اسلام آباد(ٹی این ایس)برصغیر پاک و ہند میں اسلامی بینکاری

 
0
87

برصغیر پاک و ہند میں اسلامی بینکاری کا تاریخی پس منظرموجود ہے۔اسلام انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں رہنمائی کرتا ہے اور اپنے متبعین کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا یقین دلاتا ہے۔.مسلمان تاجر تجارت کی غرض سے برصغیر پاک و ہند کے ساحلی علاقوں کا رُخ کرتے تھے اور جب اسلامی سلطنت کی حدود ایران تک پہنچیں تو وہاں سے لامحالہ ان کا رابطہ ہندوستان کے لوگوں اور ان کی ثقافت سے بھی ہوا۔برصغیر پاک و ہند میں بتدریج مسلمان فتح کے دوران ہوا ، جس کا آغاز بنیادی طور پر فتح محمد بن قاسم کی زیرقیادت فتح سندھ اور ملتان کے بعد ہوا تھا۔ محمود غزنوی کا حملہ برصغیر پاک و ہند میں مسلمان تاریخ کے ابتدائی نقوش میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ محمود غزنوی سے بہت پہلے ہی مسلمانوں کا برصغیر کے علاقوں کے ساتھ ایک تعلق بن چکا تھا۔ ان میں معروف نام کے طور پر ہم محمد بن قاسم کو جانتے ہیں جس نے سندھ پر سنہ 712 میں حملہ کیا اور اسی وجہ سے سندھ کو ’باب الاسلام‘ بھی کہا جاتا ہے۔محمود غزنوی کے علاوہ شہاب الدین غوری ایک اوراہم نام ہے جس نے دہلی میں مسلمان حکومت کی مرکزیت کو مستحکم کیا جس کے بعد مسلمان سلاطین کا ایک سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں شروع ہوا۔قاضی اطہر مبارک پوری نے اپنی متعدد کتابوں میں اس تاریخ کا ذکر کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق عرب اور ہندوستان کے درمیان تعلقات عہد رسالت میں ہی قائم ہو گئے تھے۔ آنے والے ادوار میں، خاص طور پر اموی دورِ حکومت میں، ان سیاسی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوا۔سیاسی اور تجارتی تاریخ کے علاوہ ایک ’اساطیری تاریخ‘ کا حوالہ دینا بھی ضروری ہے۔ جہاں مسلمان بطور ایک سیاسی یا حملہ آور گروہ کے ہندوستان میں داخل ہوئے وہیں پر ایک متبادل تاریخی بیانیہ بھی موجود ہے جس کے مطابق مسلمانوں کا اس سرزمین کے ساتھ رشتہ انتہائی گہرا ہے۔اس کی ایک مثال حسینی براہمن کی کہانی کے ذریعے سے دی جا سکتی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ کربلا کے میدان میں جب امام حسین اپنے ساتھیوں کے ساتھ یزیدی فوجوں کے ساتھ لڑ رہے تھے اور جب اس واقعے کی اطلاع کسی طرح سے ہندوستان میں پہنچی تھی تو یہاں سے برہمنوں کا ایک گروہ امام حسین کی تائید و نصرت کے لیے کربلا پہنچا تھا۔ اس گروہ سے وابستہ لوگ خود کو حسینی براہمن کہتے ہیں اور اس شناخت کے حامل لوگ آج بھی ہندوستان میں موجود ہیں۔ اس کی مثال بالی وڈ اداکار سنیل دت اور سنجے دت کا خاندان ہے۔ دت خاندان خود کو حسینی براہمن کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ہندوستان کے ساتھ مسلمانوں کا قدیمی رشتہ ثابت کرنے کے لیے مولانا حسین احمد مدنی، جو ایک کانگریسی رہنما تھے اور جمعیت علمائے ہند کے سربراہ تھے، نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ چونکہ آدم اور حوا کو جنت سے نکالے جانے کے بعد زمین پر اتارا گیا تو ان کا ملاپ لنکا کے علاقے میں ہوا۔ اس بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کو آباد کرنے والے آدم اور حوا تھے جو اسلامی عقیدے کے مطابق مسلمان تھے۔ ہند مسلم تاریخ میں سومنات پر حملہ ایک اہم واقعہ ہے لیکن محض اس کی بنیاد پر ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی اور مذہبی کردار پر فیصلہ کن رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔سومنات پر حملے کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے کئی ماخذ کا جاننا اور ان کی تشریح کے لیے اس دور کے معروضی حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔کہا جاتا ہے کہ سلطان غزنوی کا مقصد مندروں پر حملہ کرنا اسلئے ہوتا تھا کیونکہ ہندوستان میں ھندو اپنا سب کچھ مندر میں رکھتے تھے اور مندر بطور بینک استعمال کئے جاتے تھےبی بی سی نیوز، دہلی 4 جولائی 2016 شلپا کنّن کی رپورٹ کے مطابق وسطی ریاست آندھرا پردیش کا تروملا تروپتی مندر ملک کا سب سے امیر مندر ہے جس کے پاس سات ٹن سونا ہے اور عقیدت مند روزانہ یہاں سونا نذرانے میں پیش کرتے ہیں۔ عقیدت مند مندر کی دان پیٹیوں (عطیہ والے صندوقوں) میں اربوں ڈالر کی نقد رقم اور زیورات ڈالتے ہیں جس میں سونا بطور خاص ہوتا ہے۔ تروپتی ایسا پہلا مندر ہے جس نے حکومت کی منصوبہ بندی میں شراکت داری کی ہے۔ حکومت کو دیے جانے والے سونے پر مندر کو سود کی شکل میں آمدنی ہوتی ہے۔ مندر کے ٹرسٹ تروملا تروپتی دیوستھانم نے پنجاب نیشنل بینک میں تقریباً 1.3 ٹن سونا جمع کیا ہے۔ سٹیٹ بینک میں سرمایہ کاری کے لیے ایک ٹن سونے کو بھی ٹرسٹ اسی مقصد سے منتقل کر رہا ہے۔مندر ٹرسٹ نے تقریباً ڈیڑھ ٹن سونا انڈین اوورسيز بینک میں بھی رکھا ہے۔ مندر کے حکام کے مطابق گولڈ ڈپازٹ سکیم (جي ڈي ایس) کے تحت ساڑھے چار ٹن سونا جمع ہے جس سے سود کے طور پر مندر کو ہر سال 80 کلو سونے کی کمائی ہوتی ہے۔ ممبئی کے شري سدھی ونايك مندر ٹرسٹ نے بھی کہا ہے کہ وہ تقریباً 45 کلو سونا اس منصوبے کے تحت جمع کرے گا۔ بہت سے دوسرے مندر بھی اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔جی ایم ایس کے تحت ریزرو بینک کسی بھی شخص کو سونے کے بار یا زیورات بینک میں جمع کرانے اور اس سے سود کمانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس منصوبہ کے تحت شخصیت، ٹرسٹ اور میوچوئل فنڈز بینکوں میں سونا جمع کرا سکتے ہیں۔ اس سکیم کا فائدہ اٹھانے کے لیے کم از کم 30 گرام سونا جمع کرنا ہوتا ہے۔ بینکوں میں جمع سونے کا سود سونے کے طور پر بھی وصول کیا جا سکتا ہے۔جمع کیے جانے والے سونے کو بینک مختصر مدت ڈپازٹ سکیم کے تحت ایم ایم ٹی سی (میٹل اینڈ منرل ٹریڈنگ کارپوریشن آف انڈیا) کو سونے کے سکے ڈھالنے کے لیے فروخت کر سکتا ہے یا قرض دے سکتا ہے۔ بینک ڈپازٹ سونے کو سناروں کو بھی، سرمایہ کار کو دیے جانے والے سود کی شرح سے قدرے زیادہ شرح پر، قرضے دے سکتا ہے۔ بینک میں زیور، سکے یا بار کے طور پر سونا جمع کیا جا سکتا ہے۔ اس سونے پر وزن کی بنیاد پر سود دیا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ سونے کی قیمت میں اضافے کا فائدہ بھی سرمایہ کار کو ملتا ہے۔بینک ایک سے تین سال کی مختصر مدت کے لیے، پانچ سے سات سال کی درمیانی مدت اور 12 سے 15 سال کی طویل مدت کے لیے سونے کو قبول کر سکتے ہیں۔ مختصر مدت کے لیے بینک سونا اپنے اکاؤنٹ میں جمع کر سکتے ہیں، لیکن وسط مدت اور طویل مدت کے لیے بینک حکومت کی جانب سے سونے کی سرمایہ کاری کی پیشکش قبول کر سکتے ہیں۔