اسلام آباد (ٹی این ایس) کشمیر کا کوئی بھی سودا ممکن نہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دو ٹوک اعلان

 
0
27

(.اصغرعلی مبارک )

اسلام آباد (ٹی این ایس) مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگ اذیت میں مبتلا ہیں ,کشمیر کے مسئلے نے ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر اپنی موجودگی کو مضبوطی سے منوا لیا ہے۔ مئی 2025 میں پاک بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان کی سیاسی، عسکری اور سفارتی قیادت نے مسئلہ کشمیر کو جس عزم اور مؤثر انداز سے اجاگر کیا، اس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ کشمیر کا کوئی بھی سودا ممکن نہیں،بھارت جان لے، پاکستان کشمیر کو کبھی نہیں چھوڑے گا,کشمیر کا کوئی بھی سودا ممکن نہیں، ہم کشمیر کو کبھی نہیں بھول سکتے، بھارت جان لے کہ پاکستان کشمیر کو کبھی نہیں چھوڑے گا۔ بھارت نے کشمیر کا مسئلہ دبانے کی کوشش کی مگر ناکام ہو چکا، کشمیر ایک عالمی سطح کا مسئلہ ہے، پاکستان، بھارت کی اجارہ داری کبھی قبول نہیں کرے گا۔ان خیالات کا اظہار آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، این آئی (ایم) نے آرمی آڈیٹوریم میں ’’ہلال ٹاکس‘‘ کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ہلال ٹاکس کا مقصد مختلف بین الاقوامی، علاقائی , قومی مسائل پر انٹرایکٹو سیشنز , گروپ ڈسکشنز پر محیط، پاکستان کی اکیڈمک کمیونٹی کے اراکین کے درمیان نقطہ نظر کے اشتراک کے لیے ایک فورم کے طور پر کام کرنا ہے۔ اختراع، تحقیق , تاثرات کے ذریعے قومی ترقی میں اکیڈمیا کے اہم کردار کے اعتراف کے طور پر، فورم نے وائس چانسلرز پر مشتمل تعلیمی برادری کے تقریباً 1800 اراکین کو اکٹھا کیا گیا ۔ پاکستان بھر کے اداروں کے سربراہان شعبہ جات، سینئر فیکلٹی ممبران، پرنسپلز , طلباء نے مذاکرات میں حصہ لیا۔ورچوئل میڈیم کے ذریعے بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور جی بی کے جنوبی اضلاع سے شرکت کی , شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے،فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے تعلیمی اداروں کو ہم آہنگی، استحکام، امن اور ترقی کے قومی بیانیے کو فروغ دینے میں فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ تنقیدی سوچ اور علم سے چلنے والی معیشتوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، سی او اے ایس نے کہا کہ ہمارے تعلیمی اداروں کو پاکستان کی ترقی کے لیے تنقیدی سوچ، استدلال اور نامیاتی اختراعی حل کے مراکز کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے مختلف جامعات کے وائس چانسلرز، پرنسپلز اور سینئر اساتذہ کرام سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اساتذہ کرام ملک کا بڑا سرمایہ ہیں، جو کچھ ہوں، والدین اور اساتذہ کی وجہ سے ہوں۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گرد فتنہ الہندوستان ہیں، ان کا بلوچوں سے تعلق نہیں، دہشت گردی بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے، بھارت میں دہشت گردی کی وجہ اقلیتوں پر ظلم اور تعصب ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کوایسی مضبوط ریاست بنانا ہے جس میں تمام ادارے آئین وقانون کے مطابق کام کریں، ایسی ریاست بنانا ہے جہاں تمام ادارے بغیرکسی سیاسی دباؤ، مالی و ذاتی فائدے کے عوام کی فلاح وبہبودکے لیےکام کریں، جوکوئی بھی ریاست کو کمزور بنانےکا بیانیہ بنانے کی کوشش کرے اُس کی نفی کریں۔ سینئر اساتذہ کرام اور شرکا کا سوال جواب سیشن میں تاثر تھا کہ یہ جومحفوظ دھرتی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے، ہمیں پاکستان اور اپنی مسلح افواج پر فخر ہے اور ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔ سوال و جواب کے سیشن کے بعد، شرکاء نے ‘ہلال ٹاکس’ کے ادارے کی تعریف کی اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اس طرح کے اقدامات خیالات کے تبادلے کو فروغ دینے، تحقیق اور اختراع کی راہیں کھولنے اور مسلسل بات چیت کے ذریعے آہستہ آہستہ قومی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ فورم زیادہ محفوظ اور خوشحال پاکستان کے لیے مل کر کام کرنے کے مشترکہ عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
یاد رکھیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ حالیہ تنازعے کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے اور جب تک یہ مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوتا، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ بھارت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی کوششیں عالمی قوانین اور وعدوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔اس کشیدگی کا سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ مسئلہ کشمیر ایک مرتبہ پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی برادری اب اس مسئلے کو بھارت کا داخلی معاملہ ماننے کے بجائے ایک بین الاقوامی تنازع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کی بھرپور سفارتی کوششوں کے باعث نہ صرف عالمی میڈیا نے اس تنازعے کو کوریج دی بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کو بے نقاب کیا۔ یوں عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا کہ بھارت کو اس دیرینہ مسئلے کے حل کی طرف آنا پڑے ادھر، مسلح افواج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور امن ہمارا پہلا انتخاب ہے، لیکن بھارت نے دوبارہ حماقت کی تو ہمارا جواب پہلے سے زیادہ شدید ہو گا۔ خیبر پختونخوا کی مختلف جامعات کے ڈھائی ہزار طلبہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر سے ملاقات کی جس میں جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ بھارت نے سوچا تھا ہم حملہ کریں گے اور پاکستان جواب نہیں دے گا، آپ نے دیکھا آپ سب کس طرح اپنے ملک کے پیچھے کھڑے ہوئے، پورا پاکستان کھڑا ہوا، اللہ کے کرم سے یہ آہنی دیوار بن گئی۔ وہ تمام حکمت عملی جو ہندوستان اور مودی نے بنائی تھی، ہم نے اس کو غلط ثابت کیا۔ یہ قوم اور فوج ہمیشہ سے ایک مٹھی کی طرح تھی اور ایسے ہی متحد رہے گی۔ لوگ سمجھتے تھے یہاں کے عوام اور فوج ایک دوسرے سے دور ہیں، ہرگز نہیں۔
جنرل احمد شریف چودھری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اس خطے اور پاکستان میں جتنی دہشت گردی ہوتی ہے اس کے پیچھے بھارت کا چہرہ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جو مساجد کو شہید کرتے ہیں، لوگوں کو ذبح کرتے ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ان کا خیبر پختونخوا اور پختونوں کی روایات سے کوئی تعلق نہیں، یہ دہشت گرد بھارت کے پیروکار ہیں۔ خارجی نور ولی کہتا ہے کہ شریعت میں اجازت ہے آپ کافر سے مدد لے سکتے ہیں، اسلام میں کفر اور حق آپس میں اکٹھے نہیں ہوسکتے، تم اس بھارت سے مدد مانگتے ہو جو کشمیر کی بچیوں کی عزت کو پامال کرتا ہے۔ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے، مسئلہ ان کی اشرافیہ ہے، جن کو ہندوستانی پیسہ دے کر خریدتا ہے اور پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اپنے افغان بھائیوں سے صرف یہ کہتے ہیں کہ تم براہ مہربانی دہشت گردوں کو اپنے ملک میں جگہ دو نہ تم بھارت کے آلہ کار بنو۔ خیبر پختونخوا کے غیور اور بہادر عوام اور قبائل سے کہتا ہوں آج دوبارہ وقت آگیا ہے، کشمیر بنے گا پاکستان۔اس موقع پر پاکستان ہمیشہ زندہ باد اور پاک فوج زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان کے فلک شگاف نعروں نے ماحول کو گرما دیا۔
ملک کے باہر بین الاقوامی سطح پر وفود کے ذریعے اور ملک کے اندر آئی ایس پی آر کی مدد سے بھارت اور اس کے تعاون سے ہونے والی دہشت گردی کے خلاف رائے عام و خاص ہموار کرنے کا جو سلسلہ حکومت کی طرف سے شروع کیا گیا ہے یہ ہر اعتبار سے خوش آئند ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اس تبدیلی کا اعتراف کیاہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے میں کامیاب ہو چکا ہے اور آج عالمی طاقتیں اس تنازعے میں سنجیدگی سے دلچسپی لے رہی ہیں۔ ان کا بیان نہ صرف بھارتی بیانیے کی نفی کرتا ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ مسئلہ کشمیر محض ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جس کا حل کشمیری عوام کی رائے کے مطابق نکالنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے، لیکن مسئلہ کشمیر بدستور حل طلب ہے۔ یاد رکھیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس کے وائس چیرمین غلام احمد گلزار نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل تک جنوبی ایشیا پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہیں گے ۔مسئلے کو حل کئے بغیرخطے میں امن و استحکام قائم نہیں ہو گا۔ آنے والی تباہی کو روکنے کے لیے اس مسئلے کو بغیر کسی تاخیر کے انصاف کی بنیاد پر مستقل طور پر حل کیا جانا چاہیے۔ ہ یہ نہ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ تقریبا آٹھ دہائیوں سے کشمیریوں کی زندگیوں پر اس کے تباہ کن اثر ات مرتب ہورہے ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے حریت رہنمائوں ، کارکنوں اور دیگر کشمیری سیاسی نظربندوں کی بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی جیلوں میں طویل عرصے سے مسلسل غیر قانونی نظربندی کی شدیدمذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زوردیا ہے کہ وہ کشمیری قیادت اور کارکنوں کی رہائی کے لئے بھارت پر دباو ڈالے، حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں ایک بیان میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے اپیل کی کہ وہ حریت رہنمائوں اور دیگر ہزاروں کشمیری نظربندوں کی جلد رہائی کیلئے بھارت پر دبائو بڑھائیں جو طویل عرصے سے غیر قانونی طورپرنظربند ہیں ۔ جبکہ ضلع سانبہ میں فوجی آپریشن جاری ہے اس دوران محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں شروع کی گئی ہیں ،کے پی آئی کے مطابق قابض فوج نے ضلع میں بنی کے علاقوں لوانگ اور سرتھل میں تلاشی کی کارروائیاں شروع کیں۔ اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے کشمیر تنازعہ کا حل ناگزیر ہے۔دہشت گردی کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں,اہم بات یہ ہے کہ آج زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں
کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت سب کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے۔، تقسیم سے بچاو کا واحد راستہ یہی ہے کشمیریوں کی بیرون ملک مقیم ایک بہت بڑی تعداد آزادی کشمیر کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو کامیابی سے استعمال کیا ہے