…….(..اصغر علی مبارک…)… …… پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو بھی سیاستدان انتخابات جیت کر وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے، اس نے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا ہے۔خیال رہے سعودی ولی عہد اور وزیراعظم محمد بن سلمان نے پاکستانی فوج کے جنرل عاصم منیر سے رواں برس ہونے والی ملاقات کے فوراً بعد اپنے مالیاتی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری اور قرضوں کو بڑھانے کا جائزہ لیں۔ سعودی اعلان کے مطابق پاکستان میں جاری سرمایہ کاری کا حجم 10 ارب جبکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ڈیپازٹ سعودی رقم کا حجم پانچ ارب ڈالر تک کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ریکوڈک میں سعودی عرب بڑی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے، ریکوڈک میں سعودی عرب کی جانب سے 1 بلین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کیے جانے کا امکان ہے۔ ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم سے ریکوڈک میں بڑی سرمایہ کاری کی تیاریاں جاری ہیں، اس سلسلے میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے، وزیر اعظم شہناز شریف کے سعودی عرب کے دورے میں ریکوڈک سرمایہ کاری کمیٹی کے ممبران بھی ہیں ,اس موقع پر وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب خان سرمایہ کاری کیلئے مراعات پر خصوصی بریفنگ دیں گے، سعودی عرب کو ریکوڈک میں سرمایہ کاری پر خصوصی مراعات بھی دی جائیں گی۔ریکوڈک میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی ٹرانزکشن کا والیم سب سے بڑا ہوگا، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے شئیرز سعودیہ عرب کو فروخت کیے جائیں گے، سعودیہ عرب کی جانب سے سرمایہ کاری آئندہ ماہ میں کیے جانے کی تیاریاں ہیں۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں شہباز شریف پاکستان کے دوسری مرتبہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے ہیں۔ اس سے قبل وہ تقریباً 16 مہینے ملک کے وزیرِاعظم رہ چکے ہیں۔ اس سے قبل سنہ 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے شہباز شریف کو ملک کا وزیرِاعظم منتخب کیا تھا۔ شہباز شریف نے اپنی پچھلی حکومت کے دور میں بھی سعودی عرب کے دورے کیے تھے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں، جن کی جڑیں مذہبی اور ثقافتی وابستگی پر ہیں، پاکستان کے عوام حرمین شریفین کے متولی شاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے لیے انتہائی عزت اور احترام رکھتے ہیں۔.وزیراعظم شہباز شریف پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے ہیں,وزیرِاعظم اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ان کے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی درخواست پر آئندہ مہینوں کے دوران نئے پروگرام پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے اور انھوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے تقریباً دو سال بعد پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کو ہی چُنا۔ 1998 میں پاکستان کی جانب سے ایٹمی تجربے کیے جانے کے فوراً بعد سعودی عرب کے اس وقت کے وزیر دفاع شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز آل سعود اسلام آباد پہنچے تھے۔ تب امریکہ کے صدر بل کلنٹن تھے اور شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز آل سعود کے اس دورے سے امریکہ کو خدشات کافی لاحق ہوئے تھے۔1960 کی دہائی سے عرب دنیا سے باہر پاکستان کو سعودی عرب سے جتنی امداد ملی ہے اتنی کسی اور ملک کو کبھی نہیں ملی۔ مئی 1998 میں جب پاکستان یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ آیا انڈیا کے پانچ جوہری تجربات کا جواب دیا جائے یا نہیں، تب سعودی عرب نے پاکستان کو یومیہ 50 ہزار بیرل تیل مفت دینے کا وعدہ کیا تھا۔‘ اس سے پاکستان کو ایٹمی تجربے کے بعد مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے میں بہت مدد ملی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے اس وعدے نے اس وقت کے وزیرِ اعظم پاکستان نواز شریف کو ایٹمی تجربے کا فیصلہ کرنے کا حوصلہ ملا تھا۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد دراصل وہ معاہدہ ہے جو 1984 میں کیا گیا تھا جس کے تحت ’اگر شاہی خاندان کو کسی بھی قسم کا خطرہ ہو گا تو پاکستان اپنی فوج مہیا کرے گا۔ پاکستان کے ایٹمی تجربے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کے خلاف امریکہ اور یورپی یونین کی پابندیوں کو نرم کروانے میں بہت مدد کی تھی خیال رہے کہ سعودی عرب نے سنہ 1960 کی دہائی میں رائل سعودی ایئر فورس اور اپنے پہلے جیٹ فائٹرز کے پائلٹ پاکستان کی مدد سے تیار کیے تھے۔1969 میں پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے سعودی عرب کی جنوبی سرحد کے ساتھ یمنی دراندازی کو پسپا کرنے کے لیے رائل سعودی ایئر فورس کے طیارے اڑائے تھے۔ اس کے بعد سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی فوجی تعلقات کبھی نہیں رُکے۔ 1980 کی دہائی میں افغان جنگ میں سوویت یونین کے خلاف سعودی عرب اور پاکستان کا مشترکہ کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان میں 2024 کے عام انتخاب کے نتیجے میں ملک میں ایک اتحادی حکومت قائم ہوئی اور اس کے سربراہ وزیرِاعظم شہباز شریف ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔ وزیراعظم کے ہمراہ وزرائے خارجہ، دفاع، خزانہ، اطلاعات اور اقتصادی امور بھی سعودی عرب جائیں گے۔وزیراعظم عمرے کی ادائیگی اور بعد ازاں مسجد نبوی میں حاضری دیں گے۔ وزیراعظم کی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات متوقع ہے، جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، اس کے علاوہ یہ رہنما علاقائی اور عالمی پیش رفت پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔شہباز شریف نے گذشتہ مہینے بطور وزیراعظم حلف اُٹھانے کے بعد معیشت کو اپنی حکومت کے لیے ایک چیلنج قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی مالیاتی معاملات سے نمٹنے کے لیے گہری سرجری کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔‘ پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان گذشتہ برس تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے تھے جس کی 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط رواں مہینے پاکستان کو موصول ہوجائے گی۔پاکستانی حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا۔سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ خیال رہے نومبر 2021 میں پاکستان کے گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم ایک سال کے لیے جمع کروائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا ایجنڈا تو اب تک حکام کی جانب سے شیئر نہیں کیا گیا ہے، لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کی ملاقات میں سرمایہ کاری اور معاشی معاملات زیرِ گفتگو آئیں گے۔سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے اچھے تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معاشی بحرانوں کے دوران لوگوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ سعودی شاہی خاندان مصیبت کے وقت پاکستان کی مدد کرے گا۔ سعودی عرب کا تعلق پاکستان کے قریبی اتحادیوں میں ہوتا ہے اور پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کے نہ ختم ہونے والے معاشی بحرانوں کے سبب اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ پاکستانی رہنماؤں کے ایسے دورے سعودی فیصلہ سازوں سے مالی مدد مانگنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں,سعودی عرب نے اس وقت کچھ اضافی وسائل دینے کا کہا ضرور تھا لیکن صرف اس صورت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہو,ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وزیراعظم بن جانے اور ان کے ’وژن 2030‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک طریقہ کار طے کیا ہےواضح رہے دہائیوں سے سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے پیدا ہونے والی آمدنی پر رہا ہے لیکن اب شہزادہ محمد بن سلمان ’وژن 2030‘ کے ذریعے اس سے چھُٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔شہباز شریف کے پہلے وزارتِ اعظمیٰ کے دور میں بھی سعودی عرب پاکستان میں بڑا سرمایہ لگانے کے لیے تیار تھا لیکن پاکستانی حکومت کوئی پلان تشکیل نہ دیا ۔گذشتہ چند دہائیوں سے جب بھی پاکستان کو معاشی صورتحال کا سامنا ہوا تو نظریں سعودی عرب کی جانب اٹھیں اور سعودی عرب نے مایوس نہیں کیاشہباز شریف نے آخری بار اکتوبر 2022 میں بطور وزیراعظم اپنی پہلی مدت کے دوران سعودی عرب کا سفر کیا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے ولی عہد سے ملاقات کی اور سعودی فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو سمٹ میں بھی شرکت کی تھی۔ یاد رہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو سمٹ میں شرکت کررہے ہیں۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا تھا کہ عالمی معیشت کو درپیش خطرات کی روک تھام اور نئی راہیں تلاش کرنے کے لئے نئی سوچ اور جرأت مندانہ وژن کی ضرورت ہے۔ عالمی معیشت کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ معیشت کو درپیش مشکلات پر قابو پانے اور نئی راہیں تلاش کرنے کیلئے نئی سوچ اور جرأت مندانہ وژن اختیار کیا جائے۔
وزیراعظم نے کہا تھاکہ معیشتوں کو نقصان پہنچانے والی عالمی کساد بازاری سے معیشت کو لاحق خطرات بارے شدید خدشات ہیں ، وبا اور آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات نے پہلے ہی ترقی پذیر ممالک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ، وقت آ گیا ہے کہ دنیا بامقصد مذاکرات کے ذریعے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا حل تلاش کرے۔ سعودی فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو سمٹ 27 اکتوبر 2022 کو ریاض میں ہوئی تھی, جس میں ماہرین نے محسوس کیا تھا کہ شہری منصوبہ بندی پر فوری طورپر نظرثانی کی ضرورت ہے دنیا بھر میں شہری آبادیوں کو درپیش چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے تعمیراتی کمپنیوں، منصوبہ سازوں اور ڈویلپرز کو ماحولیات، ٹیکنالوجی اور انسانی بہبود کو ترجیح دیتے ہوئے نئے شہروں کے لیے روایتی ماڈل تبدیل کرنا ہوں گے۔موجودہ شہروں کو ان طریقوں سے تبدیل کرنا مشکل ہے جو ان کے کچھ بنیادی مسائل کو حل کر سکیں۔ نئےعلاقوں میں مزید سرسبزعلاقے، واکنگ ٹریکس اور ضرورت سے زیادہ استعمال کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجیز کو متعارف کرانا بھی ضروری ہے۔ انسانی تاریخ ہے کہ زمانہ قدیم میں بیشتر افراد دیہی علاقوں میں رہنے کو فوقیت دیتے رہے ہیں تاہم اب یہ رحجان تبدیل ہو رہا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق 2050 تک عالمی آبادی کے 9.7 بلین تک پہنچنے کی توقع ہے جس میں سے تقریباً 70 فیصد نفوس شہری علاقوں میں رہنا پسند کریں گے جس سے کرہ ارض اور کمیونٹیز پر دباؤ بڑھے گا۔اس بات پر غور کیا گیا کہ توانائی کی نئی شکلوں، ماحول دوست اور پائیدار طرز زندگی کے لیے بنیادی ڈھانچے کے قیام کے ذریعے آنے والی دہائیاں دستیاب رہائشی وسائل بدلنے کے لیے اہم ثابت ہوں گی۔ ‘2122 کے لیے شہروں کو ڈیزائن کرنا’ کے عنوان سے گفتگو میں وضاحت کی گئی تھی کہ بہت سے لوگ یہ سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں آبادی کا مقابلہ کیسے ہو گا جو کسی بھی طرح شہروں میں رہنے کی توقع رکھتی ہے۔