سونے کے سرمایہ کار کو لوٹائے جانے والے اصل اور سود کی قیمت سونے میں ہی لگائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص 100 گرام سونا جمع کرتا ہے اور اسے ایک فیصد کی شرح سے سود ملتا ہے تو مدت پوری ہونے پر 101 گرام سونا اس کے اکاؤنٹ میں آ جائے گا۔ سونے سے ہونے والی آمدنی کیپٹل گین ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس اور انکم ٹیکس سے آزاد ہوتی ہے۔ جمع سونے کی قیمت میں ہونے والے اضافے اور ملنے والے سود پر بھی کیپٹل گین ٹیکس نہیں لگتا ہے۔اس ضمن میں سب سے معتبر اور اہم نام رمیلا تھاپر کا ہے ان کی تحقیق کے مطابق سومنات کا مندر غالباً دسویں صدی میں چولکھیا شاہی خاندان کے مل راجا نے تعمیر کروایا۔ یہ مندر ایک ساحلی علاقے کے نزدیک واقعہ تھا جہاں کی مقامی آبادی زیادہ تر جین مت کے ماننے والوں پر مشتمل تھی۔چونکہ ان کا ذریعہ معاش تجارت تھا اور اس دور میں مغربی ایشیا تک مسلمانوں کی حکومت کے نتیجے میں بحرِ ہند کے ذریعے تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا تھا، اس لیے مندر کے پیروکار مالدار تھے اور اس کی شان و شوکت پر کثیر رقم صرف کرتے تھے۔ یوں سومنات کا مندر ایک امیر مندر کے طور پر مشہور تھا۔یہ بات نوٹ کی جانی چاہیے۔ 4 فروری 2011 کو شائع ہونے والی بی بی سی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جنوبی ریاست کیرلا کی ہائی کورٹ نے ریاست میں ملک کےسب سے پہلا اسلامی بینک کھولنے کی اجازت دی۔بھارتی ریاست کےصنعتی ترقی کے کارپوریشن نے پہلا اسلامی بینک کھولنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی بعض تنظیموں نے مخالفت کی تھی۔
یاد ر ہےکہ بھارت میں اسلامک بینکنگ کے قیام کی باتیں ہوتی رہی تھیں لیکن ایسا ہو نہیں پایا ۔ کیرالا کی حکومت کے اس فیصلے پر عمل ہوا جو ملک کا پہلا اسلامی بینک ہے۔
کیرلا کی ہائی کورٹ میں کارپوریشن کے فیصلے کی مخالفت میں مفاد عامہ کی دو درخواستیں داخل کی گئی تھیں جس پر سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے اس کی اجازت دی تھی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ درخواست گذار یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ آخر ریاستی حکومت کے اس فیصلے سے کس طرح ایک خاص مذہب کو بڑھاوا ملے گا۔بھارتی جنتا پارٹی کے ایک رہنماء سبرامنیم سوامی اور ایک ہندو تنظیم نے ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت کسی خاص مذہب کے معیار پر کام نہیں کر سکتی۔پہلا اسلامی بینک عام بینکوں کی طرح کام کرنے کے بجائے ایک فنانشل انسٹی ٹیوٹ کی طرح کام کررہا ہے۔ حکومت کا کہنا تھا کہ یہ بینک ایک طرح کی تجارتی تنظیم ہوگی۔ ’البراق فنانشل سروسز‘ نامی تنظیم اس بینک کا نظم و نسق چلارہی ہے۔ تنظیم کا کہنا تھا کہ بینک بھارت کے معاشی قوانین کے مطابق ہے اور شرعی اصولوں کے مطابق کام کرے گا۔یاد ر ہےکہ بھارت میں بہت سے مسلمان سود خوری سے بچنے کے لیے عام بینکوں کے ساتھ لین دین نہیں کرتے اس لیے اربوں روپے کی دولت حکومت کے کھاتوں سے الگ رہتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے حکومت نے بھی اسلامک بینک کے قیام کے اشارے دیے تھے لیکن اس سلسلے میں ملک گیر سطح پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو پائی تھی.
