اسلام آباد(ٹی این ایس) سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا …آہ !سلطان راہی

 
0
130

درست شین قاف کے ساتھ نستعلیق اردو بولنے والے سلطان محمد المعروف سلطان راہی 9 جنوری 1996 کو اس دنیا سے جاتے جاتے پاکستان کی پنجابی فلمی صنعت کی روح بھی اپنے ساتھ لے گئے ۔سلطان راہی 1934 کو پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کے گھرانے نے راولپنڈی میں ہی سکونت اختیار کی۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا اور سلطان راہی نے بچپن میں ہی قرآن پاک تفسیر کے ساتھ پڑھ لیا تھا تاہم سلطان راہی کو چھوٹی عمر سے ہی فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔

اسی شوق کے ہاتھوں وہ راولپنڈی سے لاہور چلے آئے اور سٹیج ڈراموں سے اپنی فنی زندگی کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا ڈرامہ ’شبنم روتی رہی‘ تھا جس میں انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔اس ڈرامے کے بعد انہیں فلموں میں ایکسٹرا کا کردار ملنا شروع ہوا۔باغی، ہیرسیال اور چند دیگر فلموں میں ایکسٹرا کا کردار ادا کرنے کے بعد انہوں نے ایم سلیم کی پنجابی فلم ’امام دین گوہاویا‘ میں ایک مختصر سا کردار ادا کیا ۔ 1971 میں ہدایت کار اقبال کاشمیری نے انہیں اپنی فلم ’بابل‘ میں ایک بدمعاش کا ثانوی سا کردار دیا جس سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا اور پھر انھوں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔1972 میں ہدایت کار اپنی فلم بشیرا میں سلطان راہی کو موقع دیا اور یہ فلم سپر ہٹ چلی ،فلم بشیرا پنجابی زبان کی ایک رجحان ساز فلم کہلاتی ہے۔

اس فلم کی کامیابی سے سلطان راہی کے لیے کامیابی کی نئی راہیں کھل گئیں، ان کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے کہانیوں کے کردار لکھے جاتے رہے اور اگلی ربع صدی تک وہ پنجابی فلموں کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔1975 میں حسن عسکری نے احمد ندیم قاسمی کے افسانے ’گنڈاسا‘ پر ایک فلم ’وحشی جٹ‘ بنانے کا اعلان کیا۔ اس فلم کے مرکزی کردار کے لیے ان کی نظر سلطان راہی پر پڑی۔ اس فلم نے پنجابی فلموں کے انداز کو مکمل طور پر بدل دیا،وحشی جٹ سے پنجابی فلموں کا انداز تبدیل ہوا جسے گنڈاسا کلچر کا نام دیا گیا۔1979 میں پاکستانی فلموں میں ایک اور انقلاب آیا جب11 فروری 1979 کو ریلیز ہونے والی فلم ’مولا جٹ‘ نے باکس آفس پر کامیابیوں کے تمام اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ دیے۔

فلم باکس آفس پر اس قدر ہٹ ہوئی کہ اس کی سینما تھیٹروں پر نمائش مسلسل ڈھائی سال تک جاری رہی۔ اس دوران ہزاروں لوگوں نے اس فلم کو دیکھنے کے لیے بار بار سینما گھروں کا رخ کیا۔پنجابی اور اردو فلموں کے معروف کہانی نویس ناصر ادیب کا کہنا ہے کہ انھوں نے پچیس سال تک صرف ایسی فلمیں لکھیں جو ایک جملے ’میں تینوں چھڈاں گا نئیں‘ کے اردگرد گھومتی تھیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطان راہی کو اپنی ہر فلم میں یہ جملہ ضرور کہنا ہوتا تھا۔ان کی چند فلمیں ایسی تھیں جن میں انھوں نے چونکا دینے والے کردار ادا کیے۔ان فلموں میں چوروں قطب، کالیا، طوفان اور مفرور کے نام سرفہرست ہیں۔ اس دوران سلطان راہی کی بہت سی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں جن میں وحشی گجر، شیر خان، سالا صاحب، چندوریام، اتھراپتر، راکا، لاوارث، شعلے، قیدی، آخری جنگ، مولا بخش، کالے چور، ماجھو، بالا پیرے دا اور سخی بادشاہ کے نام شامل ہیں۔بنیادی طور سلطان راہی ایک بہت سادہ مزاج انسان تھے۔انھوں نے ایورنیو سٹوڈیو میں ایک مسجد بھی بنوائی تھی جو اپنی نوعیت کی واحد مسجد ہے۔ وہ ایک اچھے قاری بھی تھے، جب وہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے تو ایک سماں بندھ جاتا تھا۔انھوں نے انور مقصود کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ وہ کھانا بھی زمین پر بیٹھ کر کھاتے ہیں اور سوتے بھی زمین پر ہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’مجھے زمین سے بہت زیادہ محبت ہے، میں زمین کو ہمیشہ زیادہ ترجیح دیتا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مجھے جانا اسی کے نیچے ہے۔سلطان راہی نے مجموعی طور پر 804 فلموں میں کام کیا جن میں756 فلمیں نمائش پذیر ہوئیں ان میں 538 فلمیں پنجابی زبان اور 157 فلمیں اردو زبان، 5 پشتو اور ایک سندھی فلم شامل تھیں۔ان کی 50 سے زیادہ فلمیں ڈبل ورژن تھیں ان میں سے 430 فلمیں ایسی تھیں جن کے ٹائٹل رول سلطان راہی نے ادا کیے تھے۔ ان کے قتل کے وقت ان کی 54 فلمیں زیر تکمیل تھیں۔ سلطان راہی کی ان 800 سے زیادہ فلموں میں 28 فلمیں ڈائمنڈ جوبلی، 54 فلمیں پلاٹینم جوبلی اور 156 فلمیں سلور جوبلی تھیں۔ایک زمانے میں سلطان راہی کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ 12 اگست 1981 کو ان کی پانچ فلمیں شیر خان، ملے گا ظلم دا بدلہ، اتھرا پتر، چن وریام اور سالا صاحب ایک ہی روز نمائش پذیر ہوئی تھیں جنھوں نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ 9 جنوری 1996 کو سلطان راہی اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور واپس آرہے تھے کہ گوجرانوالہ بائی پاس پر ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا اس دوران دو نقاب پوش ڈاکوؤں نے سلطان راہی کی تلاشی لینے کی کوشش کی۔سلطان راہی کی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے فائر کردیا اور گولی سلطان راہی کا جبڑا چیرتی ہوئی دماغ سے پار ہوگئی جبکہ ڈاکو فرار ہوگئے اور آج تک نہ پکڑے جا سکے۔14 جنوری 1996 کو انہیں لاہور میں شاہ شمس قادری کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کردیا گیا۔ان کے جانے کے بعد 2000کی دہائی میں پنجابی فلمی صنعت کا سورج بھی ڈوب گیا اور پھر کوئی اور نیا اداکار سلطان راہی کا روپ نہ دھار سکا ۔اصل میں سلطان راہی کا وجود پنجابی فلم انڈسٹری کی روح جیسا تھا جو چلا گیا تو وہ اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑی نہ ہوسکی ،نگار خانے ویران ہوگئے ،سینکٹروں گھروں کے چولہے ٹھنڈےپڑگئے ۔