہ شیئر ہوا۔ میں نے کبھی محکمہ پولیس کے خلاف بات نہیں کی میں اپنے افسران کی عزت کرتا ہوں۔‘
جمشید خان نے بتایا کہ وہ اپنی نوکری سے برطرفی کے خلاف قانونی راستہ اختیار کریں گے۔














