اسلام آباد(ٹی این ایس)انتخابی نشان، ووٹر حیران، امیدوار پریشان ;الیکشن کمیشن کا امتحان

 
0
60

 دلچسپ انتخابی نشان سےووٹر حیران، امیدوار پریشان ہےجبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کی قرارداد پر 8 فروری 2024 کو ملک بھر ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے سے معذرت کرلی ہے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہو چکی اور اب اس جماعت کے امیدواران آزاد حیثیت میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ اصغر علی مبارک بھی این اے 56 راولپنڈی سے بطور آزاد امیدوار انتخابی نشان بھیڑ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ این اے 57 راولپنڈی سے عظمت علی مبارک کا انتخابی نشان ہاکی ہے
الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع کر دی ہے ہائیکورٹ کی جانب سے انتخابی نشان تبدیل ہونے کے باعث متعلقہ حلقوں میں الیکشن ملتوی ہونے کا خدشہ ہے۔ ہائی کورٹس کی جانب سے انتخابی نشان تبدیل ہونے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرصدارت الیکشن کمیشن کا اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں انتخابی نشان تبدیل کرنے کے معاملے پر ہائیکورٹس کے فیصلوں کا جائزہ لیا گیا۔ انتخابی نشان تبدیل ہوئے تو الیکشن کمیشن متعلقہ حلقوں میں الیکشن ملتوی کرسکتا ہے۔ اجلاس کو بریفنگ دی گئی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں الیکشن 2024 کے لیے بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع کر دی ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے اعلامیہ بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق ملک بھر میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کا کام گزشتہ روز سے شروع ہوچکا ہے۔اگر انتخابی نشان تبدیل ہوئے تو الیکشن کمیشن کے لیے متعلقہ حلقوں سے الیکشن کا انعقاد مشکل ہوجائے گا۔دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ریٹرننگ افسران کو امیدواروں کی درخواست پر انتخابی نشانات تبدیل کرنے سے روک دیا۔ کئی حلقوں میں مختلف امیدواروں نے پارٹی ٹکٹ ہونے کے باوجود غلط انتخابی نشان الاٹ ہونے کی درخواست ہے جبکہ بعض حلقوں میں آزاد امیدوار بوتل اور بینگن جیسے نشانات کے خلاف ہائیکورٹس میں گئے ہیں۔ تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان نے منگل کو جاری ایک حکم نامے میں ریٹرنگ افسران سے کہا ہے وہ انتخابی نشان کی تبدیلی سے گریز کریں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ ”تمام صوبائی الیکشن کمشنر، ڈی آراوز، اور آر اوز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ انتخابی نشان کی تبدیلی سے اس مرحلہ پر اجتناب کریں۔“ حکم نامے کے مطابق، ”اگر کوئی تبدیلی لازم درکار ہو تو کمیشن سے پیشگی اجازت لیں کیونکہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع ہو چکی ہے اور ہوسکتا ہے انتخابی نشان کی تبدیلی ممکن نہ ہوسکے۔“پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے گذشتہ روز کہا تھا کہ پارٹی کے کم ازکم 7 امیدواروں کو تیر کا نشان نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہ آزاد امیدوار شمار ہوں گے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابی نشانات الاٹ کر دیئے۔ یاد رہے کہ ملک میں الیکشن 2024 کی گہما گہمی جاری ہے، عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی انتخابی نشانات والی فہرست ویب سائٹ سے ہٹا دی ہے، تیرہ جنوری کو امیدواروں کو انتخابی نشانات الاٹ کیےگئے ہیںالیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں انتخابی نشانات الاٹ کر دیئے۔بیرسٹرگوہر علی خان کو ’چینک‘ کا نشان الاٹ کیا گیا جبکہ شوکت یوسفزئی کو ’ریکٹ‘ کا نشان مل گیا۔پارٹی رہنما شہریار آفریدی کو ’بوتل‘ کے نشان پر الیکشن لڑنا ہوگا، شاندانہ گلزار کو ’پیالہ‘ اور مہر بانو قریشی کو ’چمٹا‘ کا انتخابی نشان دیا گیا ہے۔ملتان سے زین قریشی کو ’جوتے‘، ڈاکٹر ریاض لانگ کو ’راکٹ‘، لاہور سے عالیہ حمزہ ملک کو ’ڈائس‘ ، بھکر سے ثناء اللہ خان مستی خیل کو ’لیٹربکس‘ کا نشان مل گیا۔