اسلام آباد(ٹی این ایس) گیس کی قیمتوں میں پھر اضافہ

 
0
59

وطن عزیز کے اقتصادی مسائل کا بوجھ نظم حکومت کی خرابی’ وسائل پر قابض اشرافیہ کی ہوس زر اور عوامی مسائل سے حکمرانوں کی لا تعلقی کے ساتھ مل کر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے آئے روز عوام پر گیس’ بجلی’ پٹرولیم مصنوعات’ پانی’ اناج اور دوسری اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں اضافے کے تازیانے برسائے جارہے ہیں انتہائی مہنگی بجلی اور گیس کی قیمت میں مزید اضافے کا بوجھ صارفین کے مالی بوجھ اور صنعتی زبوں حالی میں بڑے اضافے کا سبب بنے گا
عالمی بنک نے نومبر 2023 میں پاکستان کے معاشی وسماجی مسائل کو پیش نظر رکھ کر ممکنہ اصلاحات پر مبنی جاری کردہ رپورٹ میں ان چھ مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی جو معیشت کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو بلند مالیاتی خسارے کا سامنا ہے’ پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سرمایہ کاری اور برآمدات کا فقدان ہے’ پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری اور جمود کا شکار ہے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں توانائی کا شعبہ ناقابل انحصار اور معیشت پر بھاری ہے پاکستان میں توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ مالی مشکلات پیدا کر رہا ہے جبکہ ملک کا سرکاری شعبہ غیر موثر ہے’ پاکستان میں پالیسی فیصلوں کا محور ذاتی مفادات ہیں عالمی بنک نے مسائل کی نشاندہی کے ساتھ تجویز دی تھی کہ ملک میں توانائی کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں مگر بد قسمتی سے نگران حکومت اس رپورٹ پر توجہ دینے اور ٹھوس اصلاحات کے ذریعے مسائل کی حل کی جانب پیش رفت کرنے کی بجائے اب تک کئی مرتبہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے ملک میںچند ماہ کے دوران توانائی کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے سے گھریلو صارفین کی مشکلات تودو چند ہوئی ہیں اور صنعتوں کی پیدواری لاگت بڑھنے سے ان کے لئے عالمی منڈیوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگیا ہے ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران کے باعث غربت اور متوسط طبقہ مہنگائی اور بے روز گاری کا شکار ہے دل برداشتہ نوجوان نسل جرائم کی جانب بڑھ رہی ہے لوگ اپنے گھر کی دہلیز پر انصاف چاہتے ہیں روٹی روزگار کے مسائل کا حل چاہتے ہیں مگر افسوس یہ سب کچھ ان سے دور ہوتا جارہا ہے چشم پوشی اور بے حسی کی انتہاء یہ ہے کہ توانائی سیکٹر کو درپیش خسارے کی اصل وجوہات کا تدراک کرنے کے بجائے مسلسل کسی نہ کسی خسارے کو بنیاد بنا کر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہا ہے ملک میں شر وفساد کا طوفان لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جارہا ہے ملک میں جاری انتشار’ افراتفری اور سیاسی عدم استحکام کا نشانہ پاکستانی معیشت اور مڈل کلاس بن رہی ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک مڈل کلاس طبقہ حکمرانوں کے استحصال کا شکار چلا آرہا ہے بھوک اور افلاس کے سائے میں رہنے والے کروڑوں پاکستانی اشرافیہ کی مفاد پرستی اور بے حسی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں معیشت کی بحالی کے نام پر کئے جانے والے تمام فیصلوں کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے آئی ایم ایف کی شرائط کے نام پر انہیں ہر سہولت سے محروم کیا جارہا ہے پٹرول’ بجلی’ گیس’ پانی’ ٹرانسپورٹ اور ضروری اشیاء سمیت سب کچھ ان کے دسترس سے باہر ہوچکا ہے پورے ملک میں افراتفری کی کیفیت ہے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک میں استحکام اور بہتری کی جو توقعات تھیں وہ بھی دم توڑتی دکھائی دے رہی ہیں نگران حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی پیروی کرتے ہوئے مہنگی ایل این جی کا رخ گھریلو صارفین کی جانب موڑنے کے طریقے پر گامزن ہے مقامی گیس کی کمی کی وجہ سے گیس سیکٹر خطرات کا شکار ہے گزشتہ دہائی کے دوران گیس کی کوئی نمایاں دریافت نہ ہونے اور موجودہ ذخائر سے پیداوار میں سالانہ 9 فیصد کمی کی وجہ سے پاکستان ایل این جی کا امپورٹر بن گیا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ گردشی قرضے توانائی کے شعبے کے لئے بھانک صورت اختیار کرچکے ہیں مگر یہ بوجھ عوام کو دی جانے والی کسی رعایت کا نتیجہ نہیں بلکہ توانائی کے شعبے کے ڈھانچے کے ان مسائل کی وجہ سے ہے جن سے عام صارفین کا کوئی تعلق نہیں