یاد ر ہےکہ مصنف : ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی کی کتاب برصغیر ہند میں علوم فقہ اسلامی کا ارتقاء کے مطابق اسلامک علوم میں فقہ اسلامی کوخصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ فقہ کاتعلق ایک طرف کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ سے جو جو تمام احکام شرعیہ کاماخذ ہیں۔ جس نے زندہ مسائل کے استدلال، استنباط اور اجتہاد میں قرآن وسنت کواپنایا اور شرعی احکام کی تشریح وتعبیر میں ان دونوں کو ہی ہر حال میں ترجیح دی۔ یہ تعلیمات اللہ تعالیٰ کا ایسا عطیہ ہیں جو اپنے لطف وکرم سے کسی بھی بندے کو خیر کثیر کے طور پر عطا کردیتا ہے۔ اور فقہ اسلامی اس علم کا نام ہے جو کتاب وسنت سے سچی وابستگی کے بعد تقرب الٰہی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے ۔ فقہ اسلامی مختلف شبہ ہائے زندگی کے مباحث پر مشتمل ہے اس کے فہم کے بعض نابغۂ روزگار متخصصین ایسےبھی ہیں جن کے علم وفضل اوراجتہادات سےایک دنیا مستفید ہوئی اور ہورہی ہے ۔ہندوستان میں جب اسلامی علوم کی کرنیں طلوع ہونے لگیں تو شروع میں علم حدیث پرزیادہ توجہ دی گئی خاص کر سندھ اور گجرات کے علاقہ میں لیکن اس کے بعد اہل فقہ اہل علم کی توجہ کا مرکز بن گیا اور فتاوی تاتارخانیہ، فتاوی ہندیہ ، قضا کے موضوع پر صنوان القضاءاوراصول فقہ میں مسلم الثبوت اور اس کی شرح فواتح الرحموت، نورالانوار جیسی اہم تالیفات منظر عام آئیں جس میں بعض کو فقہ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاسکتا ہے ۔بر صغیر کے علماء میں فقہ سے تعلق رکھنے والی شخصیتوں کی کثرت کاجناب محمد اسحاق بھٹی ﷫ کی کتاب ’فقہاء ہند‘ کی کئی جلدوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتا ب’’برصغیر ہند میں علوم فقہ اسلامی کاارتقاء‘‘ ڈاکٹر ضیاء الدین فلاحی کی تصنیف ہے جوکہ دار اصل انگریزی زبان میں ایم فل کا مقالہ ہے جسے خود مصنف نے اردو قالب میں ڈھالا ہے ۔ یہ کتاب ایک مقدمہ اور چھ ابواب پر مشتمل ہے فاضل مصنف نے فقہ اسلامی کی حقیقت اوراس کے ارتقاء پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنی اس کاوش کا تعارف کرایا ہے باب اول میں برصغیر میں فقہ اسلامی کے ارتقاء پر گفتگو کرتے ہوئے 1857ء سے قبل کی فقہی خدمات کا سرسری جائزہ لیاکیا ہے۔ نیز 1857ء کےبعد اس میدان میں ہونے والی غیر معمولی علمی ترقی کی طرف اجمالی طور اشارہ کیا ہے۔دوسرے باب میں عربی ، فارسی اورانگریزی زبان کے فقہی لٹریچر کے اردوترجمہ کا ذکرکیاہے۔تیسرے باب میں اردو میں تالیف شدہ کتب فقہ کی فہرست پیش کی ہے۔چوتھے باب میں ہندوستان کے فقہی مدارس و مکاتب پر روشنی ڈالی گئی ہےاس میں ان درسگاہوں کا بھی ذکر ہے جن کی فقہ اسلامی پر خصوصی توجہ رہی ہے اس باب میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی خدمات کوخاص طور پر خرج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ نیز ان اداروں کابھی ذکر کیا ہے جو مسائل کواجتماعی غور وفکر کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔پانچویں باب میں چند اہم فقہی کتابوں کا تعارف اور چھٹےباب میں پاکستان کی سرکاری جامعات اور بعض حکومتی اور پرائیوٹ اداروں کی خدمات کا تعارف ہےبحیثیت مجموعی یہ کتاب برصغیر ہندو پاک کی فقہی خدمات پر ایک عمدہ کاوش ہے ۔ یادر ہے کہ مصنف ابراہیم بن عبد المقتدر کی کتاب” 100 حرام کاروبار اور تجارتی معاملات ”ناشرمکتبہ بیت السلام الریاض کے مطابق ہرمسلمان کے لیے اپنے دنیوی واخروی تمام معاملات میں شرعی احکام اور دینی تعلیمات کی پابندی از بس ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :َیا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ(سورۃ البقرۃ:208)’’اے اہل ایمان اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو ،یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ‘‘ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عبادات میں تو کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو او رمعاملات او رمعاشرتی مسائل میں اپنی من مانی کرے او راپنے آپ کوشرعی پابندیوں سے آزاد تصور کرے۔ ہمارے دین کی وسعت وجامعیت ہےکہ اس میں ہر طرح کے تعبدی امور اور کاروباری معاملات ومسائل کا مکمل بیان موجود ہے او ہر مسلمان بہ آسانی انہیں سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوسکتاہے ۔ زیر نظر کتاب ’’ 100 حرام کاروبار اورتجارتی معاملات‘‘ شیخ ابراہیم بن عبد المقتدر﷾ کی عربی کتاب ’’تحذیر الکرام من مائۃ باب من ابواب الحرام‘‘ کا سلیس اردو ترجمہ ہے ۔اس کتاب میں تجارتی معاملات اور خرید وفروخت کے متعلق جدید مسائل کوبڑے احسن پیرائے میں درج کیا گیا ہے ۔ اور اس کتاب کی امیتازی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام شرعی مسائل اور دینی تعلیمات کو ایک ایک کہانی اور مکالمے کی شکل میں پیش کیا گیا ہے اس کےعلاوہ مصنف ڈاکٹر محمد طاہر منصوری کی کتاب ناشرادارہ تحقیقات اسلامی،اسلام آباد ”احکام بیع” کے مطابق اسلام کی نگاہ میں انسان کا مال اسی طرح محترم ومقدس ہے جس طرح اس کی جان اور عزت وآبرومقدس ہیں۔اسلام دوسروں کا مال ناجائز طریقے سےکھانے کی سختی سے ممانعت کرتا ہے اور باہمی رضا مندی سے طے پانے والے معاہدۂ خریدوفروخت کو حصولِ مال کا ایک جائز وسیلہ قرار دیتا ہے۔قرآن وسنت سےمستنبط فقہ اسلامی کے ذخیرے میں جائز وناجائز مالی معاملات پر تفصیلی گفتگو ملتی ہے ۔ فقہائے کرام نے کسب مال کے جو جائز ذرائع بیان کیے ہیں ، ان میں معاہدۂ بیع وشراء ،ہبہ ،وصیت اور وراثت وغیرہ شامل ہیں۔ زیر نظر کتاب’’ احکام بیع ‘‘ جناب طاہر منصور ی صاحب کی کاوش ہے ۔اس کتاب میں انہو ں نے بیع سے متعلق اہم احکام فقہائے کرام کے اقوال کی روشنی میں بیان کیے ہیں ۔مصنف نے کتاب کا مواد فقہ کی بنیادی اورمستند کتابوں سے لیا ہے۔ عربی اقتباسات کواردو میں منتقل کرتے ہوئےکوش کی گئی ہے کہ ترجمہ کی زبان رواں، سادہ، سہل او رعام فہم ہو اور اس کے ساتھ ہی مختلف مسائل پر فقہاء کا نقطۂ نظر ممکنہ صحت واحتیاط کے ساتھ نقل کیا جائے ۔