بجٹ سے آئی ایم ایف خوش نہ ہوتا تو فون آ جاتا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار

 
0
87

 وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کریگا، جو لوگ یہ” ڈیفالٹ ”ڈیفالٹ ”کی رٹ لگاتے ہیں وہ خود ذمے دار ہیں، میں یہ نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن بنیادی طور پر انہوں نے اس سسٹم میں غلطیاں کی ہیں اور ایسی گھناؤنی غلطیاں کی ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہاں کھڑے ہیں۔آئی ایم ایف کے حوالے سے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ابھی 30 جون تک آئی ایم ایف کی بات رہنے دیں لیکن اگر آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو مجھے فون آ جاتا۔ وزیر خزانہ نے راقم الحروف کے سوال ” کیا عوام کی طرح آئی ایم بجٹ سے خوش ھے? کیو نکہ آئی ایم ایف کی تقریبا ساری شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں”.جس پر وزیر خزانہ گویا ہوئے کہ” آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو مجھے فون آ جاتا”وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولے” اگر میڈیم کو فون آیا تو علم نہیں.” پیٹرول پر سبسڈی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے 800 سی سی سے زائد گاڑیوں پر 50 روپے فی لیٹر زائد چارج کرنے اور یہ پچاس روپے 800 سی سی سے کم گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کو سبسڈی دینے پر کام کیا، تکنیکی طور پر اس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی اس پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور یہ معاملہ تعطل کا شکار ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ تو صارف کوپہنچ رہا ہے لیکن اس سے کرایوں میں کمی سمیت دیگر فوائد عوام تک نہیں پہنچ رہے، اس کے حوالے سے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے 4 ارب ڈالر فائنانسنگ کا بندوبست کر لیا تھا، آئی ایم ایف مزید دو ارب ڈالر کی فائنانسنگ کا بندوبست کرنے کا کہہ رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے ختم ہونے والے مالی سال میں ادائیگیوں کا ہر وعدہ پورا کیا ، ساڑھے پانچ بلین ڈالر کمرشل بینکوں کو واپس کیے ، فروری میں نواں ریویو مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔اس سے قبل پوسٹ بجٹ پریس بریفینگ کے آغازپروزیرخزانہ نے سورة الشرح {اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ: } کی خوبصورت آواز میں تلاوت کرکے حاضرین کوورطہ حیرت میں ڈال دیا اور بجٹ کے بارے میڈیا پر افواوں کا ایک ایک کرکے تفصیل سے جواب دیاانہوں نے کہا ہے کہ کل سے ٹی وی پر ٹکرز چل رہے ہیں کہ دودھ پر 9فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے لیکن میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایسا کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، پیکٹ والے دودھ پر 9فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز زیر غور تھی لیکن یہ ہم نے صرف اسے لیے کیا کیونکہ ہمیں پتا تھا کہ پھر گوالوں نے بھی قیمتیں 10، 10 فیصد بڑھا دینی ہیں لہٰذا میں واضح کرتا چلوں کہ دودھ پر کوئی بھی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ مجموعی ٹیکس محصولات کا ہدف 9200 ارب روپے ہے، یہ ہدف نمو اور افراط زر کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہے، بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے، جو 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکس کا اندازہ ہے وہ معیشت کو دستاویزی بنانے کے عمل سے حاصل ہوں گے، اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے البتہ نان فائلر پر پچاس ہزارروپے سے زیادہ کی رقم نکلوانے پر 0.06 فیصد کی سطح سے ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما نے وضاحت کی کہ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح میں اضافے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ریسٹورنٹس میں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر سیلز ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کر دی گئی ہے۔ مجموعی زرتلافی کا حجم 1074 ارب روپے ہے جس میں سے 900 ارب روپے بجلی کے شعبے کیلئے ہے، بجلی کے شعبے میں مزید محنت کی ضرورت ہے۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ یہ پوچھا جا رہا ہے کہ اتنا بڑا 2 ہزار 693ارب روپے کا نان ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو جائے گا تو میں بتا دوں کہ ایسا بالکل ہو سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اسٹیٹ بینک کا 1113ارب روپے منافع کا تخمینہ ہے، دوسرا اہم آئٹم پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی ہے جو 869ارب روپے ہے تو ان دونوں کے ملا کر ہی 2ہزار ارب ہو جاتے ہیں۔ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ یہ خبر چل رہی ہے کہ کھانے کے تیل پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے لیکن میں واضح کردوں کہ یہ ختم نہیں کیا گیا ہے، جو تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو ہم نے انڈسٹری سے کہا ہے کہ اس کا فائدہ عوام کو منتقل کیا جائے لیکن ہم نے اس کو ختم نہیں کیا ہے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ اگر ان دونوں چیزوں میں کسی کو شکایات ہیں تو وہ ان کمیٹیوں سے رجوع کر سکتا ہے تاکہ ہم ان کے تحفظات کو بھی دور کر سکیں۔مجموعی وفاقی ریونیو 12ہزار 163ارب کا اس بجٹ میں پیش کیا گیا، ایف بی آر کی کلیکشن 9ہزار 200 اور نان ٹیکس ریونیو 2 ہزار 963 ہے۔ اس میں اسٹیٹ بینک کا منافع 1113 ارب روپے ہے، صوبوں کو منتقلی کے بعد مجموعی وفاقی ریونیو 6 ہزار 887 ارب روپے ہے جبکہ اس ریونیو کے مقابلے میں کُل خرچہ 14ہزار 463 ہے، اس میں کرنٹ خرچہ 13ہزار 320 ہے جس میں مارک اپ کی 7ہزار 300 کی بڑی رقم ہے، دفاع کے 1804 ارب روپے ہیں، ایمرجنسی اور دیگر کے لیے 200ارب ہیں، گرانٹس کے لیے 1464 ارب روپے ہیں، سبسڈیز 1074ارب کی ہیں۔ وفاقی خسارہ 7ہزار 573 (منفی 7.2فیصد) ہے اور صوبائی سرپلس کے بعد 6ہزار 923 ہے جو 6.54 فیصد بنتا ہے، مجموعی پرائمری 380ارب روپے رکھا گیا ہے اور جی ڈی پی کا 0.4فیصد حصہ بنتا ہے۔اسحٰق ڈار
کا کہنا تھا کہ جب میں نے 18-2017 کا بجٹ پیش کیا تھا تو پی ایس ڈی پی ایک ہزار ٹریلین تھا اور جو پچھلے سال 567ارب تھا، اس کے بعد پہلی مرتبہ ایک نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اور ہم نے 1150ارب روپے اس مرتبہ مختص کیے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کی گئی رقم کی تفصیلات بتاتے ہوئے اسحٰق ڈار نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں اہم انفرااسٹرکچر کے لیے 491.3ارب روپے ہے، سماجی شعبے کے لیے 241.2ارب روپے ہے، ہائر ایجوکیشن کے لیے 82ارب روپے ہے، ایس ڈی جی کے 90ارب روپے ہیں، دیگر سماجی شعبے کے لیے 46ارب روپے ہیں، ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے لیے 263ارب روپے ہیں، پانی کے لیے 100ارب روپے ہیں، فزیکل پلاننگ اور ہاؤسنگ کے لیے 42ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے پی ایس ڈی پی پر صحیح طریقے سے عمل کر لیا اور اس کو شفافیت کے ساتھ اس میں سرمایہ کاری کی تو ہم اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے اور ساڑھے تین فیصد کی شرح نمو حاصل کر سکیں گے اور آئی ایم ایف نے بھی ہماری شرح نمو کا یہی تخمینہ لگایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مالی سال کے میکرو اکنامک اشاریوں کی بات کی جائے تو قومی ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح 21فیصد رہنے کا امکان ہے، جی ڈی پی کے مقابلے میں ریونیو کا تخمینہ 8.7فیصد لگایا گیا ہے، مجموعی خسارہ 6.54فیصد ہے، پرائمری بیلنس 0.4فیصد ہے، جی ڈی پی کے مقابلے میں عوامی قرضہ 66.5فیصد ہے۔ یہ قرضہ بہت اہمیت کا حامل ہے جسے ہم نے 2017 میں 63فیصد پر چھوڑا تھا، اس کے بعد یہ 74 کے قریب پہنچا تھا اور اس کے بعد یہ دوبارہ 66فیصد پر واپس آرہا ہے، تو یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اسحٰق ڈارکا کہنا تھا کہ ہم نے شرح سود کو جون 2018 میں شرح سود کو ساڑھے 6 فیصد پر چھوڑا تھا جو اب 21 فیصد پر ہے، ایک طرف قرضے دوگنے ہو گئے اور دوسری طرف شرح سود بھی ساڑھے 3 گنا بڑھ گیا ہے، اسی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کی رقم اس سال ہمارے بجٹ میں سب سے زیادہ ہے، اللہ کرے کہ ہم اسے کم کر سکیں اور یہ حقیقی نمبر پر آئے کیونکہ ہر ایک فیصد سے ہمیں 250 سے 300 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ ہم نے روایتی بجٹ سے ہٹ کر بنایا ہے، ہمیں کہیں سے آغاز کرنا ہو گا، جب شرح نمو ہو گی، معیشت کا پہیہ چلے گا، لوگوں کو روزگار ملے گا تو میکرو اکنامک اشاریے ٹھیک ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی کم ہونا شروع ہو گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، پالیسی ریٹ نیچے آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ہم 2017 کے میکرو اکنامک اشاریوں پر واپس جا سکیں، جب ہم وہ حاصل کر لیں گے تو پھر ہمارے پاس دوسرا ہدف ہو گا کہ ہم وہ مقام حاصل کر سکیں کہ جی20 ممالک کا حصہ بن سکیں، جوہری طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو خود کو معاشی طاقت بھی بنانا چاہیے، مسلم لیگ(ن) کا خاص طور پر یہی ہدف ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمارا بحران بہت شدید تھا جس سے ہم نکلنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور استحکام آ گیا ہے ، مزید تباہی اور گراوٹ رک گئی ہے، اب ہمیں اسے مثبت انداز میں آگے کی جانب لے کر جانا ہے، الیکشن کے بعد بھی جو نتائج آئیں گے تو اس کے لیے ہمارا ہدف یہی ہونا چاہیے کہ ہمیں ایسے دوبارہ ترقی کی طرف لے کر جانا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں زرعی شعبے پر توجہ دینی ہے، کوئی اس سے اختلاف نہیں کرتا کہ سب سے جلدی فائدہ زرعی شعبے سے ملتا ہے، اس کے بعد انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ ہے جس میں بے انتہا صلاحیت ہے اور پڑوسی ملک میں اربوں ڈالر کی درآمدات ہو رہی ہیں، تو ان کے لیے بھی ہم نے سہولت متعارف کرائی ہیں۔ نئے کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے جن لوگوں کی آمدنی 24ہزار ڈالر سالانہ ہو گی ان کو سیلز ٹیکس سے استثنی ہو گا اور جن لوگوں کی فارمیشن ٹیکنالوجی میں برآمدات سے سالانہ آمدن 50ہزار ڈالر ہو گی ان کو ایک فیصد رقم سے ڈیوٹی فری سامان منگوانے کی اجازت ہو گی۔ وزیر خزانہ نے زرعی شعبے میں بیجوں کے شعبے پر خصوصی توجہ دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے مقابلے میں کئی ملکوں کی اسی رقبے میں کاشت دوگنا ہے، مشرقی پنجاب میں اتنے ہی رقبے میں ہمارے پنجاب کی نسبت دوگنی کاشت ہوتی ہے، تو اس کی وجہ صرف بیج ہیں جس پر ہمیں خاص توجہ دینی ہو گی کیونکہ ایسا کرنے سے ہمارا غذائی تحفظ کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور اسی لیے ہم نے بیچوں کی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کردی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ملک کے ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر بات چیت جاری ہے، ہماری اس سلسلے میں آئی ایف سی سے بات چیت جاری ہے، وہ پروفیشنل ہیں اور کئی ملکوں میں یہ کام کر چکے ہیں، اس سے ہمارے ایئرپورٹس پر سہولت اور سرگرمیاں کافی بہتر نظر آئیں گی، اس وقت ہیتھرو ایئرپورت سمیت کئی ممالک کے ہوائی اڈے آؤٹ سورس ہیں، 12 ممالک سے کمپنیاں اس تمام مرحلے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور جولائی میں پہلے ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کرنے کے لیے بولی لگانے کا عمل شروع کیا جائے۔