راولپنڈی(ٹی این ایس)قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر خواتین کا 5 فیصد کوٹہ پورا نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس.

 
0
49

سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر خواتین کا 5 فیصد کوٹہ پورا نہ کرنے کے خلاف درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کل طلب کر لیا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں ایڈووکیٹ مس طاہرہ بانو مبارک امیدوار قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ایک عوامی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئےمطالبہ کیا ان سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے جو عام انتخابات میں خواتین کو مواقع دینے میں ناکام رہیں۔ مس طاہرہ بانو مبارک نے کہا ہے کہ خواتین کا ووٹ پاکستان کے سیاسی نظام کو بدل سکتا ہے، خواتین عوام کے بنیادی حقوق کے لیے آگے آئیں، خواتین کے ووٹ کا اثر 2024 کے الیکشن کے نتائج پر پڑے گا، انہوں نے کہا کہ آبادی کے مجموعی ووٹوں کے مقابلے خواتین کے ووٹ یہ نصف سے زیادہ ہے”خواتین کا ووٹ “خواتین کی مرضی” ہے، زیادہ تر خواتین خاندانی دباؤ اور اثر و رسوخ کے تحت ووٹ دیتی ہیں، سیاسی جماعتوں کی جانب سےغیر ذمہ دارانہ کارروائیوں کے خلاف کارروائی کریں۔ ایڈووکیٹ مس طاہرہ بانو مبارک نے کہا کہ خواتین کا ووٹ پاکستان کے سیاسی نظام کو بدل سکتا ہے، “خواتین کا ووٹ “خواتین کی مرضی” ہے، خواتین کو ووٹ ڈالنے کا طریقہ سکھانے کے لیے کوئی سماجی تنظیم آواز نہیں اٹھا رہی، سیاسی جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر 5 فیصد خواتین کوٹہ پورا نہ کرنے کے خلاف عورت فاؤنڈیشن نے درخواست دائر کی موقف اپنایا گیا ہے کہ الیکشنز ایکٹ کی دفعہ 206 کے تحت جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ جاری کرنا قانونی تقاضہ ہے اور قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر صرف ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ(ن) نے خواتین کو 5 فیصد سے زائد ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی نے خواتین کے 5فیصد کوٹے کا قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا جبکہ عوامی نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل، تحریک لبیک پاکستان نے خواتین کو 5فیصد کوٹہ نہیں دیا۔ پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے لیے جاری ٹکٹوں میں ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر نے خواتین کو 5فیصد کوٹہ دینے کا قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا جبکہ سندھ اسمبلی کی نشستوں کے لیے ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی نے بھی 5فیصد کوٹہ نہیں دیا۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے بھی ایم کیو ایم پاکستان، مسلم لیگ(ن)، جماعت اسلامی اور دیگر نے خواتین کو قانون کے تحت 5فیصد کوٹہ نہیں دیا اور اسی بلوچستان اسمبلی کے لیے بھی متعدد جماعتوں نے خواتین کو 5فیصد کوٹہ دینے کا قانونی تقاضا پورا نہیں کیا۔ درخواست میں الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ تمام اہم سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کو کل کے لیے نوٹس جاری کیا ہے۔قومی انتخابات میں جنرل نشستوں پرخواتین کا کسی انتخابی حلقے سے میدان میں اترنا غیر معمولی ہوتا ہے راولپنڈی سے چار بہنیں اور بھائی اصغر علی مبارک، عظمت علی مبارک ایڈووکیٹ، مس طاہرہ بانو مبارک ایڈووکیٹ اور مس عظمیٰ مبارک ایڈووکیٹ این اے 60 ,این اے 61 ,این اے 62, اور این اے 54 راولپنڈی سے الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک منفرد ریکارڈ ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر882 خواتین امیدوار بھی میدان میں ہیں۔قومی اسمبلی کی نشستوں پر 312 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 570 خواتین امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گی۔ سابق وزرائے اعظم کی شریک حیات، بیٹی یا پھر دیگر سیاست دان خواتین عام انتخابات میں اپنے مخالف مرد امیدوار کو مات دےکر نہ صرف قومی اسمبلی میں پہنچیں بلکہ اہم آئینی عہدوں پر بھی فائز رہیں۔.ملکی سیاست میں مقبول خواتین سیاستدان جو عام انتخابات میں اپنے مخالف امیدواروں کو مات دےکر نہ صرف قومی اسمبلی میں پہنچیں بلکہ آئینی عہدوں پر بھی فائز رہیں۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بےنظیر بھٹو نے چار مرتبہ انتخاب لڑا جن میں سے دو مرتبہ وہ وزیراعظم بنیں اور دو ہی مرتبہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف یعنی اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ بےنظیر بھٹو کی والدہ اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ بیگم نصرت بھٹو بھی چار مرتبہ اپنی بیٹی بےنظیر بھٹو کے ساتھ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوچکی ہیں۔ بیگم نصرت بھٹو واحد سیاسی شخصیت تھیں جن کے شوہر اور بیٹی دونوں وزیراعظم منتخب ہوئے۔ نصرت بھٹو کے علاوہ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز بھی رکن قومی اسمبلی رہیں اور اب ان کی بیٹی مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے ساتھ انتخابی امیدوار کے طور پر حصہ لیں گی۔