ابواب کی ترتیب میں اسلامی قانون معاہدہ کی معاصر کتابوں کامنہج سامنے رکھا گیا ہے اورمعاہدۂ بیع کی اقسام اور اس کےارکان وشرائط ایک منطقی ترتیب کےساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نیزکتاب کے آخر میں ان تمام فقہی اصطلاحات کی تشریح کی گئی ہے جوکتاب میں استعمال ہوئی ہیں۔یہ کتاب اسلامی قانون تجارت سے دلچسپی رکھنے والے افراد کےلیے ایک مفید علمی کوشش ہےیادر ہے کہ زکوٰۃ عشر فطرانہ اور صدقات احکام سنتیں اور مسائل کےنام سےمصنف پروفیسر مفتی عروج قادری کی کتاب از ناشرمکتبہ قرآن و حدیث کراچی میں ہے کہ دینِ اسلام کا جمال وکمال یہ ہے کہ یہ ایسے ارکان واحکام پر مشتمل ہے جن کا تعلق ایک طرف خالق ِکائنات اور دوسری جانب مخلوق کےساتھ استوار کیا گیا ہے یعنی اسلام کےپانچ ارکان میں یہ ایک ایسا رکن اور فریضہ ہے جس کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ہے ۔ دین فرد کی انفرادیت کا تحفظ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کوہر حال میں قائم رکھنے کاحکم دیتاہے۔اس کے بنیادی ارکان میں کوئی ایسا رکن نہیں جس میں انفرادیت کے ساتھ اجتماعی زندگی کو فراموش کیا گیا ہو۔انہی بینادی ارکان ِخمسہ میں سے ایک اہم رکن زکوٰۃ ہے۔عربی زبان میں لفظ ’’زکاۃ‘‘ پاکیزگی ،بڑھوتری اور برکت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ شریعت میں زکاۃ ایک مخصوص مال کے مخصوص حصہ کو کہا جاتا ہے جو مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے ۔اور اسے زکاۃ اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس سے دینے والے کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور اس کا مال پاک اور بابرکت ہوجاتا ہے۔ نماز کے بعد دین اسلام کا اہم ترین حکم ادائیگی زکاۃ ہے ۔اس کی ادائیگی فر ض ہے اور دینِ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جن پر دین قائم ہے۔زکاۃ ادا کرنےکے بے شمار فوائد اور ادا نہ کرنے کے نقصانات ہیں ۔قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں تفصیل سے اس کے احکام ومسائل بیان ہوئے ۔جو شخص اس کی فرضیت سےانکار کرے وہ یقینا کافر اور واجب القتل ہے ۔یہی وجہ کہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق﷜ نے مانعین ِزکاۃ کے خلاف اعلان ِجنگ کیا۔اور جو شخص زکاۃ کی فرضیت کا تو قائل ہو لیکن اسے ادا نہ کرتا ہو اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔جس کی وضاحت سورہ توبہ کی ایت 34۔35 اور صحیح بخاری شریف کی حدیث نمبر1403 میں موجود ہے ۔ اردو عربی زبان میں زکوٰۃ کے احکام ومسائل کےحوالے سے بیسیوں کتب موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب ’’زکوٰۃ عشر،فطرہ اورصدقات‘‘ پروفیسر مفتی عروج قادری کی مرتب شدہ ہے موصوف نے اس موضوع کے متعلق 255؍ سے زائد صحیح احادیث کو مع تخریج ومکمل حوالہ جات کے ساتھ اس کتاب میں جمع کردیا ہے ۔ مرتب نے اس مجموعہ میں نہ توکوئی ضعیف حدیث پیش کی ہے اور نہ ہی اختلافی امور ۔ہر حدیث کے ساتھ راوی کا نام اور کتابوں کے حوالے بھی موجود ہیں ۔