پیٹرول پر سبسڈی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے 800 سی سی سے زائد گاڑیوں پر 50 روپے فی لیٹر زائد چارج کرنے اور یہ پچاس روپے 800 سی سی سے کم گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کو سبسڈی دینے پر کام کیا، تکنیکی طور پر اس کا بجٹ سے کوئی تعلق نہیں تاہم ابھی اس پر حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور یہ معاملہ تعطل کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ تو صارف کوپہنچ رہا ہے لیکن اس سے کرایوں میں کمی سمیت دیگر فوائد عوام تک نہیں پہنچ رہے، اس کے حوالے سے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائیں۔ پیرس کلب ری شیڈولنگ کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کا ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے، عالمی اداروں کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی طرف نہیں جا رہے ، ہم قرضوں کی بروقت ادائیگی کریں گے اور میرا نہیں خیال کہ یہ مناسب ہو گا کہ ہم انہیں کہیں کہ ہم رقم ادا نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ جن ملکوں سے دوطرفہ تعلقات ہیں، ان سے لیے گئے قرضوں کا تعلق ہے تو اس میں طویل مدت تک کے لیے بات چیت ہو سکتی ہے اور ان کی ری شیڈولنگ پر بات کی جا سکتی ہے، اس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے، بجٹ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہم اس بارے میں دوست ملکوں سے بات کریں گے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے، زرعی قرض کے لیے 2250 ارب روپے رکھے ہیں، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر رہے ہیں، ملک میں زرعی انقلاب لائیں گے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایس ایم ایز کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر اسکیم تیار کی جا رہی ہے، بزنس اور زراعت کے قرضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، زراعت کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات سے فوڈ سکیورٹی بڑھےگی، ایگرو زرعی ایس ایم ایز کو سستے قرض فراہم کریں گے، وزیراعظم کےکسان پیکج کے بعدگندم کی پیداوار میں کافی فرق نظر آیا، زرعی ٹیوب ویلز کو سولر پر شفٹ کرنا ضروری ہے، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پرکرنےکے لیے 30 ارب روپے رکھے ہیں۔

اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سولر پاور کو سستا کرنے کے اقدامات کیے ہیں، آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کے لیے 35ارب روپے بجٹ میں مختص کیے ہیں، آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کی سہولت یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہوگی، پاکستان میں یوریا کھاد کی قیمت عالمی مارکیٹ سے کم ہے، ملک میں یوریا کی مقامی پیداوار بڑھانےکے لیے اقدامات کر رہے ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو سستے قرض فراہم کریں گے، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی شروع کریں گے، ترسیلات زر بڑھانےکے لیے نئے اقدامات کریں گے۔انہوں نے وضاحت کی کہ دودھ پر 9 فیصد ٹیکس لگانےکی بات درست نہیں، ملک میں 90 فیصدکھلا دودھ بکتا ہے، صرف تجاویز تھی کہ ڈبے کے دودھ پر ٹیکس لگایا جائے، واضح کرنا چاہوں گا دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا، سابق فاٹا اور پاٹا کے لیے مراعات میں ایک سال کی توسیع کی گئی ہے، پیٹرولیم لیوی سے 869 ارب روپے حاصل ہوں گے، ایف بی آر کا ٹیکس ہدف بھی حاصل ہو جائےگا، افراط زر اور شرح نمو سے 1800 ارب روپے حاصل ہو جائیں گے، صرف 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات لیے ہیں، پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر سے نہیں بڑھائی گئی، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے رکھےگئے ہیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ 1 سے 16 گریڈ کے ملازمین کو 35 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، گریڈ 17 سے اوپر والوں کو 30 