اسلام آباد(ٹی این ایس) قومی سلامتی کمیٹی کا ملکی سلامتی پر سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم

 
0
222

.قومی سلامتی کمیٹی کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت اجلاس میں ملکی سالمیت اور خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔قومی سلامی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، سربراہ پاک فضائیہ اور نیول چیف بھی شریک ہوئے۔نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی، نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ اور انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان ایران کشیدگی پر غور کیا گیا، نگراں وزیر خارجہ نے سفارتی محاذ پر ہونے والی بات چیت پر بریفنگ دی۔اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ کوئی کشیدگی نہیں چاہتا، تاہم قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس میں پاکستان کے ایران میں تعینات سفیر نے بریفنگ دی، بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے ایرانی سرزمین پر کامیاب انٹیلیجینس بیسڈ آپریشن کیا، پاکستان نے ایرانی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی۔واضح رہے کہ ایران نے 16 جنوری کو بلوچستان کے علاقے میں میزائل اور ڈرون حملے کر کے 2 بچیوں کو شہید اور 3 کو زخمی کر دیا تھا۔جس کے بعد پاکستان نے بلوچستان پر حملے کے جواب میں آپریشن ’مرگ بر، سرمچار‘ کے ذریعے ایران کو جواب دیا۔پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جواب میں ایرانی صوبے سیستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر بھرپور فوجی کارروائی کو ’آپریشن مرگ برسرمچار‘ کا نام دیا گیا اور یہ نام جس میں بلوچی اور فارسی زبانوں کی آمیزیش شامل ہے عام پاکستانیوں کیلئے بھی نامانوس ہے، تاہم اس بارے میں وزارت خارجہ کی ترجمان کے مطابق پاکستان کی جانب سے اس آپریشن کا کوڈ نام ’ آپریشن مرگ برسرمچار’ رکھا گیا ۔’سرمچار‘ ایک اصطلاح ہے جو بلوچستان میں حملے کرنے والے اپنے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے معنی ہیں جان ن کی بازی لگا دینے والا۔ جبکہ ’مرگ بر‘ سے مراد تباہی یا اُن پر موت کا آنا ہے. یاد رہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کمی کے آثار نظر آنے لگے ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان سرکاری سطح پر مثبت پیغامات کا تبادلہ کیا گیا ہے۔ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے بھی پاکستان اور ایران کے درمیان رابطوں کی تصدیق کی۔ پاکستانی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کو اسلام آباد کے دورے کی دعوت دی ہے۔
تہران سے جاری بیان میں ایرانی وزارت خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ کی طرف سے ملنے والی دعوت کی تصدیق کی ہے۔ایرانی وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ پاک ایران وزرائے خارجہ کی ٹیلیفونک گفتگو انتہائی مثبت رہی، جلیل عباس جیلانی اور حسین امیر عبداللہیان نے اعلیٰ سطح پر تعلقات کی بحالی پر بات کی۔ ایرانی وزارت خارجہ نے پاکستان کے ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ رحیم حیات کا خصوصی حوالہ دیا اور کہا کہ میرے ساتھی رحیم حیات کی مدد سے ہم دونوں دوست ممالک تناؤ ختم کرنے کا نیا رکارڈ قائم کرسکتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ ہم یہ اقدام دونوں ممالک کے سفیروں کی واپسی اور وزراء خارجہ کے باہمی دوروں سے کرسکتے ہیں۔ پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ان کے ایرانی ہم منصب امیر عبدالہیان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ ٹیلی فونک رابطے میں پاک ۔ ایران وزرائے خارجہ نے دونوں ممالک کے درمیان جاری تنازع پر تبادلہ خیال کیا۔ ترجمان دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق جلیل عباس جیلانی نے ایران کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے پاکستان کی آمادگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی معاملات پر قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ کے درمیان حالیہ واقعات کے بعد یہ دوسرا رابطہ ہے۔ قبل ازیں پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی میں کمی کے آثار نظر آنے لگے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سرکاری سطح پر مثبت پیغامات کا تبادلہ ہوا تھا۔ایرانی سفارتکار سید رسول موسوی نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ دونوں ممالک کے رہنما اور اعلیٰ حکام جانتے ہیں کہ حالیہ تناؤ کا فائدہ ہمارے دشمنوں اور دہشت گردوں کو ہوگا۔ مسلم دنیا کا اہم مسئلہ غزہ میں صہیونیوں کے جرائم بند کرنا ہے۔ ایرانی عہدیدار کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری رحیم حیات قریشی نے کہا کہ آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں پیارے بھائی رسول موسوی۔ پاکستان اور ایران مثبت بات چیت کے ذریعےمسائل حل کرنے کے لیے آگے بڑھیں گے، دہشت گردی سمیت ہمارے مشترکہ چیلنجز کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔دوسری طرف میں پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر نے دونوں ممالک کو برادرہمسایہ اور دوست ملک قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم نے واضح کیا کہ ایران اور پاکستان نے مختلف میدانوں اور مشکل اوقات میں ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ دونوں ممالک کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ 17 جنوری کو ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملے کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔ ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 48 گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر پاکستان نے ایرانی صوبے سیستان و بلوچستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا جس میں متعدد دہشت گرد مارے گئے تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے جمعرات کی صبح ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں انتہائی مربوط اور مخصوص اہداف کے خلاف مہارت سے فوجی کارروائیوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، ’مرگ بر سرمچار ’ کے نام سے خفیہ اطلاعات پر مبنی آپریشن میں متعدد دہشت گرد مارے گئے۔گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان ایران کے ساتھ اپنے رابطوں میں پاکستانی نژاد دہشت گردوں، جو خود کو سرمچار کہتےہیں، کے ایران کے اندر حکومتی عملداری سے باہر علاقوں میں محفوظ ٹھکانوں کے بارے میں اپنی تشویش سے مسلسل آگاہ کرتا رہا ہے۔ پاکستان نے ان دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیوں کے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ کئی ڈوزیئرز بھی ایران کے ساتھ شیئر کیے، تاہم ہمارے سنگین تحفظات پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد سرمچار بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہاتے رہے۔یہ کارروائی ان نام نہاد سرمچاروں کی طرف سے ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں کے بارے میں مصدقہ انٹیلی جنس کی روشنی میں کی گئی۔یہ کارروائی پاکستان کے تمام خطرات کے خلاف اپنی قومی سلامتی کے تحفظ اور دفاع کے غیر متزلزل عزم کا اظہار ہے۔ اس انتہائی پیچیدہ آپریشن کا کامیاب انعقاد بھی پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے، پاکستان اپنے عوام کے تحفظ اور سلامتی کے لیے تمام ضروری اقدامات کرتا رہے گا۔پاکستان، ایران کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا مکمل احترام کرتا ہے، آپریشن کا واحد مقصد پاکستان کی اپنی سلامتی اور قومی مفاد کے لیے تھا جو ہمارے لیے سب سے مقد م ہے اور جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان آرمی نے کہا کہ ایران میں انٹیلیجنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن کے دوران بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے دہشت گردوں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کارروائی میں بلوچستان لبریشن آرمی، لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کونشانہ بنایا گیا، یہ آپریشن انٹیلیجنس بنیاد پر کیا گیا۔بیان میں کہا گیا کہ نشانہ بنائے گئے ٹھکانے استعمال کرنے والے دہشت گردوں میں بد نام زمانہ دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغات، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی سمیت دیگر شامل ہیں۔
گلوبل فائر پاور نے دنیا بھر کی طاقتور افواج کی فہرست جاری کی ہے، جس کے مطابق سب سے طاقت وار امریکی فوج ہے جبکہ پاکستانی فوج کا نواں نمبر ہے، جس کا پاور انڈیکس 0.1711 ہے۔فہرست میں بتایا گیا ہے کہ فوجی لحاظ سے طاقتور ممالک میں امریکا پہلے، روس دوسرے اور چین تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی فوج میں فعال اہلکاروں کی تعداد 6 لاکھ 54 ہزار ہے اور اس لحاظ سے پاکستان ساتویں نمبر پر ہے۔فہرست میں رینکنگ کی بنیاد 60 سے زائد عناصر کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے۔گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق بھارت چوتھے,جنوبی کوریا پانچویں، برطانیہ چٹھے، جاپان ساتویں، ترکیہ آٹھویں، پاکستان نویں، اور اٹلی دسویں نمبر پر ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کے طور پر پاکستان رکن ممالک کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری سمیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کی پاسداری کرتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں اور بین الاقوامی قانون کے اندر اپنے جائز حقوق کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کبھی بھی اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی جواز یا حالات میں چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ترجمان نے کہا کہ ایران برادر ملک ہے اور پاکستانی عوام ایرانی عوام کے لیے بے حد احترام اور محبت رکھتے ہیں، ہم نے ہمیشہ دہشت گردی کی لعنت سمیت مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بات چیت اور تعاون پر زور دیا ہے اور ہم مشترکہ حل تلاش کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے۔ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے مصدقہ اطلاعات پر ایران میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر آپریشن کیا، ملکی سلامتی اور قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ دوسری جانب ادھر چین نے کہا کہ وہ حالیہ پیش رفت کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہے۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نےکہا کہ چین کو پوری امید ہے کہ دونوں فریق تحمل اور بردباری سے کام لیں گے اور کشیدگی میں اضافے سے بچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دونوں فریق چاہیں تو ہم کشیدگی کو کم کرنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔واضح رہے کہ 2 روز قبل ایران کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود میں حملے کے نتیجے میں 2 معصوم بچے جاں بحق اور 3 بچیاں زخمی ہو گئی تھیں۔ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں کارروائی شام اور عراق میں حالیہ دنوں میں ایران کی جانب سے اپنی سرزمین پر حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے ردعمل کے طور پر کیے گئے حملوں کا تسلسل تھا، ان حملوں نے خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے درمیان علاقائی استحکام سے متعلق تشویش میں اضافہ کیا ہے۔پاکستان نے اپنی فضائی حدود کی بلااشتعال خلاف ورزی اور پاکستانی حدود میں حملے کی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ خودمختاری کی خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہےبعدازاں پاکستان نے ایران سے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا، ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ تمام اعلیٰ سطحی تبادلوں کو معطل کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان میں ایران کے سفیر، جو اس وقت ایران میں ہی ہیں، ان کو بھی پاکستان واپس نہ آنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ کہا کہ قومی خود مختاری کے حوالے سے عالمی قوانین موجود ہیں، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاک ایران سرحدی علاقہ غیر مستحکم صورتحال سے دوچار ہے بلکہ ماضی میں بھی اسے تناؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کو آپریشن مرگ بر، سرمچار کا نام دیا گیا ہے۔ مرگ بر ایران کی سرکاری زبان فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی ’مردہ باد‘ کے ہیں جبکہ سرمچار بلوچی لفظ ہے جس کے معنی سر قربان کرنے والا یا جان نثار کرنے والا ہے اور یہ بلوچ عسکریت پسند اپنے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس انٹیلی جنس آپریشن کا نام ’آپریشن مرگ بر سرمچار‘ رکھا گیا جس کے معنی بنتے ہیں ’سرمچاروں کی موت‘۔ ایران میں موجود دہشت گرد خود کو ’سرمچار‘ کہلواتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں بھی کئی علیحدگی پسند شدت پسندوں کو سرمچار کہا جاتا ہے۔