پرویزالہیٰ کی اہلیہ قیصرہ الہٰی ’فریج‘ کے نشان پر الیکشن لڑیں گی، ملتان سے ہی عامر ڈوگر کو ’کلاک‘ کا انتخابی نشان مل گیا، عرفان اللہ خان نیازی کو ’گھڑیال‘ کا نشان ملا ہے۔تحریک انصاف کے امیدوار این اے 107 سے مہر ریاض فتیانہ کو کرسی، پی پی 123 آشفہ ریاض فتیانہ اور پی پی 124سے سیدہ سونیا علی رضا شاہ کو پیالہ کا نشان الاٹ کیا گیا۔این اے 122 سے تحریک انصاف کے اظہر صدیق کو ’میڈل‘ جبکہ لطیف کھوسہ کو الفابیٹ ’(K)‘ کا انتخابی نشان الاٹ مل گیا جبکہ این اے 123 سے پی ٹی آئی امیدوار افضال عظیم پاہٹ کو ’ریڈیو‘ کا نشان الاٹ کیا گیا ہےاین اے 124 سےپی ٹی آئی امیدوار سردار عظیم اللہ کو ’گھڑی‘ اور ضمیر احمد کو ’ڈولفن‘ کا نشان الاٹ کیا گیا جبکہ این اے 125 سے پی ٹی آئی امیدوار جمیل اصغر بھٹی کو ’ڈھول‘ کا نشان مل گیا۔این اے 128 سے پی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجہ کو ’ریکٹ’ کا نشان الاٹ کیا گیا جبکہ این اے 129 سے پی ٹی آئی امیدوار میاں اظہر ’کرکٹ سٹمپ‘ کے نشان پر الیکشن لڑیں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ شب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی ’بلے‘ کے انتخابی نشان سے محروم ہوگئی ,فرض کیجئے آپ پاکستان میں کسی ایسی سیاسی جماعت کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہوں، جس کا انتخابی نشان چمچہ ہو تو شاید آپ اس بات کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ آپ کی انتخابی مہم لوگوں کو تفریح کا کیسا کیسا سامان مہیا کرے گی۔اگر آپ کا نام خان ہے اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر آپ کو پلگ کا نشان الاٹ ہوا ہے تو اس بات کے امکانات کافی زیادہ ہیں کہ آپ کو اس الیکشن کے بعد پلگ خان کے نام سے ہی لکھا اور پکارا جائے۔ اسی طرح اگر کسی امیدوار کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ڈرل مشین، نیل کٹر، گدھا گاڑی یا جوتے کا انتخابی نشان مل جائے تو اس امیدوار کے ساتھ پاکستان کا جگت پسند معاشرہ اور سوشل میڈیا کیا سلوک کرے گا، اس کا اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا بقراط ہونا ضروری نہیں۔آپ کے لیے یہ بات شاید حیرت کا باعث ہو کہ امن کے بیانیے کو فروغ دینے والے پاکستان کے انتخابی نشانات میں بندوق اور ہتھوڑا بھی شامل ہے۔ انتخابی نشانات کی فہرست میں لیپ ٹاپ، موبائل فون اور موبائل چارجر جیسی جدید اشیاء بھی شامل کی گئی ہیں لیکن آڈیو کیسٹ اب بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں موجود ہے حالانکہ پاکستان میں آڈیو ٹیپ کو متروک ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں۔ شہری آبادیوں کے بہت سارے نوجوان ووٹروں نے ممکن ہے کہ کنواں کبھی دیکھا بھی نہ ہو لیکن یہ بھی انتخابی نشانات کی فہرست میں شامل ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے شکار اس ملک میں انتخابی نشانات کی فہرست میں جنریٹر، ایمرجینسی لائٹ، لالٹین، سورج اور گیس سیلنڈر بھی شامل ہیں۔ماضی میں سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا عمل بہت آسان تھا اور اس لیے بہت سے غیر سنجیدہ افراد نے اپنی نام نہاد سیاسی جماعتوں کو رجسٹرڈ کروا لیا،’’اس لیے الیکشن کمیشن کو ادھر ادھر سےانتخابی نشانات پورے کرنا پڑے۔‘‘ ان کے بقول انتخابی نشانات کی افادیت یہ بھی ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والے بہت سے ناخواندہ ووٹرز بھی ان نشانات کی مدد سے اپنی پسندیدہ جماعت کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ اصل بات یہ نہیں کہ ووٹر اپنے امیدوار کو پہچان سکے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ووٹرکو شعور اور تعلیم دی جائے تاکہ وہ سوچ سمجھ کر ملکی بہتری کے لیے اپنے ووٹ کا بہترین استعمال کر سکے۔الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ انتخابی نشانات کو مزید بہتر اور موثر بنانے اور انہیں پاکستان کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرے اور اس ضمن میں اگر ضرورت ہو تو ماہرین کی خدمات حاصل کرے۔