اسلام آباد (ٹی این ایس)چہلم امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کا راز پیغام کربلا میں موجود

 
0
46

چہلم امام حسین علیہ السلام پر ایک لاکھ سے زائد پاکستانی زائرین کربلا پہنچ گئے۔ عراق میں پاکستان کے سفیر احمد امجد علی کے مطابق1 لاکھ سے زائد پاکستانی زائرین کربلا پہنچے ہیں۔ پاکستانی زائرین کی سہولت کے لیے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے کربلا میں کیمپ لگایا گیا ہے، پاکستانی زائرین کی سہولت و رہنمائی کے لیے یہ 3 روزہ کیمپ لگایا گیا ہے۔ کیمپ پر ڈاکٹرز اور طبی عملہ موجود ہے، جبکہ سبیل امام حسین علیہ السلام بھی سفارت خانے کی جانب سے لگائی گئی ہے۔ عراق میں پاکستان کے سفیر احمد امجد علی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سفارتی دشواریاں دور کرنے کے لیے پاکستانی سفارتی عملہ کربلا کیمپ آفس پر موجود ہے.
چہلم امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کا راز شہادت کربلا کے پیغام میں موجود ہے۔ یہ وہ دن ہے جب حق کا علم بلند ہوا جو قیامت تک بلند اور لہرا تا رہے گا۔ چہلم امام حسینؑ شہیدوں کے پس ماندگان کا دن ہے اگر تاریخ میں یہ عظیم شہادت ہو جاتی لیکن بنی امیہ اس میں کامیاب ہو جاتے کہ جس طرح انہوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے تمام ساتھیوں کو بظاہر شہید کرڈالا تھا اور ان کے اجسام پاک کو خاک کے نیچے چھپا دیا تھاان کی یاد کو بھی اس زمانے کی نسل بشر اور آیندہ نسلوں کے دلوں سے دور کر دیتے, آیا اس صورت میں اس شہادت کا عالم اسلام کو کوئی فائدہ ہوتا ؟عالمی اردوخبر رساں ادارے “نیوزنور” کے مطابق قائد انقلاب اسلامی امام علی خامنہ ای کے دفتر حفظ و نشر آثار کی سائیٹ نے امام حسین علیہ السلام کے چہلم کی اہمیت کے بارے میں بیانات کو جاری کیا ہے جس کے کچھ اقتباسات کا ترجمہ درج ذیل ہے, چہلم کی خصوصیت یہ ہے کہ چہلم کے دن حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد تازہ ہوجاتی ہےاور یہ چیز بہت اہمیت رکھتی ہے.فرض کیجیے کہ اگر یہ عظیم شہادت تاریخ میں رو نما ہو جاتی یعنی حسین ابن علی اور باقی شہداء کربلاء میں جام شہادت پی جاتے لیکن بنی امیہ صرف اتنا کرنے میں کامیاب ہو جاتے کہ جس طر ح انہوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے پیارے عزیزوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور ان کے پاک جسموں کو خاک میں چھپا دیا تھا اسی طرح ان کی یاد کو بھی اس دور کی نسل بشر اورآئیندہ نسلوں کے دلوں سے دورکر دیتے تو ایسی صورت میں آیا عالم اسلام کو اس شہادت کا کوئی فائدہ ہوتا؟ یا اگر اس دور میں کچھ اثر ہو بھی جاتاتو آیا تاریخ میں اس واقعہ کا بعد کی نسلوں کو، مصیبت زدوں کو،سیاہیوں اور تاریکیوں کو، اور تاریخ کے آنے والے ادوار کے یزیدوں کی یزیدیت کو نمایاں اور آشکار کرنے کی صورت میں کوئی فائدہ ہوتا ؟
اگر حسین امام حسین علیہ السلام شہید ہو جاتے لیکن اس زمانے کے لوگ اور آنے والی نسلوں کے لوگ نہ جان پاتے کہ حسین امام حسین علیہ السلام شہید ہو گئے ہیں تو یہ واقعہ تعمیروترقی اور قوموں اورجوامع بشری اور تاریخ کو انقلابی رخ دینے میں اپنا کوئی اثر اور کردار چھوڑ پاتا ؟ امام حسین علیہ السلام شہید ہوگئے رضوان الہی کے مرتبہء اعلی علیین پر فائز ہو گئے.وہ شہید بھی کہ جو غربت وخاموشی کے عالم میں شہید ہوئے وہ آخرت میں اپنے مدارج تک پہنچ گئے.