اسلام آباد(ٹی این ایس) بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو, بی آر آئی ”ون بیلٹ ون روڈ’صدی کا سب سے بڑا چین کا ترقیاتی منصوبہ

 
0
111

بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو’ یعنی بی آر آئی جسے ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے چین کی طرف سے رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت 66 سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے, تجزیہ کار, کالم نگار اصغر علی مبارک کے مطابق بیلٹ اینڈ روڈ فورم کثیر الجہتی فورم ہے، اس کا مقصد دنیا بھر کے ممالک کو قائل کرنا ہے کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بنیں، اس کے علاوہ اس منصوبے کی پروجیکشن اور تشہیر کرنا ہے جبکہ تیسرا مقصد منصوبے میں پہلے سے شامل ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہے۔
یاد رہےکہ پہلے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا انعقاد سنہ 2017 میں بیجینگ میں ہوا تھا جس میں دنیا بھر سے مختلف ممالک کے سربراہان سمیت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی آئے تھے۔دنیا کے 122 ممالک اور 49 عالمی تنظیمیں بھی اس اہم فورم کا حصہ ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ فورم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ چین کے اس منصوبے کی نہ صرف دنیا بھر میں تشہیر کی جائے بلکہ سب کو اس سے متعلق آگاہی دے کر اس میں شامل کیا جائے۔ اس لیے چین کی جانب سے 18 اکتوبر کو ’ایک کھلی عالمی معیشت میں رابطے‘ کے عنوان فورم سے دیگر ممالک کے تحفظات دور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے 2013 میں اس وسیع منصوبے کا اعلان کیا جو کہ زمانہِ قدیم کی شاہراہ ریشم کے نقشِ قدم پر بنایا گیا ہے۔ اس کے زمینی راستے کو ‘سلک روڈ اکنامک بیلٹ’ کا نام دیا گیا ہے جو کہ چین کو سڑک اور ریل کی مختلف راہداریوں کے ذریعے ایشیا کے تقریباً تمام ممالک سے ملاتے ہوئے یورپ تک جاتا ہے۔
اس کا دوسرا پہلو ‘میری ٹائم سلک روڈ’ ہے جو کہ بحری راستہ اپناتا ہوا افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت پوری دنیا میں بکھر جاتا ہے۔
ان راہداریوں کا ایک اہم حصہ چین پاكستان اقتصادی راہداری ہے جو کہ گوادر سے خنجراب کے راستے 62 ارب امریکی ڈالر کی مالیت پر مشتمل ہے۔ان اقتصادی راہداریوں میں تجارت، نقل و حمل، توانائی، سرمایہ کاری، ثقافتی تبادلہ اور دیگر بنیادی معاشی ڈھانچے شامل ہیں۔چین کی معیشت اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے لیکن اگر قوت خرید کے حساب سے تولا جائے تو سب سے بڑی ہے۔ جن ممالک کو چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کر رہا ہے ان میں اکثریت ترقی پذیر ممالک کی ہے جو اس منصوبے کو مقامی معیشت میں ترقی کے لیے نہایت اہم موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ ترقیاتی منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو ملائے گا جس میں کم از کم ایک تہائی مجموعی ملکی پیداوار بھی شامل ہے۔سی پیک بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت شروع کیا گیا ایک منصوبہ ہے اور تقریبا ایک دہائی سے پاکستان اور چین کے درمیان تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔
دنیا بھر سے کئی ممالک کے لیڈر، تھنک ٹینکس اور اداروں کے سربراہان بیجنگ میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے بیلٹ اینڈ روڈ عالمی تعاون فورم میں جمع ہوںگے چینی قیادت بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے ذریعے بین الاقوامی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے
چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بیجنگ میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی تعاون کے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم (بی آر ایف) میں شرکت کے لیے 17 سے 18 اکتوبر تک بیجنگ چین کا دورہ کریں گے۔ وزیر اعظم بیلٹ اینڈ روڈ فورم کی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گے اور 18 اکتوبر کو ’ایک کھلی عالمی معیشت میں رابطے‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی فورم سے خطاب بھی کریں گے
دنیا میں چین امن ، استحکام کے ساتھ ساتھ ترقی اور خوشحالی کا مرکز بن چکا ہے۔ چین کی ابتدائی سرمایہ کاری 46 ارب ڈالر تھی جو بعد میں 62 ارب ڈالر تک بڑھ گئی اور یہ دوستی اور تعاون کا ایک ایسے وقت میں اہم اشارہ تھا جب کوئی دوسرا ملک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں تھا۔ 2013 میں تاریخی سی پیک پروگرام کا آغاز ہوا ۔
رپورٹ کے مطابق 2023 سی پیک کا ایک عشرہ ہے، سی پیک کے اگلے مرحلے کا مقصد صنعتی تعاون اور کاروبار سے کاروباری روابط کو فروغ دینا ہے۔ سی پیک سے پیدا ہونے والے معاشی ترقی و تبدیلی کے حوالے چین اور پاکستان سی پیک 10 سالہ شراکت داری کا جشن منارہے ہیں،
پاکستان میں سی پیک کے دس سالہ ثمرات کی رپورٹ کے مطابق سی پیک کے تحت مالی سال 2015 اور مالی سال 2030 کے درمیان سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی62 ارب ڈالر ہے،جس میں 27.4 ارب ڈالر کے منصوبے پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں اور ان منصوبوں نے 200,000 ملازمتیں پیدا کیں اور اہم ہائی وے اور ٹرانسمیشن لائن کی تنصیبات کے ساتھ ساتھ 6,000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی.