انتخابی نشانات مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ذریعہ بھی رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام (ذوالفقار) کی مناسبت سے انتخابی نشان تلوار کا انتخاب کیا۔ ان کے جلسوں میں مقررین اس تلوار کا تعلق اسلامی تاریخ سے جوڑتے رہے اور ایک خاص فرقے میں مقبولیت کے حصول کے لیے یہ تکنیک بہت موثر ثابت ہوئی۔ اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے انتخابی نشان کتاب کو کتاب مقدس سے جوڑ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلم لیگ نون کے امیدوار شیر کے انتخابی نشان کو بہادری، دلیری اور جوانمردی کے جذبات کا استعارہ بنا کر پنجاب کے طاقت پسند عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کی نوجوان نسل میں موجود کرکٹ کے جنون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے تحریک انصاف بلے کے انتخابی نشان کے حصول کے لیےکوشاں رہی لیکن کامیاب نہ ہو سکی ,پاکستان کی انتخابی تاریخ میں انتخابی نشانات کے حصول کی کوششیں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان کشیدگی کا باعث بھی بنی رہی ۔ پاکستان تحریک انصاف دنیا میں انصاف کی علامت ترازو کو جماعت اسلامی سے ہتھیانے کی کوششیں کرتی رہی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق رہنما ناہید خان کی قیادت میں الگ ہونے والا پارٹی کا ایک حصہ تلوار اور پی ٹی آئی کی الگ ہو جانے والی رہنما عائشہ گلا لئی بلے کا نشان حاصل کرنے کے لیے ابھی تک کوشیں کرتی رہی۔بلے سے پٹائی، تیروں کی بوچھاڑ اور شیروں کی چیر پھاڑ جیسے جملوں سمیت یہ انتخابی نشان دوسروں پر تنقید اور مخالفین کی کردار کشی کے لیے بھی استعمال کئے جاتے رہےہیں۔جس طرح اچھا انتخابی نشان کامیابی کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے اسی طرح ایک برا انتخابی نشان امیدواروں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ سائیکل کے نشان پر2008 اور2013کے انتخابات میں شکست کھانے والی مسلم لیگ قاف نے سائیکل کے پنکچر ہونے کے طعنوں سے تنگ آ کر اس مرتبہ ٹریکٹر کا انتخابی نشان حاصل کیا یہ کہنا تو درست نہیں ہے کہ انتخابی نشانات کی معنویت کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن بعض اوقات مقبول قیادت اور مقبول پارٹی کے سامنے انتخابی نشانات کی اہمیت زیادہ نہیں رہتی۔ماضی میں نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے بعد عدالت نے مسلم لیگ نون کے امیدواروں کو شیر کا نشان استعمال کرنے سے بھی روک دیا تھا تو ان حالات میں بھی مسلم لیگ نون کا امیدوار بھلوال سے پک اپ کے انتخابی نشان کے ساتھ بھی جیت گیا۔ ماضی میں جب کسی سیاسی پارٹی کی مقبولیت کو کم کرنا چاہا تو اس نے اس سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے بھی محروم کرنے کی کوشش کی۔ اپنے مخالف امیدوار کے ووٹ کم کرنے کا ایک حربہ یہ بھی رہا ہے کہ اس کے خلاف ایک گمنام امیدوار اس کے انتخابی نشان سے ملتے جلتے انتخابی نشان کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا رہا ہے، جیسے بے نظیر دور میں کئی امیدواروں کو پینسل کا انتخابی نشان دیا گیا جو کہ تیر سے ملتا جلتا تھا، اسی طرح مسلم لیگ نون کے بعض سادہ لوح ووٹرز بھی بلی اور گائے کو شیر سمجھ کر اس پر ٹھپے لگاتے رہے۔انتخابی نشانات کو بعض اوقات مذموم سیاسی مقاصد کے لی بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مستقبل کی حکومت سازی پر اثر انداز ہونے کے خواہاں طاقتور حلقے بھی پاکستان بھر میں الیکشن لڑنے والے آزاد امیدواروں کو ایک ہی انتخابی نشان پر الیکشن لڑواتے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے انتظار کے باعث الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے وقت میں 6 بار توسیع کی گئی۔ انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کے وقت میں پہلی توسیع شام 7 بجے تک کیلئے کی گئی، جس کے بعد دوسری توسیع میں مقررہ وقت کا دورانیہ مزید دو گھنٹے بڑھا کر آخری وقت 9 بجے تک مقرر کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے تیسری توسیع ساڑھے 10 بجے تک کیلئے کی گئی اور چوتھی توسیع میں مزید آدھا گھنٹا بڑھا کر انتخابات کے نشانات کی الاٹمنٹ کیلئے آخری وقت رات 11 بجے تک مقرر کیا گیا۔