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، وفاقی دارالحکومت میں کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کر دی گئی ہے، بیواؤں کے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض حکومت ادا کرےگی، 50 ہزار تک کیش نکلوانے پر سابق حکومت نے 0.6 فیصد ٹیکس ختم کیا جو کہ نہیں ختم کرنا چاہیے تھا، سالانہ 24 ہزار ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، سالانہ 50 ہزار ڈالر بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات دی جائیں گی، ان کے لیے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جائےگا۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کل 1074ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے، اس میں 900 ارب روپے صرف پاور سیکٹر کے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں بڑے مسائل سبسڈی کے ہی تھے، خوردنی تیل درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کرنےکی بات درست نہیں، انڈسٹری میں ونڈ فال منافع ہوتا ہے تو اس پر ٹیکس عائد کیا ہے، سپر ٹیکس بھی سوچ سمجھ کر لایا گیا، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ بجلی سبسڈی پر اتفاق ہوگیا ہے، قومی بچت پر شریعہ کے مطابق بچت اسکیم یکم جولائی سے لاگو ہوگی، 9200 ارب روپےکا ٹیکس ہدف حساب کتاب سے رکھا ہے، ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر ٹیکس 5 فیصد کردیا گیا ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 1 لاکھ ڈالر تک لانے کی ایمنسٹی اسکیم نہیں دی، اسی اسکیم کو 5 سال پرانی سطح پر لےکر آئے ہیں،کچھ لوگوں نےکہا ہم نے زیادہ سبسڈی دے دی ہے، پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا، اپنے پاؤں پر کھڑے ہونےکے لیے پلان بی ہوتا ہے، ڈیفالٹ کی رٹ لگانے والے خود ذمہ دار ہیں، ائیر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنے پرکام کر رہے ہیں، بجلی کے سیکٹر میں فوری اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، کم سے کم اجرت پر عمل نہ کرنے والے اداروں کی شکایات حکومت کو بھیجیں کارروائی کریں گے، بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے تحفظات دور کرنے کے لیے ایف بی آر کی 2 کمٹیاں بنارہے ہیں، بجلی کا ٹیرف اوسط بنیاد پر ہونا چاہیے، نجکاری پروگرام میں ڈسکوز کو دیکھا جا رہا ہے، ائیر پورٹس کی نجکاری کے لیےکام جاری ہے، جولائی میں پہلے ائیر پورٹ کی آؤٹ سورسنگ کا اشتہار دینےکا ارادہ ہے، یورپین یونین جی ایس پی پلس میں توسیع دے گا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائے گی، آبادی کی شرح 3.6 فیصد پہنچنے پر شدید تحفظات ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی اجلاس ہو رہے ہیں، ہم علماء سے مل کر آبادی کے مسئلے کا حل نکالنےکی کوشش کر رہے ہیں، ملک میں غذائی قلت میں کمی کے لیے حکومت اقدامات کرےگی، بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مردم شماری کے نمبرز کچھ زیادہ رپورٹ ہوئے، حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، دفاعی بجٹ ایک حقیقت پسندانہ بجٹ ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 1.7فیصد ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کارپوریشن کے ملازمین کی پنشن کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی نہیں، جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا، قرض کی وقت پر ادائیگی کی جائےگی، آپ ٹھکیدار لائیں جو 12 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کر دے، ہم ایف بی آر کی جگہ ان کو ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکہ دے دیں گے اور ایف بی آر کو چھٹی پر بھیج دیں گے۔حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں 223 ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات کا اعلان کیا ہے تاہم فروری کے وسط میں متعارف کروائے گئے منی بجٹ میں شامل تمام ٹیکسز کو برقرار رکھاہے۔