ان کی روح کامیاب ہو گئی اور رحمت الہی کی درگاہ میں اس نے قرار پا لیا.لیکن وہ کس قدر سبق آموز ہوئے کس قدر نمونہء عمل قرار پائے؟وہ شہید درس آموز ہوتا ہے کہ جس کی شہادت و مظلومیت کے بارے میں اس کی معاصر اور آنے والی نسلیں سنیں اور جانیں. وہ شہید باعث درس اور نمونہء عمل ہوتا ہے کہ جس کا خون جوش مارے اور تاریخ کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جائے.کسی قوم کی مظلومیت صرف اس وقت ملتوں کے ستم کشیدہ زخمی پیکر کومرہم لگا کر ٹھیک کرسکتی ہے کہ جب اس کی مظلومیت فریاد بن جائے.اس مظلومیت کی آواز دوسرے انسانوں کے کانوں تک پہونچے. یہی وجہ ہے کہ آج بڑی طاقتوں نے شوروغل مچا رکھا ہے تا کہ ہماری آواز بلند نہ ہونے پائے. اسی وجہ سے وہ تیار ہیں کہ چاہے جتنا زیادہ سرمایہ خرچ ہو جائے مگر دنیا یہ نہ سمجھ پائے کہ جنگ کیوں تھوپی گئی اور کس محرک کے تحت چھیڑی گئی اس دور میں بھی استعماری طاقتیں آمادہ تھیں کہ چاہے جتنا سرمایہ لگ جائے مگر نام یاد خون امام حسین علیہ السلام اور شہادت عاشوراء ایک درس بن کر اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی ملتوں کے اذہان میں نہ بیٹھنے پائے۔ وہ ابتداء میں نہیں سمجھ پائے کہ مسئلہ کتنا با عظمت ہے مگر جیسے جیسے وقت گذرتا گیا لوگ زیادہ سے زیادہ سمجھنے لگے.خلافت بنی عباس کے اواسط میں یہاں تک کہ امام حسینؑ کی قبر مبارک کو بھی ویران کردیا گیا روضہء مبارک کو پانی سے بھر دیا ان کی کوشش یہ تھی کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے شہادت اور شہیدوں کی یاد منانے کا یہی فائدہ ہے شہادت اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتی جب تک کہ شہید کا خون جوش نہ مارے اور اس کی یاد دلوں میں تازہ نہ کی جائے اور چہلم کا دن وہ دن ہے کہ جس روز پہلی بار شہادت کربلا کے پیغام کے پرچم کو بلند کیا گیا ہے یہ شہیدوں کے پس ماندگان کا دن ہے اب چاہے پہلے ہی چہلم کے موقع پر امام حسینؑ کے اہل حرم کربلا میں آگئے ہوں یا نہ آئے ہوں لیکن پہلا چہلم وہ دن ہے کہ جب پہلی بار حسین ابن علیؑ کے مشہور زائر جابر ابن عبداللہ انصاری اور عطیہ کہ جو پیغمبرؐ کے صحابی تھے کربلا کی سرزمین پر پہنچے جابر ابن عبداللہ نا بینا تھے اور جیسا کہ روایات میں آیا ہے عطیہ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اس کو حسین ابن علیؑ کی قبر پر رکھا انہوں نے قبر کو مس کیا گریہ کیا اس سے رازو نیاز کیا حسین ابن علیؑ کی یاد کو زندہ کیا اور قبور شہداء کی زیارت کی سنت حسنہ کی بنیاد رکھی چہلم کا دن ایک ایسا ہی اہم دن ہے ۔امام حسینؑ نے حق و عدل کے برپا کر نے کی خاطر قیام کیا تھا: ’’انما خرجت لطلب الصلاح فی امۃ جدی ارید ان امر بالمعروف و انھیٰ عن المنکر ‘‘ چہلم کی زیارت میں کہ جو ایک بہترین زیارت ہے ہم پڑھتے ہیں’’و منح النصح و بذل مھجتہ فیک لیستنقذ عبادک من الجہالۃ و حیرۃ الضلالۃ‘‘راستہ میں انحضرت نے پیغمبر کی ایک مشہور و معروف حدیث کو بیان کیا ’’ایھا الناس انّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم قال: من رائی سلطانا جائرا مستحلّا لحرم اللہ ناکثا لعھد اللہ مخالفا لسنت رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یعمل فی عباد اللہ بالاثم و العدوان فلم یغیر علیہ بفعل ولا قول کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ‘‘

