اسلام آباد(ٹی این ایس) اکیسویں ویں صدی کے ولی اللہ پیر سید چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رحمتہ اللہ

 
0
24

21 , ویں صدی کے ولی اللہ
پیر سید چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رحمتہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پھر تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ”
ربِ ذوالـــجلال کی انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت 21 ، ویں صدی کے ولی اللہ پیرزادہ سید محمد صدیق شاہ المعروف پیرسید چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رحمۃاللہ علیہ لاہور کا 21 ، ربیع الاول یومِ وصال ہے – آپ برصغیر کے نامور صوفی ، روحانی بزرگ حضرت سید عزیزالدین پیر مکی رحمۃاللہ علیہ لاہور کی اولادِ پاک سے ہیں اور آپکا شجرہ نسب دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام سے جا ملتا ہے – آپ نے عالم خواب میں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی – آپکا سلسلہ طریقت چشتی صابری ہے – یہاں پر میں سید صاحب کی بیعت کا واقعہ بیان کرتا چلوں کہ جب برصغیر کی تقسیم نہیں ہوئی تھی تو اپ اپنے مریدوں کے ساتھ اولیاء اللہ کے مزارات پر کشف حاصل کرنے کیلئے سیاحت کرتے تھے اُس زمانے میں مزارات پر قفل لگ جاتے تھے اپ اسی طرح جب حضرت معین الدین چشتی رحمۃاللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضر ہوۓ تو مزار کو بند پایا – آپ نے وجدانی کیفیت میں صاحبِ مزار کو پُکارا اسی وجدانی حالت میں آپ بند دروازے سے مزار کے اندر چلے گئے – اور رات مزار کے اندر ہی قیام کیا اور بیعت بھی کرلی –


نماز فجر کے بعد جب پہرے دار نے مزار شریف کا دروازہ کھولا تو آپ مزار کے اندر قیام فرما تھے – مزار مبارک کاپہریدار حیران ہوگیا کہ یہ ماجرا کیا ہے
پھر حضرت صاحب کے مریدوں نے سارا واقعہ بیان کیا – حضرت سید پیر چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رحمۃاللہ علیہ کے مریدوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جن میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور سکھ بھی شامل تھے – ہندو اور سکھ مرید ، عقیدت مند آپکو “باوا صاحب” پکارتے تھے – حضرت صاحب نے تا حیات کبھی کسی مرید ، عقیدت مند سے نزرانہ قبول نہیں کیا تھا جوکہ اکثر نام نہاد پیروں کا پیشہ ہے – آپ فرماتے تھے کہ “سید کا کام ہے تقسیم کرنا مانگنا نہیں ہے” اسلئے آپ نے اپنا پیشہ “حکمت” کو بنایا اور حکیم حاذق کا خطاب حاصل کیا –
حضرت صاحب ساری زندگی رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں رہے – آپ اپنی اولادِ سے فرمایا کرتے کہ اگر میں چاہوں تو تمہیں سونے کے محل بنا کر دے سکتا ہوں مگر اس فانی دنیا کیلئے میں تمہیں دین محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھلبیت علیہ السلام کی محبت دے کر جا رہا ہوں اور دنیا تم نے خود اپنی بنانی ہے –
پیر صاحب نے تمام زندگی شریعت اور طریقت پر عمل پیرا ہو کر گزاری – آپ تقویم ، علم جفر، علم الاعداد اور روحانی و طبی علوم کے ماہر تھے – آپ نے اپنی زندگی میں ہمیشہ سفید لباس پہنا اور ہاتھ میں پتھر کی بنی ہوئی چھڑی پکڑتے تھے – الکوحل سے پاک عطر استعمال کرتے تھے – پیر صاحب کے سر کے بال مکمل طور پر وصالِ ہونے تک کالے تھے اور آنکھیں عینک سے محفوظ تھیں – اخبار بینی، کتاب بینی کا بے حد شوق رکھتے تھے – سادہ خوراک استعمال کرتے تھے بکرے کا گوشت مرغوب غذا تھی سارا دن میں صرف دو روٹیاں کھاتے تھے – موسم کے لحاظ سے پھل ، میوہ جات اور دودھ کا کثرت سے استعمال کرتے تھے – چند گھنٹے اپنی حکمت کی دکان پر رزق کما کر اپنے آستانہ پر آ جاتے اور پھر لوگوں کی خدمت خلق کے ساتھ اپنے پروردگار عالم کی عبادت میں گزارتے تھے – پیر صاحب اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی جب شیرخوار تھے تو والدہ محترمہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں – پھر آپکی پرورش آپکی خالہ نے کی – آپکے دودھ شریک بھائی پیر سید محمد شفیع مظہری لائلپور موجودہ فیصل آباد گوبند پورہ موجودہ محمد پورہ میں رہائش پذیر تھے اور ہر سال انکے آستانہ پر قوالی کی محفل ہوتی تھی اور اس زمانے کے مشہور قوال فتح علی مبارک علی قوالی کرتے تھے ایک سال فتح علی خان قوال کے ساتھ انکے بیٹے پرویز نے بھی شرکت کی – یہ بات یا واقعہ بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل کرنے والے قوال نصرت فتح علی خان کا بیان کر رہا ہوں – قوالی کے موقع پر جب دستار بندی کی تقریب ہوئی تو فتح علی خان قوال نے حضرت سید پیر چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رح لاھور سے عرض کیا کہ سرکار میرا بیٹا پرویز ہے اسکی آواز بہت باریک ہے اسکے لئے دعا فرمائیں – اس وقت پیر صاحب نے فرمایا کہ پرویز کا نام بدل دو تمہارا نام فتح ہے اس کا نام نصرت رکھ دو ہر طرف فتح ہی فتح ہوگی – سید صاحب نے یہ بات وجدانی کیفیت میں کہی تھی اور پروردگارعالم نے ہر طرف نصرت ہی نصرت کر دی –
پیر صاحب نےدوسرے پیروں کی طرح نمود و نمائش اور شعبدے بازی سے زندگی نہیں گزاری بلکہ شریعت اور طریقت کے مطابق زندگی بسر کی – آپ عالم باعمل ، عالم با کمال ، صوفی با صفا اور پیر کامل تھے – اہلبیت علیہ السلام سے گہری عقیدت اور محبت رکھتے تھے – نعت اور قوالی کو بہت پسند فرماتے تھے –
یکم محرم الحرام سے 8،ربیع الاول تک خوشی کی کوئی تقریب میں شرکت نہیں کرتے تھے اور اہلبیت علیہ السلام کے سوگ میں غمگین رہتے تھے اور اپنا زیادہ تر وقت عبادت میں گزارتے تھے -حضرت سید پیر چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رحمۃ اللہ علیہ اکیسویں صدی کے ولی کامل تھے آپ نے 19،ستمبر 1992ء بمطابق 21 ، ربیع الاول کو اس فانی دنیا سے پردہ فرمایا – آپ کا مزار اقدس چشت نگر بالمقابل یادگار شہیداں مناواں لاھور پر واقع ہے
آپکے مزار مبارک پرایک دوسرے مسلک کے گروہ نے قبضہ کر رکھا ہے حضرت سید پیر چشتی اولیاء سخی سرکار مکی رحمۃاللہ علیہ کا مسلک اہلسنت وال جماعت ہے – آپکا عرس مبارک بھی غلط تاریخ پر منایا جاتا ہے – قانونی کارروائی جاری ہے انشاءاللہ جلد مزار شریف کا قبضہ واگزار کروایا جاۓ گا –