پانچویں مرتبہ کی گئی توسیع میں ایک بار پھر آدھے گھنٹے کا اضافہ کرتے ہوئے آخری وقت ساڑھے 11 بجے تک مقرر کیا گیا اور چھٹی مرتبہ توسیع رات 12 بجے تک کیلئے کی گئی۔ خیال رہے کہ 13 جنوری کو انتخابی نشانات کی الاٹمنٹ کا آخری وقت شام 4 بجے تک مقرر تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلے کے انتخابی نشان سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی سے بلا واپس لینے کا فیصلہ سنا دیا۔ سپریم کورٹ میں دوسرے روز سماعت شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی جس کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا جو کہ شب 11 بجے کے بعد سنایا گیا۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تھی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں، فیصلہ متفقہ طور پر سنایا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی مختلف الزامات کا سلسلہ تو گذشتہ کئی ماہ سے جاری تھا مگر اب انتخابی نشان کے عدم موجودگی میں الیکشن لڑنے کے معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جس کا اظہار اس جماعت کے سوشل میڈیا صفحات کی فیڈ کو دیکھ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہونے جا رہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو اپنے معروف انتخابی نشان کے بغیر عام انتخابات میں اُترنا پڑ رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف تحریک انصاف کے اُن رہنماؤں کو انتخابی نشانات الاٹ کیے جا چکے ہیں جو آئندہ عام انتخابات میں اس جماعت کی نمائندگی کے دعویدار ہوں گے۔ بلے کے انتخابی نشان پرگذشتہ کئی میدان میں اُترنے والے تحریک انصاف کے کسی رہنما کے حصے میں ’بینگن‘ کا انتخابی نشان آیا تو کسی کے حصے میں ’ڈھول‘، کسی کو ’وائلن‘ ملا تو کسی کو ’چارپائی‘۔ جبکہ ’بینگن‘، ’انسانی آنکھ‘، ’دروازہ‘، ’گھڑیال‘، ’ہوائی جہاز‘، ’درانتی‘، ’بینچ‘، ’بھیڑ‘ سمیت بہت سے انتخابی نشان اس وقت الیکشن مہم کا حصہ ہیں اور تحریک انصاف کے جن رہنماؤں کو یہ نشانات الاٹ ہوئے وہ اس کی تشہر میں مصروف ہیں۔ اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے ووٹرز کو کہا ہے کہ ’اب بلا رہا نہیں۔ اب تیر پر مہر لگائیں کیونکہ اب مقابلہ تیر اور شیر کے درمیان ہے۔‘ مختلف حلقوں میں تحریک انصاف کے حامی ایسے بھی امیدوار ہیں جو آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں مگر وہ تحریک انصاف کی حمایت کا بھی دعویٰ کر رہے ہیں۔ ایسے میں مشکل یہ ہے کہ اب ایک عام ووٹر یہ کیسے پہچان کر سکے گا کہ اس کے حلقے سے پی ٹی آئی کی حمایت کا دعویدار اصل امیدوار کون سا ہے؟ تحریک انصاف نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی سوشل میڈیا ٹیم نے اپنے امیدواروں کی پہچان یقینی بنانے کی خاطر ایک ویب سائٹ بنائی ہے، جہاں پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کی فہرست بمع الاٹ شدہ انتخابی نشان دستیاب ہو گی۔ اس ویب سائٹ سے کوئی بھی ووٹر بآسانی یہ اندازہ لگا سکے گا کہ اس کے حلقے سے پی ٹی آئی کا کون سا امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔ کچھ نشستوں پر ابھی امیدواروں کا حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور جیسے ہی پارٹی قیادت کی طرف سے ان ناموں کی حتمی منظوری دی جائے گی تو اُن امیدواروں کے نام بھی فہرست میں شامل کر لیے جائیں گے اور تفصیلات مکمل ہونے کے بعد اس ویب سائیٹ کو لائیو کر دیا جائے گا۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لینے سے اس وقت ایک ہی حلقے میں مختلف آزاد امیدوار یہ دعوے کر رہے ہیں کہ انھیں تحریک انصاف کی حمایت بھی حاصل ہے۔ نئی ویب سائٹ کی مدد سے پی ٹی آئی ووٹرز باآسانی جان پائیں گے کہ انھیں الیکشن کے روز کس انتخابی نشان پر مہر لگانی ہے۔ اس ویب سائٹ تک رسائی اتنی آسان ہے کہ کوئی بھی اپنے موبائل سے اپنے حلقے کا نمبر درج کر کے اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار اور اس کے انتخابی نشان کے بارے میں معلومات حاصل کر پائے گا۔ اس وقت پاکستان میں ووٹرز کی بڑی تعداد سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی ہے اور پی ٹی آئی سے متعلقہ پلیٹ فارمز سے وہ اپنے امیدواروں کی شناخت کے قابل ہوں گے۔ دریں اثنا تحریک انصاف نے یہ واضح بھی کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی حتمی لسٹ وہی ہے جو اس کی آفیشل ویب سائٹ پر دستیاب ہے اور اسی ویب سائٹ پر جلد ہی امیدواروں کو ملنے والے انتخابی نشان بھی باقاعدگی سے پوسٹ کیے جائیں گے۔
