اسلام آباد(ٹی این ایس) نوجوان ووٹر ماضی کی طرح سمجھدارکیوں نہیں…؟

 
0
60

نوجوان ووٹر ماضی کی طرح سمجھدارکیوں نہیں…؟.. حالیہ انتخابات میں 18 سے 35 برس کے پانچ کروڑ 70 لاکھ نوجوان ووٹرز حقِ رائے دہی کے اہل تھے 2018 کے عام انتخابات کے بعد سے دو کروڑ دس لاکھ سے زیادہ نئے ووٹرز نے اپنا اندراج کروایا الیکشن کمیشن کے مطابق اب پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد کی تعداد بڑھ کر 12 کروڑ 69 لاکھ سے زیادہ ہو چکی جن میں نوجوان ووٹرز (18 سے 35 سال) کی تعداد 5 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یعنی سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اہل افراد میں سے لگ بھگ 45 فیصد ایسے ہیں جو نوجوان ہیں۔ پاکستان کے عام انتخابات میں وہ نوجوان توجہ کا مرکز تھے جو پہلی مرتبہ اپنا ووٹ کاسٹ کر رہےتھے۔ ایسے نوجوانوں کی تعداد دو کروڑ سے زائد تھی ان نوجوانوں میں سے اکثر اپنے پہلے ووٹ کے لیے پرجوش تھے پی ٹی آئی نے بھرپور انتخابی مہم چلائی جس کا نتیجہ پولنگ اسٹیشنز پر نوجوان ووٹرز کی لمبی قطاروں کی صورت میں نظر بھی آیا، ٹرن آؤٹ بڑھانےمیں نوجوانوں نے اہم کردار ادا کیا لیکن ووٹ ڈالنے کے بعد انہوں نے سیاسی ناواقفیت کی وجہ سے سوشل میڈیا پر گھناؤنا کردار ادا کیا۔ پاکستانی نوجوان ووٹر ماضی کی طرح سمجھدارنہیں,کیونکہ انہیں ماضی کی طرزکی سیاسی نرسری ,سیاسی تربیت دستیاب نہیں ہے ,ماضی میں سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی , پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے طلباء یونینوں, نوجوانوں کی سیاسی تربیت,اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی تھی , خیال رہے کہ دنیا بھر کے ایسے ممالک جہاں جمہوری نظام مضبوط ہے وہاں جہاں بھی نئی لیڈرشپ آ رہی ہے وہ طلبا یونین، ٹریڈ یونین، کسان کمیٹیوں اور سول سوسائٹی کی بڑی تنظیموں سے آتی ہے تاہم پاکستان میں یہ نظام کئی دہائیوں سے تقریباً غیر فعال ہے۔1970 کے انتخابات میں نوجوانوں کا کردار سامنے آیا تھا۔ اس وقت ملک کے تعلیمی اداروں میں دائیں اور بازو کی سیاست عروج پر تھی جس کا عکس انتخابات میں نظر آیا تھا لیکن سابق فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور میں جب طلبہ تنظیموں پر پابندی لگی تو پھر نوجوانوں کا سیاست میں کردار بھی کم ہو گیا۔آج کےنوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں تعلیم یافتہ ہیں لیکن سیاسی شعور سے نابلد ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان میں ووٹر کی عمر 18 کے بجائے 25 سال ہونی چاہیے کیونکہ ووٹ دینے والے کے لیے سیاسی بیداری کے لیے کم از کم پانچ سال ہونا چاہیے اور ووٹ ڈالنے سے پہلے نوجوانوں کو اس کے ووٹ کی اہمیت کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ نوجوان ووٹرز پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں جن میں دیہی اور شہری علاقے بھی شامل ہیں۔ اُن میں تعلیم یافتہ بھی ہیں اور کم تعلیم یافتہ بھی ہیں، لہذٰا معاشرے میں جو سیاسی تقسیم ہے اس کا لامحالہ اثر نوجوان ووٹرز پر بھی پڑانوجوان ووٹرز اپنے والدین یا بزرگوں سے مختلف سوچ رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا
دیکھا گیا ہےکہآنے والی حکومت کے لیےکارکردگی دکھانے کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے جب نوجوان یہ سوچ رہے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی نظام ٹھیک نہیں۔”اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان ووٹرز کا رجحان اپنے بزرگوں سے مختلف ہے اور وہ اپنے خاندان میں بھی اس معاملے پر اختلاف کرتے رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی ایسی سیاسی پارٹی سے اپنے مستقبل کی امیدیں کیونکر وابستہ کرے گی جس کی قیادت کرنے والے قائد، چیئرمین یا شریک چیئرمین ریٹائرمنٹ کی عمر سے کافی اوپر جا چکے ہیں؟ اگر پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف آئندہ عام انتخابات کے وقت 73 برس کے ہوں گے، شہباز شریف 72 برس، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین 71 برس جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 68 برس سے زیادہ کے ہیں,گرچہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پی پی پی اور ن لیگ، میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی قیادت بھی میسر ہے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق آج بھی ان پارٹیوں میں اہم اور بڑے فیصلے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی آشیرباد کے مرہون منت ہوتے ہیں,پاکستان میں کثیر تعداد میں نوجوان ووٹرز کی موجودگی کے باعث بڑی عمر کے سیاست دانوں کی قیادت پر بحث آئے روز کسی نہ کسی صورت میں جاری رہتی ہے اور یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ آیا سیاسی میدان میں موجود لیڈر شپ کبھی یہ بھی سوچے گی کہ قیادت کرنے کے لیے اب وہ بوڑھے ہو چکے ہیں؟ علم نفسیات سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ان کی ذہنی کارکردگی وسیع پیمانے پر مختلف ہوتی ہے، جس سے یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا کوئی شخص بڑھاپے میں قیادت کرنے کے لائق ہو بھی سکتا ہے یا نہیں، کیونکہ اگرچہ کچھ مہارتیں عمر کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہیں لیکن بعض میں بہتری بھی آتی ہےپاکستان میں ہونے والے عام انتخابات پر نظر دوڑائی جائے تو الیکٹیبلز کی بڑی تعداد کامیاب ہوتی رہی ہے اور حکومت سازی میں اُن کا کردار اہم رہا ہے۔ تاہم پاکستان میں ‘ٹو پارٹی سسٹم’ کے خاتمے یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مقبولیت کے ہوتے ہوئےپی ٹی آئی نے مقبولیت حاصل کی اور بعض ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت کے بعد نوجوان ووٹر بھی متحرک ہوا ہے۔
نوجوانوں کا انتخابی جوش پاکستان کی سیاسی معیشت سے مطابقت نہیں رکھتا جسے جمہوری اقدار کی خاطر حل کیا جانا چاہیے۔ انتخابات سے پہلے وائس آف امریکا کے سروے میں سامنے آیا کہ 74 فیصد نوجوان ووٹرز فوج پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ 58 فیصد سپریم کورٹ کو دوسرا سب سے قابلِ اعتماد ادارہ قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی جانب سے کیے گئے ایک سروے میں سامنے آیا کہ 67 فیصد نوجوان روزگار کے حصول کے لیے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ 2021ء اور 2022ء کے درمیان ملک چھوڑنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ سال بھی اس رجحان میں اضافہ دیکھا گیا۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے سینٹر فار دی فیوچر آف ڈیموکریسی کی تحقیق ان انتخابات میں نوجوانوں کے رجحان پر روشنی ڈالنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ 2020ء یوتھ اینڈ سیٹسفیکشن ود ڈیموکریسی رپورٹ جو عالمی رجحانات کا نقشہ کھینچتی ہے ان میں سامنے آیا کہ 18 سے 34 سال کی عمر کے افراد کا جمہوریت پر سے سب سے زیادہ تیزی سے اعتماد کم ہورہا ہے جبکہ 1981ء اور 1996ء کے درمیان پیدا ہونے والے 55 فیصد لوگوں نے جمہوریت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ بے روزگاری، دولت کی غیرمساوی تقسیم اور ’معاشی اخراج‘ کی دیگر صورتوں سے نمٹنے میں جمہوری حکومتوں کی ناکامی کی وجہ سے کافی لوگوں نے جمہوریت کے حوالے سے یہ مؤقف اپنایا۔