اسلام آباد(ٹی این ایس) پاکستان کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد

 
0
169

پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت پر بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے 5 اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کر دیا، اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ستمبر 2024 تک مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کرائے۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کا کہنا تھا کہ بھارت نے بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا۔ ریاستی حیثیت کی بحالی، ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد یا اسی طرح کے اقدامات کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی فراہمی کے متبادل کے طور پر کام نہیں کر سکتے، یہ فیصلہ انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزی سے بین الاقوامی برادری کی توجہ نہیں ہٹا سکتا۔ 5 اگست 2019 سے جاری بھارت کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کا مقصد آبادیاتی ڈھانچے اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے مخصوص منظر نامے کو تبدیل کرنا ہے۔ بین الاقوامی قانون اور متعلقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں بالخصوص 1957 کی، 122 کی کھلم کھلا خلاف ورزی پاکستان کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس کا حتمی مقصد کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر ایک بے اختیار کمیونٹی میں تبدیل کرنا ہے۔نگران وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن اور بات چیت کا ماحول بنانے کے لیے ان اقدامات کو واپس لینا چاہیے، پاکستان جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے حصول کے لیے اپنی بھرپور سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔بھارتی سپریم کورٹ کے آج کے فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں ہے، کشمیری عوام بھارتی یکطرفہ اقدامات کو پہلے ہی مسترد کرچکے ہیں، بھارتی اقدامات عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں، بھارتی اقدامات کشمیریوں کی نسل کشی اور ان کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ہم جلد ہی تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس بلائیں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے، جموں و کشمیر عالمی سطح پر ایک تنازع ہے، جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرادادیں موجود ہیں، بھارت کو کسی قسم کے یکطرفہ اقدامات کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔اس معاملے پر سیکیورٹی کونسل، او آئی سی اور یورپی پارلیمنٹ کو خطوط لکھیں گے، پاکستان یہ معاملہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے سامنے اٹھائے گا، پاکستان بھارت کے یکطرفہ اقدامات پہلے ہی دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے، اقوام متحدہ، یورپی یونین اور او آئی سی سمیت تمام عالمی فورمز 5 اگست کے بھارتی اقدامات سے آگاہ ہیں۔ مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب مسئلہ ہے، اس کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنا ہوگا، پاکستان بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہر آپشن زیر غور لائے گا۔نگران وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا فیصلہ بھی جانبداری سے دیا اور کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہے، بھارتی عدلیہ بدقسمتی سے اندھی ہوچکی ہے، 5 اگست 2019 سے آج تک کشمیری عوام پابندیوں کا شکار ہیں، کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، کشمیر میں ظلم و بربریت کی ایک نئی داستان قائم کی گئی، بھارت نے مبصر مشن کو بھی مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی۔ بھارتی قانونی ماہرین بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں میں تضادات کی نشاندہی کر رہے ہیں، بھارت کا کشمیر پر کیس بہت کمزور ہے، بھارت نے مختلف ممالک میں دہشت گردی اور قتل کا جو جال بنایا اس سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔پاکستان کی کوشش ہے کہ لائن آف کنٹرول پر امن رہے، گزشتہ دو تین سال سے لائن آف کنٹرول پر امن ہے، امن نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کےلیے اہم ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ سے اپنی ہی قراردادوں پر عملدرآمد کروانے کا مطالبہ کرتا ہے۔2018 میں اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق نے جو رپورٹ دی تھی اس میں انہوں نے واضح طور پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ ایک کمیشن آف انکوائری بننا چاہیے تاکہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تعین کیا جاسکے، لیکن اس رپورٹ پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔اس وقت پاکستان کے بھارت سے کوئی مذاکرات نہیں چل رہے، کشمیریوں کو احساس ہے پاکستان ان کے مؤقف کے ساتھ کھڑا ہے۔ یاد رہے کہ واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے 5 اگست 2019 کے متنازع فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد دیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ستمبر 2024 تک مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کرائے۔بھارتی سپریم کورٹ نے ستمبر میں وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی جانب سے 2019 میں ختم کی گئی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔درخواست گزاروں نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے منسوخی ایکٹ کو چیلنج کیا تھا، بھارتی میڈیا کے مطابق بھارتی حکومت نے 4 سال تک اس معاملے کو دانستہ طور پر لٹکائے رکھا۔ سنائے گئے فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، آرٹیکل 370 عارضی اقدام ہے، ہر فیصلہ قانونی دائرے میں نہیں آتا، بھارتی صدر کے پاس آرڈر دینے کے اختیارات ہیں۔اعلیٰ عدلیہ نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے میں 30 ستمبر 2024 تک انتخابات کرائے جائیں۔خیال رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے رواں سال ستمبر میں وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی جانب سے 2019 میں ختم کی گئی مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خلاف دائر درخواستوں پر ستمبر میں سماعت مکمل کرلی تھی۔بھارتی چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد، جسٹس سجنے کشان کول، جسٹس سجنیو کھنہ، جسٹس بی آر گیوائی اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کے چیف جسٹس دھنانجیا یشونت چندراچد اب جلد ہی ریٹائر ہوجائیں گے اور اگر فیصلے کی توثیق پارلیمنٹ سے نہیں ہوئی تو پھر اس کا دوبارہ جائزہ نہیں لے پائیں گے کیونکہ آئینی تبدیلی کے لیے پارلیمنٹ کی توثیق درکار ہوتی ہے۔ نئی دہلی میں سپریم کورٹ نے حکومتی وکلا، بھارت کے حامی مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے آئینی ماہرین اور دیگر فریقین سے 16 سے زائد دنوں تک دلائل سنے تھے۔یاد رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی نے مقبوضہ کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دلانے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، جس کے تحت بھارت کے دیگر شہروں کے لوگوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیدادیں حاصل کرنے اور مستقبل رہائش کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔

 

     
آرٹیکل 370 کے باعث بھارت کی پارلیمنٹ کے پاس دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے علاوہ ریاست میں قوانین نافذ کرنے کے محدود اختیارات تھے۔ بی جے پی کے اس فیصلے کو کشمیری عوام، عالمی تنظیموں اور ہندو قوم پرست حکمران جماعت کے ناقدین نے مسلم اکثریتی خطے کو ہندو آبادکاروں کے ذریعے شناخت تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ میں 20 سے زائد درخواستیں دائر کردی گئی تھیں، جس میں بھارتی حکومت کی جانب سے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے کیے گئے فیصلے کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھایا تھا۔درخواست گزار نے عدالت میں دائر درخواست میں دعویٰ کیا تھا کہ آئینی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارت نے کئی دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں 5 لاکھ سے زائد فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر ماضی میں جنگیں بھی ہوئی ہیں اور 1989 سے ہزاروں افراد بھارت سے آزادی کے لیے جان کی بازی لگا چکے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کے عوام کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے 2019 کے بعد میڈیا کی آزادی اور احتجاج پر پابندی عائد کرتے ہوئے شہریوں کے بنیادی حقوق پر بدترین پابندیاں نافذ کردی ہیں۔۔گزشتہ ہفتے بھی بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی صحافت سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک برس طویل تحقیقات پر اعتراض کرتے ہوئے قانونی کارروائی کی دھمکی دی تھی ۔ پولیس نے نیوز رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا تھاجس کا عنوان ’کوئی بھی خبر آپ کی آخری خبر ہوسکتی ہے—کشمیر پریس پر انڈیا کا کریک ڈاؤن‘ ہے، اس رپورٹ میں میڈیا کو دھمکانے اور خاموش کرانے کی ایک مذموم اور منظم مہم کی تفصیل بیان کی گئی, رپورٹ میں کشمیری صحافی آصف سلطان، فہد شاہ، سجاد گل اور عرفان معراج سمیت دیگر کی نظربندی اور ان پر مقدمہ چلانے کے پیچھے کی کہانی بیان کی گئی,جن صحافیوں سے بات کی ان میں سے 90 فیصد سے زائد صحافیوں نے بتایا کہ انہیں پولیس کم از کم ایک بار طلب کر چکی ہے، ان میں سے اکثر کو ایک خبر پر متعدد بار طلب کیا جا چکا ہے۔کشمیر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ بھارتی حکومت نہ صرف علیحدگی پسند تحریکوں اور عسکریت پسند گروہوں سے متعلق رپورٹنگ کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے بلکہ سیکیورٹی فورسز یا انتظامیہ کے حوالے سے کوئی بھی تنقیدی کوریج، حتیٰ کہ روزمرہ کے شہری مسائل پر رپورٹنگ بھی بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔خیال رہے کہ خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا۔

مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے وادی جموں و کشمیر کو لداخ سے الگ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے، لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے گا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں کانسٹی ٹیوشن (ایپلی کیشن ٹو جموں و کشمیر) آرڈر 2019 کا خصوصی آرٹیکل نافذ کردیا گیا ہے ، جس کے تحت اب بھارتی حکومت مقبوضہ وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارتی قوانین کا نفاذ بھی کرسکے گی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی حکومت، مقبوضہ کشمیر میں مزید 8 ہزار فوجی بھیج رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی فوجیوں کو فضائی راستے سے مقبوضہ کشمیر بھیجا جا رہا ہے۔بھارتی حکومت گزشتہ ہفتے 35 ہزار اضافی فوجی مقبوضہ وادی بھیج چکی ہے۔جموں و کشمیر کی قیادت کی جانب سے 1947 میں دو قومی نظریے کو رد کرنا اور بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آج غلط ثابت ہوا، بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے جس سے بھارت، جموں و کشمیر میں قابض قوت بن جائے گا’اس اقدام کے برصغیر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، بھارتی حکومت کے ارادے واضح ہیں، وہ جموں و کشمیر کے علاقے کو یہاں کی عوام کو خوفزدہ کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ بھارت، کشمیر کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو چکا ہے’۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔ خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 ‘اے’ اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔ 1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 ‘اے’ آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔ آرٹیکل 35 ‘اے’ کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ آئین کے آرٹیکل 35 ‘اے’ کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