یاد رہےکہ عالمی طور پر بڑی طاقتیں تو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو یعنی بی آر آئی کی مخالفت کر رہی ہیں، البتہ اس میں شامل ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں۔ اور اس کی مخالفت کی ایک وجہ چین کی عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے متعلق یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اس منصوبے کو اپنی سیاسی، اقتصادی اور عسکری قوت پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک اس کے قرضے تلے دب جائیں گے۔ اس تنقید کی وجہ سے ہی چین نے اس منصوبے کے لیے ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کی جگہ ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے متعلق یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اس منصوبے کو اپنی سیاسی، اقتصادی اور عسکری قوت پھیلانے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک اس کے قرضے تلے دب جائیں گے۔ اس تنقید کی وجہ سے ہی چین نے اس منصوبے کے لیے ‘ون بیلٹ ون روڈ’ کی جگہ ‘بیلٹ اینڈ روڈ’ کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد اس میں شامل مختلف انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے ذریعے عالمی تجارتی رابطے پیدا کرنا ہے۔اسی لیے اس کے تحت کئی ممالک میں قرضوں کی صورت میں ٹرینوں، سڑکوں اور بندرگاہوں کا جال بچھایا جا رہا ہے تاکہ وہاں سرمایہ کاری کے راستے کھلیں۔
امریکہ کھل کر چین کی اقتصادی پالسییوں اور منصوبہ بندیوں پر تنقید کرتا رہا ہے، اور اس منصوبہ کو بھی ‘قلیل مدتی فوائد اور چین پر طویل مدتی انحصار’ کا باعث قراردیتا ہے۔
امریکہ بیلٹ اینڈ روڈ کے اس منصوبے کو ‘قرضوں پر منحصر سفارتکاری’ یا ‘ڈیٹ ڈپلومیسی’ کا نام بھی دیتا ہے۔ کئی ممالک جو اس منصوبے کا حصہ بھی ہیں، اب کچھ احتیاط سے کام لے رہے ہیں، اور اس سلسلے میں سری لنکا کی مثال دی جاتی ہے۔ امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے


سری لنکا اس صورتحال کا شکار ہوا ہے ‘جب اسے 2017 میں اپنی ایک بندرگاہ کا کنٹرول مکمل طور پر چین کے ہاتھ دینا پڑا کیونکہ سری لنکا بیرونی قرضہ وقت پر نہیں لوٹا سکا تھا یہ رائے عالمی سطح پر کچھ ممالک میں ضرور پائی جاتی ہے کہ ‘چین قرضے دیتا ہے، اس سے اپنا اثرو رسوخ بڑھاتا ہے اور پھر ان کے اثاثوں پر قبضہ کرتا ہے۔ جیسا کہ سری لنکا کے معاملے میں ہوا اور امریکہ کو یہ شہ ملی کہ وہ قرضوں کا الزام لگا سکے۔ اس لیے یہ رکن ممالک پر منحصر ہے کہ وہ قرضہ کن شرائط پر لے رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ سری لنکا پر قرضوں میں چین کا قرضہ دو فیصد سے بھی کم تھا اور یورپ کا دس فیصد سے بھی زیادہ۔ ابھی تو یہ منصوبہ اپنی تکمیل کے مراحل میں ہے، اور آنے والے کچھ سالوں تک جب تک اس کے ثمرات سامنے نہیں آ جاتے تو بغیر ڈیٹا کے ایسی بات کرنا درست نہیں۔پاکستان میں بھی چینی قرضہ تو صرف دو سے تین فیصد ہے، اگر ہم اپنی معیشت کو درست انداز میں چلائیں تو یہ قرض باآسانی واپس ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ملائشیا نے وہ قرضے نہیں لیے جو انھوں نے سمجھا کہ وہ واپس نہیں کر سکیں گے اور اسی طرح پاکستان نے بھی تاحال ان معاہدوں پر دستخط نہیں کیے جہاں اسے اطمینان نہیں۔
ماہرین کے خیال میں چین اس بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو’ یعنی بی آر آئی فورم کے ذریعے عالمی برادری کو یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ ایک جامع منصوبہ ہے اور اس میں شریک غریب ممالک میں قرضوں کی واپسی کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کرنے کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہےکہ بیجینگ میں ہونے والے بیلٹ اینڈ روڈ فورم گزشتہ اجلاس میں چین نے مزید سرمایہ لگانے کی بجائے ‘مشترکہ ترقی’ پر بات کی اور اس ملٹی بلین ڈالر منصوبے پر کی جانے والی تنقید اور شکوک و شبہات کو دُور کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔چینی صدر نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ چین کرنسی کی قدر میں کمی نہیں لانے دے گا اور اس کا استحکام یقینی بنائے گا اور یہ کہ چین ‘ہمسائے کو بھکاری بناؤ’ جیسی پالیسی پر یقین نہیں کرتا اور یہ چین کی پالیسی ہرگز نہیں۔’