مریم نواز کے مقابلے تحریک انصاف کی طرف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اور نو مئی کے مقدمات میں گرفتار صنم جاوید امیدوار ہیں۔ اُن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوگئے لیکن اب سپریم کورٹ نے صنم جاوید کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی ہے اور اُن کا نام بیلٹ پیپر میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔نواز شریف کے سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے فیصلے کے بعد کلثوم نواز نے اپنے شوہر کی خالی ہونے والی نشست پر انتخاب لڑا۔ کلثوم نواز کی علالت کی وجہ سے اُن کی بیٹی مریم نواز نے اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلائی۔ اگرچہ کلثوم نواز رکن قومی اسمبلی تو بن گئیں لیکن لندن میں زیرِعلاج ہونے کی وجہ سے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہ اٹھا سکیں۔ ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہوا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی خاتون امیدوار کے مدمقابل خاتون امیدوار تھیں۔1993ء میں سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو جس قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں، اسی اسمبلی میں ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے علاوہ ان کے شوہر آصف علی زرداری اور سُسر حاکم علی زرداری بھی ارکانِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ملک کی انتخابی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو 1970ء سے 2018ء یعنی تقریباً 50 برسوں میں 64 خواتین نے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ 1977ء کے عام انتخابات میں پہلی خاتون امیدوار کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھنے والی عبدالولی خان کی اہلیہ اور عبدالغفار خان کی بہو نسیم ولی خان تھیں۔ نسیم ولی خان، ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں اپنے شوہر کی گرفتاری کے بعد سیاست میں سرگرم ہوئیں اور خیبرپختونخوا کے دو حلقوں سے انتخاب لڑا بلکہ دونوں نشستوں پر کامیاب بھی ہوئیں۔ یہ وہی وقت تھا جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی تھی اور اس کے سربراہ اور اپوزیشن لیڈر خان عبدالولی خان جیل میں تھے۔ڈاکٹر اشرف عباسی 1970ء میں پیپلز پارٹی کی طرف سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور پھر انہیں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی چنا گیا۔ 11 برس بعد 1988ء میں ڈاکٹر اشرف عباسی نے سندھ کے قومی اسمبلی کے حلقے سے انتخاب لڑا اور دوبارہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ اس طرح ڈاکٹر اشرف عباسی واحد رکنِ قومی اسمبلی تھیں جو ایک مخصوص نشست اور دوسری مرتبہ جنرل نشست پر انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی پہنچیں۔ انہیں دونوں مرتبہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ ملا۔ ڈاکٹر اشرف عباسی پاکستان کی تاریخ کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر تھیں۔سابق اسپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا واحد خاتون ہیں جو سب سے زیادہ مرتبہ رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں انہیں اسپیکر قومی اسمبلی منتخب کیا گیا اور انہیں ملک کی پہلی خاتون اسپیکر قومی اسمبلی بنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا 1997ء سے 2018ء تک پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنیں۔فہمیدہ مرزا کے بعد پنجاب سے غلام بی بی بھروانہ چار مرتبہ جنرل نشست پر انتخاب لڑ کر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ امریکا میں سابق پاکستانی سفیر بیگم عابدہ حسین اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما تہمینہ دولتانہ تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ بیگم عابدہ حسین نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا اور جس اسمبلی کی وہ پہلی مرتبہ رکن بنیں۔ اسی اسمبلی کے پہلے اسپیکر ان کے شوہر فخر امام تھے۔ حنا ربانی کھر نے بھی دو مرتبہ اپنی آبائی نشست پر انتخاب لڑا۔ اس طرح وہ 2002ء اور پھر 2008ء میں نہ صرف رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں بلکہ پہلی خاتون وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔جہاں سیاست دان خواتین نے مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی بننے کے بعد براہ راست انتخابات میں حصہ لیا وہیں سابق وزرا حنا ربانی کھر اور تہمینہ دولتانہ دو بار جنرل نشست پر انتخاب لڑنے کے بعد مخصوص نشست پر بھی رکن قومی اسمبلی بنیں۔تہمینہ دولتانہ 2013ء اور حنا ربانی کھر 2018ء میں مخصوص نشستوں پر قومی اسمبلی پہنچیں۔ فردوس عاشق اعوان، نفیسہ شاہ، شازیہ مری اور شائستہ پرویز ملک پہلے مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی بنیں اور پھر جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز ملک کی اہلیہ شائستہ پرویز نے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی ہوتے ہوئے براہ راست انتخاب لڑا اور رکن قومی اسمبلی بنیں۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد خالی ہونے والی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے مسلم لیگ (ن) نے انہیں امیدوار کھڑا کیا اور وہ پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں اسلم گل کو ہرا کر منتخب ہوئیں۔ ان کے مقابلے میں آزاد امیدوار مزدور رہنما غلام فاطمہ تھیں۔کلثوم نواز کی رشتہ دار اور مشہور پہلوان زبیر جھارا کی بیوہ سارہ زبیر نے اپنے کزن کے شوہر نواز شریف کے مدمقابل کاغذات نامزدگی جمع کروائے لیکن انتخاب نہیں لڑا۔ 2013ء میں سارہ زبیر سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی سیاسی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔گزشتہ عام انتخابات میں سب سے زیادہ خواتین امیدوار پنجاب اور اس کے بعد سندھ سے منتخب ہوئیں۔ مجموعی طور پر سب سے زیادہ خواتین 2008ء میں منتخب ہوکر قومی اسمبلی پہنچیں، یہ وہی وقت تھا جب مرد ارکان اسمبلی کی عدالت سے نااہلی کے فیصلوں کی وجہ سے خواتین کو انتخابی میدان میں اتارا گیا تھا۔8 فروری کے انتخابی معرکے کے لیے بھی خواتین امیدوار تیار ہیں۔ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد اور عالیہ حمزہ تو جیل سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ یاسمین راشد سابق وزیراعظم نواز شریف کے مدمقابل ہیں۔ عالیہ حمزہ کا مقابلہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف سے ہے۔ عالیہ حمزہ اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی رہ چکی ہیں۔ڈاکٹر یاسمین راشد چوتھی مرتبہ قومی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار ہیں اور اب دوسری مرتبہ ان کا مقابلہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ہے۔ 2013ء میں ان کا مقابلہ نواز شریف سے ہوا جبکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد 2017 میں ضمنی انتخاب میں انہوں نے نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کے مدمقابل انتخاب لڑا اور انہیں شکست ہوئی۔ 2018ء میں ڈاکٹر یاسمین مخصوص نشست پر رکن پنجاب اسمبلی بنیں اور پھر پنجاب کابینہ میں شامل ہوئیں۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور پاکستان تحریک انصاف کے صدر پرویز الہیٰ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے پر اب ان کی اہلیہ قیصرہ الہیٰ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہی ہیں اور ان کا مقابلہ اپنے بھائی اور سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے سابق وفاقی وزیر سالک حسین سے ہے یعنی پھوپھی اور بھتیجا آمنے سامنے ہیں۔ ان کی بہن سمیرا الہیٰ بھی صوبائی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار ہیں۔ ممتاز سیاست دان چوہدری ظہور الہیٰ کی دونوں بیٹیاں بھی تحریک انصاف کی طرف سے انتخابی امیدوار ہیں۔یاد رہے کہ اصغر علی مبارک بھی این اے 56 راولپنڈی سے بطور آزاد امیدوار انتخابی نشان بھیڑ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ جبکہ این اے 57 راولپنڈی سے عظمت علی مبارک کا انتخابی نشان ہاکی ہےالیکشن کمیشن کی جاری کردہ تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ 17 ہزار 816 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں پر5 ہزار 121 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر 12 ہزار 695 امیدوار الیکشن لڑیں گے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 11 ہزار 785 آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشستوں پر3 ہزار 748 آزاد جبکہ 1873 سیاسی جماعتوں کے امیدوار قسمت آمائیں گے۔صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 8 ہزار 537 آزاد جبکہ 4 ہزار 158 سیاسی جماعتوں کے امیدوار مدمقابل آئیں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر882 خواتین امیدوار بھی میدان میں ہیں۔قومی اسمبلی کی نشستوں پر 312 اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 570 خواتین امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گی۔ ملک بھرمیں4 نشستوں پر خواجہ سرا بھی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر مجموعی طور پر 6 ہزار31 سیاسی جماعتوں کے امیدوار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی نسبت تقریباً دوگنا آزاد امیدوار حصہ لے رہے ہیں,پاکستانی اداکاروں نے ایک بار پھر عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے حالات جتنے بھی مایوس کُن ہوں، ووٹ ضرور ڈالنا چاہیے۔8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی تیاریاں ملک بھر میں زور و شور سے جاری ہیں، ملک کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں مصروف ہیں، جگہ جگہ ریلیاں اور سیاسی جھنڈے اور بینرز بھی آویزاں ہیں۔ایک جانب ملکی خراب معیشت، دہشت گردی، مہنگائی، کرائم اور دیگر مشکلات نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے وہیں چند روز بعد ہونے والے عام انتخابات میں عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کریں گے۔اسی تناظر میں کئی نامور پاکستانی اداکار عوام کی حوصلہ افزائی اور شعور بیدار کرنے کے لیے ووٹ ڈالنے کی اپیل کررہے ہیں۔