جمہوریت جانچنے کا بہترین طریقہ عام انتخابات ہیں۔ انہیں کے نتیجے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کی جمہوریت زندہ رہے گی؟ پاکستان کا پولنگ کا نظام ایک سنگین مرض کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ لیکن جمہوریت پسند بہت سے پاکستانیوں کا خیال ہے کہ نوجوانوں ووٹرز کی شکل میں ہم نے اس مرض کا ممکنہ علاج تلاش کرلیا ہے۔ میڈیا کا مؤقف ہے کہ تمام تر انتخابی پابندیوں کے باوجود پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سوشل میڈیا پر متحرک نوجوان ووٹرز کی بدولت کامیابی نصیب ہوئی۔ ٹک ٹاک کی ویڈیوز اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انتخابی مہم نے ذاتی مفادات کا پردہ چاک کیا لیکن کیا جمہوریت کا زوال کسی طرح نسلی اعتبار سے منسلک ہے؟ دیکھا جائے تو کچھ حوالوں سے ان انتخابات میں نوجوانوں کا کلیدی کردار تھا کیونکہ ہماری موجودہ ملکی آبادی کی اوسط عمر 22.7 سال ہے اور اس سال 5 کروڑ 68 لاکھ اہل ووٹرز کی عمر 35 سال سے کم تھی۔ لیکن کیا ہمارے نوجوان ووٹرز مربوط انداز میں متحرک نظر آئے؟ انتخابات ہیجان خیزی اور گھٹن ختم کرتے ہیں۔ رواں سال کے انتخابات میں مزاحمت کا عنصر عمران خان کی انتشار کی سیاست سے مماثلت رکھتا ہے۔ نوجوانوں نے اپنے حقِ رائے دہی کے ذریعے سیاسی کرداروں کی مخالفت کی؟ یا پھر ان کے ووٹ، پالیسیوں کی ترقی، اداروں کی تعمیر اور خدمات کی فراہمی کے حوالے سے سیاسی طور پر متحرک ہونے کا اشارہ دیتے ہیں؟ لیکن یہ اشارے کسی امید کو جنم نہیں دیتے۔ سب سے پہلے تو نوجوانوں کے مہنگائی، تعلیم اور روزگار جیسے کلیدی مسائل کو سیاسی جماعتوں کے منشور میں وہ توجہ نہیں دی گئی جو دینی چاہیے تھی۔ خدمات کی فراہمی میں پس و پیش کے باعث نوجوان ووٹرز مایوس ہوں گے۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کیا ہوگا لیکن گزشتہ چند سالوں سے نوجوان ووٹرز اپنے ووٹ کے ذریعے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ نظام سے کیا چاہتے ہیں۔ رپورٹ میں ایک اور دلچسپ بات کی نشاندہی کی گئی کہ مقبول رہنماؤں والے ممالک نے اپنے انتہائی پاپولسٹ لیڈر کے دورِ حکومت کے ابتدائی چند سالوں کے دوران 35 سال سے کم عمر ووٹرز کے جمہوریت پر اعتماد میں 16 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ اس تبدیلی کا اثر اس بات سے قطع نظر تھا کہ وہ مقبول لیڈر بائیں بازو سے تعلق رکھتا تھا یا دائیں بازو سے۔ اور یہ پاپولسٹ سیاست کے پٌولرائزنگ اثرات کے باوجود ہوا جوکہ جمہوریت کے لیے ناگوار تصور کیا جانا چاہیے۔ رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ پاپولسٹ سیاست دانوں کے دورِحکومت میں نوجوانوں کا جمہوریت پر اظہارِ اعتماد میں ہونے والا اضافہ قلیل المدتی تھا کیونکہ چار سال گزرنے کے بعد اس میں بتدریج کمی واقع ہوئی اور دو دفعہ حکومتی میعاد مکمل ہونےکے بعد تیزی سے اس اعتماد میں کمی دیکھنے میں آئی۔ دوسرے الفاظ میں پاپولسٹ یا تو اقتدار میں رہنے کے لیے آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرلیتے ہیں یا پھر وہ مرکزی دھارے کے سیاست دانوں کے طور پر کامیاب ہونے کے لیے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں، یوں وہ نوجوانوں کی حمایت سے محروم ہوجاتے ہیں اور جمہوریت کو ایک بار پھر نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ عمران خان اور اپوزیشن میں ان کے حامیوں کا طرزِعمل نوجوانوں کے سیاسی محرکات پر اثرانداز ہوگا لیکن اندیشہ ہے کہ یہ مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔ یہ تمام جماعتوں اور جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کے لیے شرمناک بات ہوگی کہ وہ سیاست میں نوجوانوں کی شرکت کو برقرار رکھنے کے لیے قابلِ قدر اقدامات نہ کریں۔