آنحضرت کے تمام آثار اور اقوال سے نیز ان اقوال سے کہ جو معصومینؑ کی طرف سے امام حسینؑ کے بارے میں بیان ہوئے ہیں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کا مقصد حق و عدل اور دین خدا کو قائم کرنا شریعت کی حاکمیت کو وجود میں لانا اور ظلم و جور اور سرکشی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔مقصد پیغمبر اکرمؐ اور دیگر پیغمبروں کے راستے کو آگے بڑھانا تھا ’’یا وارث آدم صفوۃ اللہ یا وارث نوح نبی اللہ‘‘ یعنی اے آدم اور نوح کے وارث اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پیغمبروں کی آمد کا مقصد ’’ لیقوم الناس بالقسط ‘‘ حق و عدالت کو قائم کرنا اور اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کو بر سر کار لانا تھا ۔
بنیادی طور پر چہلم کی اہمیت کا راز یہ ہے کہ اس روز اہلبیت پیغمبرؐ کی الہیٰ تدبیر کے ذریعہ امام حسینؑ کے قیام کی یاد ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئی اور اس کی بنیاد ڈال دی گئی اگر شہیدوں کے پسماندگان اور اصلی وارث طرح طرح کے درد ناک حادثوں میں جیسے عاشورا کے دن امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد شہادت کے آثار کی حفاظت کی خاطر کمر بستہ نہ ہوں تو بعد کی نسلیں شہادت کے درخشاں نتائج سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گی
یہ بات صحیح ہے کہ خدا وند متعال شہیدوں کو اسی دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور شہید قہری طور پر تاریخ میں اور لوگوں کی یاد میں زندہ اور پائیندہ ہے لیکن طبیعی وسائل جو خداوند متعال نے تمام دوسرے امور کی طرح اس امر کے لئے متعین فرمائے ہیں وہ یہی چیز ہے کہ جو ہمارے اختیار اور ارادے سے متعلق ہے یہ ہم ہیں کہ درست اور بجا ارادے کے ذریعے شہیدوں کی یاد اور فلسفہ شہادت کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ اگر زینب کبری (س) اور امام سجاد ؑ علیہ السلام اپنے انہیں اسارت کے دنوں میں چاہے کربلا میں عصر عاشورا کے موقع پر اور چاہے بعد کے دنوں میں کوفہ اور شام کے راستے میں اور خود شہر شام میں اور اس کے بعد کربلا کی زیارت کے موقع پر اور مدینہ کی جانب واپسی کے دوران اور بعد کے کئی برسوں میں کہ جب تک یہ بزرگوار زندہ رہے انہوں نے واقع کربلا کو بیان کرنے کے سلسلے میں جد وجہد نہ کی ہو تی اور واقع عاشورا کے فلسفے کی حقیقت اور حسین ابن علی ؑ کے مقصد اور دشمنوں کے مظالم کو بیان ن07ہ کیا ہوتا تو عاشورا کا واقعہ آج تک پورے جوش و خروش کے ساتھ زندہ نہ ہوتا ۔ روایت کے مطابق امام جعفرصادق ؑعلیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص واقع عاشورا کے بارے میں ایک شعر کہے اور لوگوں کو اس شعر کے ذریعے سے رلائے خدا بہشت کو اس کے لئے واجب کردیتا ہے ,چونکہ تمام تبلیغاتی ادارے واقعہ کربلا کو اور کلی طور پر اہلبیت ؑ کی حقانیت کو چھپانے اور تاریکی میں رکھنے پر پورے طور پر تیار ہوگئے تھے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھ پائیں کہ کیا ہوا اور قصہ اصل میں کیا ہے۔پروپیگنڈہ ایسا ہی ہوتا ہے اس زمانے میں بھی آج کی طرح ظالم اور ستمگر طاقتیں شیطانیت آمیز مغرضا نہ اور جھوٹی تبلیغات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ایسے حالات میں کیا یہ ممکن تھا کہ عاشورا کا یہ واقعہ جو ایک بیابان میں دنیا سے دور ایک کونے پر نمایا ں ہوا اس عظمت اور اس حرارت جوش و خروش کے ساتھ باقی رہتا ؟