اسلام آباد(ٹی این ایس) پاکستانی وزیراعظم کا ای سی او اجلاس میں غزہ میں جارحیت پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ.

 
0
74

پاکستانی نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے محصور غزہ میں جارحیت پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی ’مسلسل، مہلک‘ بمباری ’افسوسناک‘ ہے۔ ازبکستان کے شہر تاشقند میں 16ویں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نےکہا ہے کہ اس مسئلے کو یو این، ایس سی اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو اجاگر کیا جن کی عالمی سطح پر مذمت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ای سی او رکن ممالک پر زور دیتا ہوں کہ وہ غزہ میں جنگ بندی پر زور دیں، انسانی امداد کی فراہمی کے مطالبے کی حمایت کریں اور اسرائیل کے احتساب کی کوششوں کی حمایت کریں۔ اس مسئلے کو یو این، ایس سی اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے غزہ کے ہسپتالوں پر بمباری اور محصور پٹی میں معصوم شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر فرعون نے بچوں کو قتل کیا اور اب بدقسمتی سے جو لوگ ان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان ان اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہے، انہوں نے فلسطین کے بے سہارا لوگوں کی مدد کے لیے انسانی راہداری کی ضرورت پر زور دیا۔ اپنے خطاب کے دوران وزیر اعظم نے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بڑھتی عدم برداشت، تشدد اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے خلاف نفرت خطے کے لیے خطرات ہیں جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ’میں ای سی او رکن ممالک اور عالمی برادری پر زور دیتا ہوں کہ وہ باہمی احترام، بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دیتے ہوئے اسلامو فوبیا کے خلاف سیاسی اور قانونی جدوجہد کے لیے مل کر کام کریں۔‘ای سی او سربراہی اجلاس کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ تنظیم کے اہداف کے حصول کے لیے اس کے مقاصد و اعتراضات کا ادراک کرنا ضروری ہے۔ اگر یہ خطہ اچھی طرح سے باہم مربوط رہا تو اس کے معاشی اور امن و امان کے لحاظ سے زبردست فوائد ہوں گے۔وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے مغربی ممالک سے سفارتی کوششوں کو بڑھانے پرزوردیاہے تاکہ اسرائیل کو باورکرایا جا سکے کہ غزہ کی جنگ کے اثرات خطے کے باہر بھی منتقل ہوسکتے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا ہے کہ مغربی ملکوں خاص طورپر امریکا اور برطانیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسرائیل کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ وہ خطے کو غیرمستحکم کررہاہے۔ انہوں نے تشدد کے فوری خاتمے کامطالبہ کیا اور واضح طورپر کہاکہ مسلسل اسرائیلی حملوں میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ نگران وزیراعظم نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کے حق میں بچوں کے قتل کا کوئی حق حاصل نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کی روک تھام کی کوششوں کے لیے اتوار کو ریاض میں اسلامی تعاون تنظیم کے غیرمعمولی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
قبل ازیں،قطر نے غزہ میں مختصر جنگ بندی کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ قط حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے قطر ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق 12 یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے 3 روزہ جنگ بندی پر بات ہو رہی ہے۔ رہا کرائے جانے والے یرغمالیوں میں 6 امریکی شامل ہیں۔ مصر سے غزہ میں امداد پہنچانے کا وقت بڑھانے پر بھی بات ہو رہی ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے غزہ میں حملے تیز کر دیے ہیں، رات بھر بمباری کے بعد دن میں بھی رہائشی کیمپوں، اسپتالوں کے اطراف بمباری کی۔ اس دورن جبالیا، نصیرات اور شاطئ کیمپوں میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ بمباری سے خان یونس میں 2 مساجد شہید کردیں۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں 300 فلسطینی شہید کردیے گئے، 33 روز میں شہدا کی تعداد 10 ہزار 500 سے زیادہ ہوگئی۔ حماس ,اسرائیل چھڑپوں کے درمیان ہزاروں فلسطینی حفاظت کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر غزہ کے جنوب کی طرف رواں دواں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے فلسطینی قیدیوں کو تشدد اور توہین آمیز سلوک کا سامنا ہے
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ سیکیورٹی صورتحال بہتر ہونے پر غیرملکی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار ہیں ,لبنان کے دارالحکومت بیروت میں حماس رہنما اسامہ حمدان اور دیگر نےکہا کہ اسرائیلی وزیراعظم کو حماس کی قید میں فوجیوں کی قیمت چکانا پڑے گی۔غزہ کی پٹی میں تمام اسپتالوں میں فلسطینی جنگجوؤں کی موجودگی میں حقیقت نہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے نمائندے اسپتالوں میں جاکر خود تصدیق کرسکتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینی جنگجوؤں نے اسرائیلی فورسز کو شدید نقصانات سے دوچار کیا ہے۔ ہر دن کے ساتھ اسرائیلی فورسز کے نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔حماس رہنماؤں نے کہا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کا منصوبہ روک دے۔ یرغمالیوں سے متعلق حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثوں کے ذریعے بات چیت ہو رہی ہے، موجودہ صورتحال یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کسی بھی صورت میں سازگار نہیں۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے افسران اورعالمی طاقتور جی 7 ممالک نے غزہ کے لوگوں کی تکالیف کم کرنے کے لیے انسانی بنیاد پر وقفے کی اپیل پر دوبارہ زور دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی شہریوں کی دردناک تصاویر دیکھنا اسرائیل کے اپنے مفاد میں نہیں۔جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہونیوالے جی7 ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کو انسانی بنیادوں پر ختم کرنے کی حمایت کی ہے۔ اجلاس کے بعد مشترکہ بیان میں کہا کہ ہم غزہ میں بگڑتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے ہنگامی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ فوری طور پر درکار امداد، شہریوں کی نقل و حرکت اور سہولت فراہم کرنے کے لیے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی اور راہداریاں کھولنے کی حمایت کرتے ہیں۔ مشترکہ بیان میں کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد سے یرغمال بنائے گئے تمام افراد کو رہا کیا جائے۔ جاپانی وزیر خارجہ یوکو کامیکاوا نے کہا کہ گروپ کے ممالک کا ماننا ہے کہ دو ریاستی حل کا اصول مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے حل کی واحد بنیاد ہے۔دوسری طرف مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے کہا ہےکہ غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ اپنے دفاع سے بالاتر ہے اور اسرائیل کی طرف سے ’قانون کی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی خاموشی‘ کی مذمت کی۔رپورٹ کے مطابق شمالی غزہ سے ہزاروں افراد جبری نقل مکانی پر مجبور ہیں, یہ ہجرت اسرائیل کی طرف سے اعلان کردہ چار گھنٹے کی مہلت کے دوران کی گئی ہے، جب اسرائیل نے رہائشیوں کو شمال سے نکلنے کو کہا، ورنہ شہریوں کے شدید بمباری والے علاقے میں پھنس جانے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا جسے ان کی افواج نے گھیر لیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے ابغزہ شہر کا محاصرہ کرلیا ہے ، اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شہر کے وسط تک پہنچ چکے ہیں، جبکہ حماس نے بتایا کہ ان کے جنگجوؤں نے اسرائیلی فوجیوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے ۔ دریں اثنا حماس نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی پر الزام لگایا کہ وہ غزہ کے رہائشیوں کی ’جبری نقل مکانی‘ میں اسرائیل کے ساتھ شراکت دار ہے۔ حماس کے میڈیا سربراہ سلامہ معروف کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین (یو این آر ڈبلیو اے) اور اس کے افسران بالخصوص غزہ اور شمال میں رہنے والوں کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے بڑی تعداد میں بے گھر ہونے والوں نے جنوب کے ہسپتالوں، اسکولوں اور دیگر مقامات پر پناہ لی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (او سی ایچ اے) نے کہا کہ تقریباً 15 ہزار افراد نے شمالی حصے کو چھوڑا، جبکہ پیر کو 5 ہزار اور اتوار کو 2 ہزار افراد نکلے۔ اسرائیل نے شمالی غزہ میں اب بھی کام کرنے والے تمام 13 ہسپتالوں سے مریضوں کو نکالنے کا حکم دے دیا ہے۔ محکمہ صحت کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں اب تک 10 ہزار 500 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوگئے، جس میں 40 فیصد بچے شامل ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت کے مطابق ہر دن اوسط 160 بچے غزہ میں جاں بحق ہوتے ہیں۔محصور فلسطینی انکلیو کے وسطی اور جنوبی حصے بھی بدھ کو حملے کی لپیٹ میں آئے، جب 18 افراد جنوب میں قائم پناہ گزین کیمپ پر ہونے والے فضائی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔ خان یونس میں ہونے والے فضائی حملے میں ایک جوان بچی سمیت 6 لوگ مارے گئے۔ حادثے کے عینی شاہد محمد ابو کا کہنا تھا کہ ہم سکون سے بیٹھے ہوئے تھے، جب اچانک ایک گھر پر ایف-16 کا فضائی حملہ ہوا اور اس سمیت پورے بلاک اور آس پاس بنے تینوں گھروں کو اڑا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام شہری تھے، ایک بزرگ خاتون، ایک ضعیف مرد اور دیگر لوگ لاپتا ہیں۔اسرائیلی فوج کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینئل ہاگاری کا کہنا تھا کہ کامبیٹ انجینئرز سیکڑوں کلومیٹرز تک پھیلے ہوئے حماس کے سرنگوں کے جال کو تباہ کرنے کے لیے دھماکا خیز آلات کا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا اسرائیلی فوج نے اب 130 سرنگوں کے شافٹس کو تباہ کردیا ہے۔ اسلامی جہاد گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ٹینکوں کو حماس جنگجوؤں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، جو سرنگ کو اچانک حملہ کرنے کے لیے استعمال کر رہے تھے، اسرائیل کا کہنا تھا کہ اب تک 33 اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں,
غزہ شہر میں سڑکوں پر جھڑپیں جاری ہیں، اسرائیلی فوج کے خلاف حماس کے جنگجو گھات لگا کر حملے کر رہے ہیں۔اسرائیل اور حماس کے درمیان کشیدگی کا دوسرا مہینہ شروع ہوچکا ہے، امریکا نے حماس کی حکمرانی کے بغیر غزہ کے مستقبل کے بارے میں اسرائیلی اور عرب رہنماؤں کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حماس کی قیادت کے ایک رکن خلیل الحیا نے بتایا کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کا مقصد جمود کو توڑنا اور اسرائیل کے خلاف اس کی لڑائی کا ایک نیا باب شروع کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین کے مسئلے کو دوبارہ موضوع بحث بنانے میں کامیاب ہو گئے اور اب خطے میں کوئی بھی اس حوالے سے بےفکر نہیں رہا۔ امریکا نے کہا ہے کہ اس ’جنگ‘ کے خاتمے کے بعد غزہ پر فلسطینیوں کو حکومت کرنی چاہیے، قبل ازیں اسرائیل کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا تھا کہ وہ غزہ کی سیکیورٹی کو غیر معینہ مدت تک سنبھال لے گا۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے حماس کے مرکزی گڑھ اور سمندر کے کنارے واقع سب سے بڑے شہر غزہ شہر کے مرکز میں پیش قدمی کی ہے، دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ حماس نے گزشتہ روز ایک ویڈیو جاری کی جس میں غزہ شہر میں بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں کے درمیان سڑکوں پر شدید جھڑپیں دیکھی گئیں۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی ٹینکوں کو حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے گھات لگا کر حملہ کیے۔دوسری جانب

غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری کے دوسرے مہینے میں داخل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے فوری ’جنگ بندی‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ امریکا جیسے اسرائیل کے حمایتی ممالک ’انسانی بنیادوں پر وقفہ‘ دینے پر زور دے رہے ہیں۔ جنگ بندی میں عمومی طور پر لڑائی مخالف فریقین کی رضامندی سے رک جاتی ہے، جنگ بندی پورے علاقے کا احاطہ کرتی ہے جہاں تنازع چل رہا ہوتا ہے، جنگ بندی سیاسی حل کے طور پر فریقین کو تنازع کے مستقل حل کی طرف لے جا سکتی ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفہ غزہ کے شہریوں کے مصائب کو کم کرنے کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ انسانی بنیادوں پر وقفہ مخالف فریقین کی رضامندی سے انسانی مقاصد جیسے جنگ کی زد میں آنے والے علاقوں تک امداد پہنچانے کی اجازت کے لیے عارضی طور پر لڑائی روک دیتا ہے، یہ عام طور پر محدود وقت کے لیے مخصوص جغرافیائی حدود کے لیے ہوتا ہےجہاں انسانی بنیادوں پر کارروائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔متحدہ عرب امارات کے اقوام متحدہ میں سفیر لنا نسبیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ میں تعطل کرنے پر زور دیا۔ جنگ میں تعطل عارضی طور پر لڑائی روک دیتا ہے، یہ جنگ بندی کی طرف ایک اہم قدم ثابت ہوسکتا ہے اور یہ لڑائی کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ متحارب فریقین ایک دوسرے سے مذاکرات کر سکیں۔غزہ میں بڑھتی بمباری کے دوران یورپی یونین کے رہنماؤں نے مسلسل، تیز، محفوظ اور بنا کسی رکاوٹ کے انسانی ہمدردی کے تحت راہداری اور انسانی ضرورت کے لیے وقفوں سمیت لوگوں تک رسائی اور ضرورت مندوں تک امداد پہنچانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا۔انسانی ہمدردی کے تحت راہداریوں میں جنگ زدہ علاقوں میں انسانی ہمدردی کے سامان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کے لیے مخصوص راستوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اس کا مطلب ایک عارضی وقت ہے جسے اقوام متحدہ کی ایجنسیاں جیسے یونیسیف اور ڈبلیو ایچ او، طبی اور دیگر عملے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ تنازع کے دوران بچوں کو طبی امداد فراہم کی جا سکے، مثال کے طور پر حفاظتی ٹیکوں کی مہم، تمام فریقین اس دوران طبی عملے کے کام میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔ٹروس جنگجوؤں کی رضامندی سے جنگ روکنےکو کہتے ہیں ، یہ تنازع کے دوران برقرار اور ختم کیا جاسکتا ہے، انسانی بنیادوں پر وقفے کے برعکس یہ کسی فریق کو پابند نہیں کرتا، کسی بھی وجہ سے ٹروس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے ، یہ صرف انسانی مقاصد تک محدود نہیں ہے۔ آرمسٹائیس لڑائی کے خاتمے کے لیے رسمی معاہدے کی نشاندہی کرتی ہے اور ضروری نہیں کہ یہ جنگ کا خاتمہ ہو، یہ دیرپا امن کے لیے مذاکرات کی کوشش ہو سکتی ہے۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کے صدر نے غزہ میں ناقابل برداشت انسانی تکلیف کی سطح پر صدمے کا اظہار کیا اور تمام فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی میں کمی لائیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک تباہ کن ناکامی ہے اور دنیا کو اسے برداشت نہیں کرنا چاہیے‘۔رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز(آر ایس ایف) نے عالمی عدالت انصاف میں غزہ میں فلسطینی صحافیوں اور ایک اسرائیلی صحافی، جو اپنے کام کے دوران زخمی اور ہلاک ہو گئے تھے، کے خلاف کیے جانے والے جنگی جرائم کی شکایت درج کروائی، یہ 2018 سے اس طرح کی درج کی جانے والی تیسری شکایت ہے۔ ایک بین الاقوامی اور مقامی تنازع میں شہریوں یا دشمن جنگجؤوں کے خلاف کیے جانے والے جنگی جرائم عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوتے ہیں۔ڈی ملٹرائزڈ زون سے مراد ایک ایسا علاقہ جہاں کسی بھی فریق کی جانب سے قبضہ نہیں کیا جا سکتا یا جسے کسی بھی فوجی مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا اور جس پر فریقین اتفاق کرتے ہں، پولیس فورسز ایسے علاقے میں تعینات کی جاسکتی ہیں تاکہ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھا جا سکے۔اقوام متحدہ امن قائم کرنے کے لیے کارروائیاں یا مشنز کو منظم کرتی ہے تاکہ متعلقہ ممالک دوبارہ انتشار یا بدامنی کی جانب نہ لوٹ جائیں۔اقوام متحدہ کو امن مشن تعینات کرنے کے لیے متحارب فریقوں کی رضامندی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری دونوں کی ضرورت ہے، امن دستے قانون کی حکمرانی کو فروغ دے کر اور انتخابات کی نگرانی کر کے انتشار کی روک تھام میں مدد کر سکتے ہیں۔ قیامِ امن کی کوششوں کے تحت تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرکے اور تنازعات کے حل کے لیے مقامی صلاحیتوں کو موثر بنا کر پائیدار امن کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امدادی تنظیمیں تنازعات میں گھرے علاقوں میں لوگوں تک پہنچنے اور انہیں ہنگامی امداد فراہم کرنے کا ایک طریقہ ہے، یہ ریلیف کوریڈورز یا سیز فائر کے دنوں میں کیا جا سکتا ہے لیکن سب سے پہلے تمام فریقین کی رضامندی ضروری ہے۔ جنوبی افریقہ نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں شہریوں کو مزید بمباری سے بچانے کے لیے ایک ’ریپڈ پروٹیکشن فورس‘ تعینات کرے کیونکہ اسرائیل نے حماس کے حملے کے جواب میں کارروائی شروع کردی ہے۔ مسلح تصادم کے دوران شہریوں کا تحفظ بین الاقوامی انسانی قانون میں اولین ترجیح ہے، انتشار کے دوران سب سے زیادہ خطرے کا شکار عام شہری ہوتے ہیں اور انہیں تحفظ اور پناہ کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ یونیسیف نے غزہ میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملوں کو خوفناک قرار دیا اور عدالمی قانون برائے انسانی حقوق کے تحت ان کیمپوں کی محفوظ حیثیت کا حوالہ دیا۔ عالمی قانون برائے انسانی حقوق دراصل مسلح تصادم کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے قوانین کا ایک مجموعہ ہے۔ عالمی قانون برائے انسانی حقوق بنیادی طور پر 2 شعبوں کا احاطہ کرتا ہے، ان لوگوں کا تحفظ جو لڑائی میں حصہ نہیں لے رہے اور جنگ میں استعمال ہونے والوں طریقوں اور حربوں پر پابندیاں عائد کرنا، اس اصطلاح کو جنگ کا قانون یا مسلح تصادم کا قانون بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کے نگراں ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 7 سے 12 اکتوبر کے درمیان اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں کے خلاف کیے گئے 5 حملوں کی مذمت کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ان حملوں کو جنگی جرائم تصور کیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اسرائیل کے جنگی جرائم میں صرف غزہ پر ہونے والے مظالم میں حالیہ اضافہ نہیں ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ مذکورہ 5کیسز بمشکل اس ہولناکی کا احاطہ اور اس کے تباہ کن اثرات کی عکاسی کرتے ہیں جو اسرائیل کی فضائی بمباری سے غزہ کے لوگوں پر پڑ رہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ ہم اسرائیلی افواج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ غزہ میں غیرقانونی حملے فوری طور پر بند کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ عام شہریوں اور ان کی زیرملکیت اشیا کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔ انسانی حقوق کے آزاد گروہوں کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے جنگی جرائم کی اصل تعداد کا بہت زیادہ تخمینہ لگایا گیا ہے