یہ بھی یاد رہے کہ لاہور ھائی کورٹ لاہور فل بینچ میں آراو الیکشن کمیشن آئینی درخواست کےذریعے وکلاء مس طاہرہ بانو مبارک ایڈوکیٹ, مس عظمی مبارک ایڈوکیٹ, عظمت علی مبارک ایڈوکیٹ ھائی کورٹ اور اصغر علی مبارک ایڈوکیٹ ھائی کورٹ پر مشتمل قانونی ٹیم نے دلائل کے دوران استدعا کی کہ حلقہ بندیوں کے بعد پاکستان کے عوام کنفیوژن کا شکارہیں اور کاغذات نامزدگی مسترد کی بڑی وجہ بھی یہی ھے لہذا شفاف آزادانہ منصفانہ انتخابات کیلئے عوامی سہولت اور آئینی حق کے تحت الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جائے کہ اسے اپڈیٹ کیا جائے جس پر الیکشن کمیشن نے 8300 پر ایس ایم ایس ووٹ تصدیقی سروس کو اپڈیٹ کردیاھے پوسٹل بیلٹ پیپرز کی سہولت حاصل کرنے والے لاکھوں ووٹرز اپنے حلقوں کی تصدیق کرسکتے ہیں,واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کےفل بینچ میں خاتون امیدوار شاہدہ پروین نے پنڈی بینچ کافیصلہ چیلنج کیا تھاخاتون امیدوار کے راولپنڈی سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف فیصلہ چیلنج کیا گیا تھاالیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ کی قرارداد پر 8 فروری 2024 کو ملک بھر ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے سے معذرت کرلی ہے ۔
الیکشن کمیشن حکام نے سینٹ سیکریٹریٹ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قرارداد کا اجلاس میں جائزہ لیا اور اس پر غور و خوض کیا گیا۔سینٹ سیکریٹریٹ کو لکھے گئے اپنے خط میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ ماضی میں بھی عام انتخابات اور بلدیاتی انتخابات موسم سرما میں ہوتے رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کے بعد پولنگ کے لیے 8 فروری کی تاریخ مقرر کی تھی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن نے تمام تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں، الیکشن کمیشن آٹھ فروری کو انتخابات کے لیے سپریم کورٹ میں بھی یقین دہانی کروا چکا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے خط میں کہا کہ اس مرحلے پر الیکشن کمیشن کے لیے عام انتخابات کو ملتوی کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ سیکریٹریٹ کو لکھا گیا خط ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ اب سے کچھ دیر قبل ہی خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر دلاور خان کی جانب سے ملک میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو لکھا گیا خط منظر عام پر آیا تھا۔ سینیٹر دلاور خان کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کو لکھے خط میں کہا گیا کہ سینیٹ نے 5 جنوری کو الیکشن ملتوی کرانے کی قرارداد پاس کی تھی، الیکشن کمیشن نےتاحال انتخابات ملتوی کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے۔ خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ سینیٹ میں منظور کردہ قرارداد میں نشاندہی کیے گئے تحفطات پر توجہ دینی چاییے تھی۔ خط کے متن کے مطابق مسائل حل کیے بغیر صاف شفاف انتخابات کے انعقاد پر سمجوتہ نظر آرہا ہے، میری قرارداد پر عملدر آمد کی موجودہ صورت حال معلوم کی جائے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یقینی بنایا جائے کہ 8 فروری کے انتخابات ملتوی کیے جائیں اور ایسے حالات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک بھر سے لوگ الیکشن سرگرمیوں میں شرکت کر سکیں۔ واضح رہے کہ 5 جنوری کو سینیٹر دلاور خان نے سینیٹ میں ایک قرار داد پیش کی تھی جس میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، اس قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا تھا۔