اور امت مسلمہ کی یکجہتی کی کوشش میں مرتب نے دیوبندی، بریلوی، اوراہل حدیث تینوں مکاتب فکر کے نامور اور جید مدارس اور علماء کے تصدیق نامے بھی لگا دئیے ہیں ’’سود کو برا صرف مذہب اسلام میں نہیں کہا گیا ہے بلکہ تمام مذاہب میں اس کو برا ہی تصور کیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں اس برائی کے بے پناہ مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وقت بدل چکا ہے اور پیسے کا بہاؤ غریب سے امیر طبقہ کی طرف ہو رہا ہے۔غریب اپنی رقم چھوٹی بچت اور میوچوئل فنڈ وغیرہ میں انویسٹ کرتا ہے جو سیدھے طور پر بینک میں چلا جاتا ہے اور بینک میں جمع یہ پیسہ بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے لئے کام آتا ہے ‘‘۔ 20 نومبر 2017 انڈین نیوز ویب سائٹ قومی آوازبیورو شائع شدہ میڈیا ایک رپورٹ کے مطابق پروفیسر زبیر حسن نے ملک میں سودی بینکنگ نظام کی خامیوں اور اسلامی بینکنگ نظام کی خوبیوں کو منظر عام پر لانے کے لے جماعت اسلامی ہند اسٹڈی سرکل کی جانب سے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد مذاکرہ میں اسلامی بینکنگ نظام کے مختلف پہلوؤں کو روشناس کرانے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی معیشت کے لیے اس کو بے حد اہم بھی قرار دیا گیا۔ مذاکرہ میں پروفیسر احمد خان نے کہا کہ ’’گلف ممالک ہندوستان میں اسلامی بینکنگ نظام شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ ہر ہندوستانی ذمہ دار سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں ک آپ کے ملک میں اسلامک بینکنگ نظام کب شروع ہو رہا ہے۔ گلف ممالک اپنا سرمایہ ہندوستان میں لگانا چاہتے ہیں لیکن سودی نظام کی وجہ سے وہ مجبور ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’اسلامی بینکاری موجودہ دور کی بہت اہم ضرورت ہے کیونکہ غریب و مزدور کوئی ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ان کا استحصال نہ ہو۔ ایسے ماحول میں جب کہ کسانوں کی خودکشی عام ہو گئی ہے، اسلامی بنکاری کو فراموش کرنا غلط ہوگا۔ اس سے انکار قطعی ممکن نہیں کہ ملک میں اس وقت جو بینکنگ نظام موجود ہے وہ غیر انسانی ہے۔ اگر کوئی بینکنگ نظام انسان کو مساوات کے راستے پر لے جانے کی قوت رکھتا ہے تو وہ اسلامی بینکنگ نظام ہی ہے۔‘‘

’اہمیت اور تقاضے متبادل بلا سودی معیشت‘ کے عنوان سے منعقد اس سمینار کی اہمیت اس لیے اہم ہے کیونکہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے پہلے ہی اسلامی بینکنگ نظام کو اختیار کرنے کے کسی بھی امکان سے انکار کیا ہے۔ آر ٹی آئی کے جواب میں بھی آر بی آئی نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ ’’آر بی آئی نے ملک میں شریعہ کے اصولوں پر چلنے والے بینکنگ نظام کو شروع کرنے کی تجویز پر آگے کوئی کارروائی نہیں کرنے کا فیصلہ لیا ہے۔‘‘ اس جواب میں آر بی آئی نے مزید لکھا کہ ’’سبھی لوگوں کے سامنے بینکنگ اور مالی خدمات کے یکساں مواقع پر غور کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا۔