یقیناًان کوششوں کے بغیر ختم ہو جاتا جس چیز نے اس واقعہ کو زندہ رکھا وہ امام حسین ؑ کے اہل حرم کی کوششیں تھیں جس قدر حسین ابن علی ؑ اور ان کے ساتھیوں کی کوششیں صاحبان پرچم ہونے کے عنوان سے سخت اور دشوار رکاوٹوں کے روبرو ہوئیں اسی قدر حضرت زینب ,امام سجادعلیہ السلام اور دیگر پسماندگان کی جد و جہد بھی مشکل اور طاقت فرسا تھی البتہ ان کا میدان جنگ کا میدان نہیں تھا بلکہ تبلیغی اور فرہنگی میدان تھا ہمیں ان باتوں کی طرف دہیان دینا چاہیے۔چہلم جو درس ہمیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت کو دشمنوں کی تبلیغات کے طوفان کے مقابلے میں زندہ رکھنا چاہئے اگرحق کی تبلیغات نہ ہوتیں اور نہ ہوں تو دشمن تبلیغات کے میدان میں غالب آجائے گا تبلیغات کا میدان بہت عظیم اور پر خطر میدان ہے البتہ ملت کی اکثریت قاطع اور عوام کی ایک ایک فرد انقلاب سے آگاہ ہونے کی برکت سے دشمن کی تبلیغات سے محفوظ ہیں دشمن نے بہت دروغ گوئی کی اور جو چیزیں ہماری نظروں کے سامنے تھیں ان کو برعکس اور الٹا کرکے دکھایا مگر ہمارے لوگوں کو عالمی تبلیغات جھوٹے پروپیگنڈوں اور بے بنیاد باتوں پر بالکل اطمینان نہیں رہا ۔ یزید کی ظالم اور جابر حکومت اپنی تبلیغات کے ذریعے حسین ابن علی ؑ کو مجرم ٹھہراتی تھی اور یہ باور کراتی تھی کہ حسین ؑ وہ شخص ہے کہ جس نے اسلامی حکومت اور عدل کے خلاف دنیا کی خاطر قیام کیا ہے کچھ لوگ ان جھوٹی تبلیغات پر اعتماد کرتے تھے لیکن اس وقت کے جب حسین ابن علی ؑ عجیب حالت میں اور دردناک صورت میں جلادوں کے ذریعے صحراء کربلا میں شہید ہوگئے تو اس چیز کو انہوں نے دشمن پر غلبے اور فتح کے طور پر منا یا لیکن بار گاہ امامت کی تبلیغات میں ان تمام دروغ گوئیوں کو بدل دیا حق ایسا ہی ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ شریکۃ الحسین حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے شام دمشق کے یزیدی درباروں اور بازاروں میں یادگار خطبے دیئے۔ شام کے زندان کو اپنے مظلوم بھائی کے عزاخانے میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ستمکاروں کے محل لرزنے لگے۔ ابن زیاد ملعون اس باطل خیال میں تھا کہ ایک خاتون اس قدر مصائب اور رنج و آلام دیکھ کر ایک جابر ستمگر کے سامنے جواب دینے کی سکت و جرأت نہیں رکھتی، کہنے لگا، اُس خدا کا شکرگزار ہوں جس نے تم لوگوں کو رسوا کیا، تمہارے مردوں کو مار ڈالا اور تمہاری باتوں کو جھوٹا ثابت کیا ’’علی کی بیٹی نے کمال عظمت کے ساتھ اس سرکش طاغوت کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا یابن مرجانہ۔ تعریفیں اُس خدا کیلئے ہیں جس نے ہمیں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ منسوب کرکے عزت بخشی آلودگی و ناپاکی سے دور رکھا اور تجھ جیسے ویران گر شخص کو رسوا کر دیا۔ جس طرح روز عاشوارا میدان کربلا میں امام حسین اور آپ کے باوفا جانثاروں نے قربانیاں دے کر اسلام کو تاابد زندہ و جاوید کرکے محرم و عاشورا کو امر کر دیا۔ اسی طرح چہلم یا صفر المظفر کے مہینہ میں خانوادہ اہلبیت علیہم السلام کی پاک و مطہر بیبیوں کا دین حق کی خاطر قربانیاں دینا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ امام خمینی فرماتے ہیں کہ محرم اور صفر ہی نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ جب کہ حکیم الامت علامہ اقبالؒ جو بہترین کربلا شناس تھے، وہ تحریک کربلا کو دو ابواب میں تقسیم کرکے یزیدیت کی نابودی اور حسینت کی فتح کو امام حسین علیہ السلام و شریکتہ الحسینؑ سیدہ زینب سلام اللہ علیہ سے منسوب کرکے فرماتے ہیں کہ