وہ نہ ہی اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں سے ہیں اور نہ ہی ان مسائل کے پیدا کرنے والوں میں سے مگر جب بھی اس بوجھ کے ساتھ نمٹنے کی بات آتی ہے اس فیصلہ سازوں کی پہلی نظر عام صارفین پر پڑتی ہے اس سلسلے میں ماضی کی حکومتوں نے بھی کچھ احتیاط یا دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر پی ڈی ایم کی سابق حکومت کے بعد نگران حکومت اس سلسلے میں جو اقدامات کر رہی ہے انہیں تباہ کن ہی قرار دیا جاسکتا ہے ایسے حالات میں جب بد ترین مہنگائی کی وجہ سے کم اور درمیانی آمدنی والے طبقے کے لئے روز مرہ کی ضروریات کے اخراجات پورا کرنا ناممکن ہوچکا ہے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے اس طبقے کو چکرا کر رکھ دیا ہے ملک میں توانائی کا انحصار زیادہ تر درآمدی وسائل پر ہے اور عالمی سطح پر ان کی قیمت میں اضافہ ہو یا ہمارے روپے کی قدر میں کمی آئے ہر دو صورتوں میں یہ توانائی کی قیمت میں اضافے کا سبب بنتا ہے اس کا بہترین حل یہ ہے کہ توانائی کی پیدوار میں سستے وسائل کو ترجیح دی جائے اس سلسلے میں آبی وسائل سے بہتر کیا ہوسکتا ہے جس کی پیداواری صلاحیت ہمارے ملک میں بے پناہ ہے ایک اندازے کے مطابق ملک میں ہائیڈل بجلی کی امکانی پیدواری صلاحیت ایک لاکھ میگا واٹ کے قریب ہے جبکہ 65 ہزار میگا واٹ کے پیداواری منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے مگر ہماری توانائی کی مجموعی پیدوار کا صرف 25 فیصد پن بجلی پر مشتمل ہے جبکہ مہنگے ترین اور مکمل طور پر درآمدی انرجی پر منحصر تھرمل بجلی گھر سے 60 فیصد پیداوار حاصل کی جارہی ہے ہماری پیداواری وسائل کے اس ماڈل ہی میں خرابی کی وہ صورت موجود ہے جو ایک جانب بے تحاشا گردشی قرضوں اور دوسری طرف صارفین کے لئے تباہ کن مالی بوجھ کا سبب بن رہی ہے توانائی کی پیدواری لاگت کے علاوہ لائن لاسز بھی خسارے کی بہت بڑی وجہ ہیں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی تقسیم کار کمپنیوں کے بوسیدہ ترسیلی نظام کی وجہ سے روزانہ گیارہ سو میگا واٹ بجلی ضائع ہوجاتی ہے بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے ناقص نظام کی وجہ سے سالانہ 750 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے جس کا اضافی بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ بجلی اور گیس کی قیمت پہلے ہی عوام کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہے توانائی کی کھپت بھی ترقی کی پیمائش کا ایک پیمانہ ہے مگر جب بغیر سوچے سمجھے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے جائیں گے تو اس کا نتیجہ توانائی کے استعمال میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کا اثر ان پیداواری سرگرمیوں پر بھی پڑتا ہے جو ملک کے لئے دولت اور عوام کے لئے روز گار پیدا کرتی ہیں’ ملک میں گزشتہ کچھ عرصے جو غیر معمولی تیزی سے صنعتیں بند ہورہی ہیں اور برآمدات میں گراوٹ کا سلسلہ ہے’ توانائی کی بے تحاشا مہنگائی اس کا بنیادی سبب ہےاب بھی وقت ہے حکومت اور اس کے ذیلی ادارے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں شتر بے مہار اضافہ کرنے کے بجائے عالمی بنک کی رپورٹ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی کارگردگی کا جائزہ لیں اور ان خرابیوں کو دور کریں جو پاکستان کی معاشی وسماجی ترقی کا راستہ روکے کھڑی ہیں اور عوام کی اکثریت کو تیزی کے ساتھ خط غربت سے نیچے دھکیلنے کا باعث بن رہی ہیں۔۔۔