‘‘ لیکن اسلامی بنکاری کے حق میں مطالبہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یکساں مواقع کی فراہمی موجودہ بینکنگ نظام میں ممکن نہیں ہے۔ ’’اسلامی بینکنگ نظام ملک کی معیشت کو صحیح ڈگر پر لے جانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس سے نہ صرف انسانی زندگی کے سماجی و اخلاقی معیار بلند ہو سکیں گے بلکہ سماج کے اندر سے جرم، بے ایمانی، بدعنوانی اور بے اعتدالی کا خاتمہ بھی ہوگا۔‘‘ ’’ملک میں سودی نظام کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دولت سمٹ کر محض 8 فیصد لوگوں کے قبضہ میں جا چکی ہے اور انھوں نے دنیا میں اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ غریبوں و مزدوروں کا صرف استحصال ہو رہا ہے، وہ نیا کاروبار شروع کرنے یا اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے قرض لینے کی ہمت نہیں کر پاتے۔‘‘ ’قومی آواز‘ نے جب جماعت اسلامی ہند کے مشیر مالیات وقار انور سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ ’’ادارہ نے دہلی اور ہریانہ میں ایک سروے کرایا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم طبقہ کی بڑی تعداد چھوٹے یا درمیانے درجہ کے کاروبار سے منسلک ہے لیکن کاروبار کو فروغ دینے کے لیے بینک سے قرض لینا نہیں چاہتے۔ وجہ صاف ہے کہ سود کا بوجھ وہ برداشت نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ وقار انور نے بینک میں جمع پیسوں سے حاصل سود سے متعلق مسلمانوں کے رویہ پر کرائے گئے سروے کے متعلق بھی بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایسے لوگ انتہائی کم ہیں جو سود کا پیسہ فلاحی کاموں میں لگاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ انھیں سود کے بارے میں پتہ ہی نہیں یا پھر وہ لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘ بنکاری نظام سود کی بنیادوں پر قائم ہے، جہاں استحصال اور ظلم ہوتا ہے، ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ بلا سودی، عدل و قسط اور اخلاقی اقدار پر مبنی اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری کا نظام قائم ہو, ہندوستان میں اسلامی بینکنگ اور اسلامی فینانس کے کثیر مواقع اور روشن امکانات ہیں، جس سے نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ ہوگا بلکہ معیشت میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوگا معیشت ہر دور میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کی تعمیر سے پہلے ’’سوق المدینہ‘‘ قائم کرکے اس کی اہمیت ثابت فرمایا اور صحابہ کو اس پر ابھارا، عشرہ مبشرہ میں سے سب کے سب تاجر تھے، لیکن ان میں سے چار صحابہ کی بڑی بڑی تجارتیں تھیں اور وہ تمام دینی سرگرمیوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیتے تھے۔ آج معاشرہ میں مال و دولت اور معیشت و تجارت کے بارے میں غیر متوازن سوچ و فکر پائی جاتی ہے، ہم جس اہمیت کے ساتھ نماز و روزہ کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں، زکوۃ کے مسائل سے اتنی ہی ناواقفیت اور عدم دلچسپی پایا جاتا ہے،