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یک حسین (ع) رقم کرد و دیگر زینب (س)بچوں اور جوانوں کی طرح کربلا میں خواتین کا بھی کردار رہا ہے لیکن سب سے اہم کردار خواتین ہی کا ہے کیونکہ حسین و اصحاب حسین علیہ السلام کو شہید کرنے کے بعد یزید لعین و بنی امیہ نے اپنے اجداد کے راستے پر چلتے ہوئے اتنا منفی پروپیگنڈہ کر رکھا تھا کہ نعوذ باللہ امام حسین باغی تھے اور خلیفہ وقت یزید ملعون کے خلاف بغاوت کی تھی۔۔لیکن یہ امام حسین علیہ السلام کی شیردل بہن سیدہ زینب سلام اللہ علیہا جسے شریکۃ الحسین بھی کہا جاتا ہے کا بحثیت سالار قافلہ اسیران کربلا کردار ہی تھا کہ شریکۃ الحسین سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے دیگر مخدارات عصمت و طہارت اور بچوں سمیت کربلا سے کوفہ و شام کے بازاروں و زندانوں میں علی علیہ السلام کے لہجے میں خطبے سنا کر اور بازاروں میں ماتم حسین علیہ السلام برپا کرکے جلوس و عزاداری اور ظالموں کے
خلاف احتجاج کی بنیاد ڈالی۔ یزید ملعون اور بنی امیہ کے منفی پروپیگنڈے کو خاک میں ملا دیا۔ اس سلسلے میں دربار ابن زیاد و یزید لعین دمشق میں شریکۃ الحسین سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کے خطبوں نے یزیدیت کو تاقیامت رسوا و بےنقاب کرکے لعنت کا حقدار ٹہرایا۔۔ یہی وجہ ہے کہ حکیم الامت علامہ اقبال جو بہترین کربلا شناس تھے وہ تحریک کربلا کو دو ابواب میں تقسیم کرکے یزیدیت کی نابودی اور حسینت کی فتح قرار دیتے ہیں، شریکۃ الحسین سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے شام دمشق کے یزیدی درباروں اور بازاروں میں یادگار خطبے دیئے۔
شام کے زندان کو اپنے مظلوم بھائی کے عزاخانے میں تبدیل کر دیا اور اس طرح ستمکاروں کے محل لرزنے لگے۔ ابن زیاد ملعون اس باطل خیال میں تھا کہ ایک خاتون اس قدر مصائب اور رنج و آلام دیکھ کر ایک جابر ستمگر کے سامنے جواب دینے کی سکت و جرأت نہیں رکھتی، کہنے لگا، اُس خدا کا شکرگزار ہوں جس نے تم لوگوں کو رسوا کیا، تمہارے مردوں کو مار ڈالا اور تمہاری باتوں کو جھوٹا ثابت کیا ’’علی کی
بیٹی نے کمال عظمت کے ساتھ اس سرکش طاغوت کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا یابن مرجانہ۔تعریفیں اُس خدا کیلئے ہیں جس نے ہمیں اپنے پیغمبر (ص) کے ساتھ منسوب کرکے عزت بخشی آلودگی و ناپاکی سے دور رکھا اور تجھ جیسے ویران گر شخص کو رسوا کر دیا۔محسن انسانیت امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں اپنے انصار و اصحاب سمیت تاقیامت انسانی اقدار کو بچانے کے لئے ایسی لازاول قربانی دی، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے، یہی وجہ ہے کہ نواسہ رسول (ص)، محسن انسانیت حضرت امام حسین (ع) کی یاد تمام باشعور و حریت پسند انسانوں میں بغیر کسی تفریق مذہب رنگ و نسل آباد ہے اور انشاءاللہ تاقیامت یہ یاد باقی رہے گی۔ امام حسین علیہ السلام نے راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت، اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو آزاد کرنے کے لئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ کیا یہ چیزیں کبھی پرانی اور فراموش ہونے والی ہیں؟ ہرگز نہیں حضرت امام حسین (ع) نہ صرف مسلمانوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تمام مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