صدر شی جن پنگ نے امریکہ کے ساتھ ہونے والی ‘تجارتی جنگ’ کا ذکر نہ کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا کہ یہ منصوبہ صرف چین کے لیے نہیں ہے۔ چینی صدر کا کہنا تھا ‘بیلٹ اینڈ روڈ کوئی امتیازی کلب نہیں ہے۔ اس میں صرف چین کا مفاد نہیں بلکہ اس کے تمام شرکا کا فائدہ ہو گا کیونکہ چین اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلسل مشاورت، ہم آہنگی اور شفافیت میں یقین رکھتا ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ فورم میں خطاب کے دوران ‘چینی صدر نے یہ واضح تاثر دیا تھا کہ وہ درآمد بھی کرنا چاہتا ہے،اور یہ ان کی کمزوری نہیں، یہ ان کی سفارتکاری کا حصہ ہے۔ چین کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے کہ وہ درآمدات کو بھی گنجائش دے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ کچھ ممالک اس منصوبے کو چین کی جانب سے جیوپولیٹیکل اثر و رسوخ قائم کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیتے ہیں۔ اس تاثر کو بھی اس فورم میں رد کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ایک یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ چین پیچیدہ جیوپولیٹیکل مسائل کو پیسے کے ذریعے حل کر سکتا ہے۔ چین اسے جیو سٹریٹجک منصوبہ نہیں کہتا، چین کے مطابق یہ ‘ان کوششوں کا حصہ ہے’ جن کا مقصد ایسی برادری کی تشکیل ہے جو دنیا میں ان ممالک پر مشتمل ہے جو تمام انسانیت کے مستقبل کی ضامن ہوں۔‘
صدر شی جن پنگ نے فورم کےگزشتہ افتتاحی اجلاس سے خطاب میں بھی کہا تھا کہ ‘امن و خوشحالی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے اقتصادی تعاون اور آزاد تجارتی معاہدوں کی ضرورت ہے’ جبکہ ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ فورم تمام ملکوں کو یکساں مواقع فراہم کرتاہے
امریکیوں کا ایک کلیہ ‘امریکہ سب سے پہلے’ ہے، امریکہ تو پراٹیکشنزم کی جانب بڑھ رہا ہے جبکہ چین معیشت کے معاملے میں ‘گلوبلائزیشن’ کی جانب دیکھتا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی مصنوعات یورپی، چینی اور دیگر عالمی منڈیوں تک پہنچیں۔
اس وقت سرفہرست امریکہ ایک ایسا ملک ہے کہ چین کی خواہش ہے کہ یہ بھی ون بیلٹ ون روڈ کا حصہ بنے، جبکہ جنوبی ایشیا میں انڈیا کی شمولیت بھی اہم ہے، لیکن فی الحال ان دونوں ممالک کے اندرونی مسائل ہیں، لیکن امید ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ ممالک بھی کسی نہ کسی صورت میں اس کے معاہدوں کا حصہ بن سکتے ہیں,
چین خطے میں ‘سب سے بڑی طاقت ہے اور اس کو روکنے کے لیے انڈیا اور امریکہ کا تعلق مضبوط ہوا ہے۔ چین انڈیا کو اپنا حریف سمجھتا ہے ,انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور’اس تناظر میں ایک نئی مثال ہے۔ حال ہی میں بھارت میں جی20 اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے ایک بڑے منصوبے پر اتفاق کیا ہے جسے ‘انڈیا مڈل ایسٹ یورپ اکنامک کوریڈور’ کا نام دیا گیا .چین کے سی پیک کے مقابلے میں انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کنیکٹیویٹی کوریڈور شروع کرنیکا اعلان کیاہے۔ جی 20 ممالک کی کانفرنس میں بھارت، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، یورپی یونین، فرانس، اٹلی، جرمنی اور امریکا پر مشتمل رابطے اور انفراسٹرکچرکی تعمیر پر تعاون کااعلان کیا جائے گا۔یہ انفراسٹرکچر پر تعاون کی ایک تاریخی اور اپنی نوعیت کی پہلی پہل ہوگی۔
یادرہے اس قبل جون 2022 می جی سیون ممالک نے آئندہ 5 برسوں کے دوران ترقی پذیر ممالک میں انفرا اسٹرکچر منصوبوں کے لیے 600 ارب ڈالرز فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا ،یہ منصوبہ بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کو ٹکر دینے کے لیے بنایا گیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور جی سیون کے دیگر رہنماؤں نے پارٹنر شپ فار گلوبل انفرا اسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ کا اعلان جرمنی کانفرنس کے موقع پر کیا تھا۔
خیال رہے کہ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ اس وقت 100 سے زیادہ ممالک میں کام کررہا ہے جس کا مقصد ایشیا سے یورپ تک جانے والے قدیم شاہراہ ریشم کے تجارتی روٹ کا جدید ورژن تیار کرنا ہے۔