پاکستان کی آبادی کے اعتبار سے سیاسی رجحانات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے مزید ڈیٹا درکار ہے۔ اس ڈیٹا میں ووٹ ڈالنے کے علاوہ نوجوان سیاسی طور پر کس کس طرح متحرک ہوتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا بھی شامل ہونا چاہیے۔ سوشل میڈیا کا استعمال، احتجاج سے لے کر صارفین کے بائیکاٹ تک سب کچھ شمار ہونا چاہیے کیونکہ اس سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ نوجوانوں کو کیسے ان سب سے جوڑا رکھا جائے۔ ہمیں اس بحث کو بھی اہمیت دینی چاہیے کہ نوجوان ایک ایسا بلاک نہیں ہے جو نئے خیالات کو تسلیم نہ کرے۔ نچلی سطح کے حالات نوجوان ووٹروں کی مختلف انداز میں ذہن سازی کرتے ہیں۔ نچلی سطح یعنی مقامی حکومتوں کے اداروں میں شرکت، ممکنہ طور پر نوجوانوں کو سیاست میں متحرک رکھنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔اکستان میں عام انتخابات سے قبل سیاست دانوں کی جانب سے نوجوانوں کے بہتر مواقعوں اور مستقبل کے لیے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا جانا تو معمول رہا ہے لیکن پارلیمان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ کل ووٹرز میں سے 18 سے 35 سال کی عمر کے درمیان موجود ووٹرز کی تعداد ہے۔ الیکشن کمیشن کے ستمبر 2023 تک کے اعداد و شمار کے مطابق 18 سے 35 برس کی عمر کے درمیان ووٹرز کی تعداد پانچ کروڑ 59 لاکھ سے زیادہ ہے جو کل تعداد کا 43.8 فیصد بنتا ہےطلبا اور ٹریڈ یونین جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہیں اور اگر ہم انھیں نہیں بنائیں گے تو پھر جمہوریت پر قبضہ رہے گا اور جو ابھی چل رہا ہے وہی معاملات رہیں گے۔‘سیاست تعارف کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسی بنیاد پر لوگ آپ کو پہچانتے ہیں اور پھر ووٹ دیتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دن آپ اٹھیں اور سوچیں کہ آپ نے الیکشن لڑنا ہے اور لوگ آپ کو ووٹ دے کر جتوا دیں گے۔’آبادی بڑھنے کے بعد آج کل حلقے اتنے بڑے ہو چکے ہیں لیکن سیٹیں نہیں بڑھائی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایک صوبائی اسمبلی کا حقلہ قومی اسمبلی کے قریب جا پہنچا ہے اور ایک حلقے میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ موجود ہیں۔’ایسے میں الیکشن ویسے ہی کسی عام پاکستانی کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں کیونکہ آپ کے لیے ووٹرز تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہےبلدیاتی انتخابات اور یونین کونسل کے الیکشن سے شروع کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد آہستہ جب لوگ آپ کو جاننے لگیں تو آپ صوبائی اور قومی اسمبلی کی جانب دیکھ سکتے ہیں,1985 کے الیکشنز کے بعد سے نظریات کی بجائے روپیہ پیسہ شامل ہو گیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے بعد سٹوڈنٹ یونینز پر پابندی لگ اور اب ٹریڈ یونینز بھی اس طرح سے فعال نہیں۔یوں نہ تو سٹوڈنٹ یونینز سے نوجوان سامنے آئے اور نہ ہی نظریات رکھنے والوں کی پاکستانی سیاست میں جگہ رہی اور سنہ 2002 کے بعد سے یہ مکمل طور پر ختم ہو گئی, سیاسی جماعتوں کے اپنے تنظیمی ڈھانچے بھی اتنے مضبوط نہیں کہ نوجوان کارکن ایک درجے سے دوسرے درجے پر انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے آ سکیں اور یوں الیکشن دن بدن مہنگے ہوتے گئے۔’الیکشن کمیشن نے جو قانون بنایا ہوا ہے اس میں کوئی بھی نہیں کھیلتا، یہ کروڑوں کی گیم ہو چکی ہے۔‘لوگ کہتے ہیں کہ یہ کسی شریف بندے یا پڑھے لکھے بندے کا کام ہی نہیں۔‘