اسلام آباد (ارمان یوسف )سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی 26ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گئی ،آئینی ترمیم کے بل پر دستخط کیلئے آج ایوان صدر میں خصوصی تقریب ہو گی ،ایوان بالا اور قومی اسمبلی اجلاس میں26ویں آئینی ترمیم میں شامل تمام شقوں کی الگ الگ منظوری لی گئی ، سینیٹ میں ترمیم پیش کرنیکی تحریک کے حق میں 65اور مخالفت میں 4ووٹ پڑے ، قومی اسمبلی میں ترمیم کے حق میں 225، مخالفت میں 12ووٹ پڑے ، پی ٹی آئی نے دونوں ایوانوں میں جے یو آئی ف کی شقوں کی مخالفت نہیں کی جبکہ دیگر شقوں پر ووٹنگ کے دوران دونوں ایوانوں سے واک آئوٹ کیا،عدلیہ سے ستائے نواز شریف نے قومی اسمبلی اجلاس میں شعرکہہ دیا ،چیئر مین پی پی نے کہا کہ آئین کیلئے کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدلیہ تھی ،آئینی ترمیم اپوزیشن کی بھی سیاسی کامیابی ہے ،اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ آئینی ترمیم آزاد عدلیہ کا گلا گھوٹنے ، ووٹ کو عزت دو سے بوٹ کو عزت دو کا سفر ہے،مولانا فضل رحمان نے کہا کہ شخصیات کی لڑائی ہے ،ایک جج سے حکمران پارٹی، دوسرے سے حزب اختلاف گھبرا رہی ہے، بیرسٹر گوہر نے کہا کہ آج کا دن پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی 26آئینی ترمیم کی تمام 27 شقوں کی شق وار منظوری دیدی، حکومت دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئی۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ابتداعی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تاہم بعد میں اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر چلی گئے۔ایوان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے تاہم ترمیم پر شق وار منظوری کے دوران 225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ کیا۔26 ویں آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی میں شق وار منظوری کیلئے ووٹنگ کروائی گئی۔سینیٹ کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کی قومی اسمبلی سے شق وار منظوری کیلئے آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے پیش کی۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران آئینی ترمیم پیش کرنے کی تحریک پر ارکان کھڑے ہوکر ووٹ کیا، ترمیم پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 225 ارکان نے ووٹ دیے جبکہ 12 ارکان اسمبلی نے ترمیم پیش کرنے کی مخالفت کی۔قومی اسمبلی میں چوہدری الیاس، عثمان علی، مبارک زیب، ظہورقریشی اورنگزیب کھچی سمیت 5 آزاد اراکین ایوان میں پہنچ گئے تھے۔ پانچوں ارکان پی ٹی آئی کی حمایت سے انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے۔اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی، اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے بہت سارے نکات پر عمل ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ بازو دبا کے 19 ویں ترمیم کروائی گئی، ہم نے 8 صفر سے کچھ تعیناتیاں ریجیکٹ کی گئی، ہماری سفارشات کو پرے پھینکا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم میں وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری سمیت سب نے کام کیا، خورشید شاہ نے خصوصی کمیٹی کی سربراہی کی، میں تمام اتحادیوں کا شکریہ ادا کروں گا، مولانا فضل الرحمن کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔اجلاس کے دوران مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی میں پہنچے جہاں انہوں نے نواز شریف سے مصافحہ کیا۔وزیر قانون نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تین سینئر موسٹ ججز میں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی نامزدگی کرے گی، کچھ ترامیم جے یو آئی کی طرف سے پیش کی گئیں، ان ترامیم کو حکومتی اتحاد نے سینیٹ میں سپورٹ کیا، آرٹیکل 81 میں کچھ ترامیم کی گئیں۔اعظم نذیر نے کہا کہ تین3موسٹ ججزمیں سے پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی نامزدگی کریگی، کچھ ترامیم جے یو آئی کی طرف سے پیش کی گئیں، ان ترامیم کو حکومتی اتحاد نے سینیٹ میں سپورٹ کیا، آرٹیکل81میں کچھ ترامیم کی گئیں۔ وزیر قانون کی جانب سے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔
بعد ازاں اسپیکر ایازصادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کااجلاس دوبارہ شروع ہوا، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں سب سے زیادہ کردار فضل الرحمن کا ہے، سیاست میں آصف زرداری کے بعد مولانا فضل الرحمن کو مانتا ہوں، مولانا فضل الرحمن کا اہم کردار ہے یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بل میں سب سے زیادہ میری محنت نہیں، مولانا فضل الرحمن کی ہے، میثاق جمہوریت پر محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے، بے شک اپوزیشن اس بل کو ووٹ نہ دیں یہ ان کا حق ہے، ہمارے بھائی ووٹ دیں یا نہیں ان کی بھی سیاسی کامیابی ہے، 18 ویں ترمیم کے وقت آئین سے آمر کے کالے قوانین نکالے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ بیشک اپوزیشن اس بل کو ووٹ نہ دیں یہ ان کا حق ہے، ہمارے بھائی ووٹ دیں یا نہیں ان کی بھی سیاسی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں وفاق کے وسائل صوبوں کے ساتھ شیئر کیے گئے، اس طرح آج عدالت کے اختیارات کو بھی برابری کی سطح پر لارہے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کیا تاریخ کیا ہے، اس طرح آج عدالت کے اختیارات کو بھی برابری کی سطح پر لارہے ہیں، ہماری عدالت کا جمہوریت، آئین کا تحفظ اور آمریت کا راستہ روکنا تھا، ڈکٹیٹرشپ کی کامیابی میں صف اول کا کردار تو عدالت کارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جنرل(ر)مشرف نے ملک پر راج کیا تو ان کو اجازت عدالت نے دی، یونیفارم میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت بھی عدالت نے دی، ڈکٹیٹرشپ کی کامیابی میں صف اول کا کردار تو عدالت کا رہا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اپوزیشن کے دوست کالے سانپ کی بات کررہے ہیں، میری نظر میں اس آئین کے لیے کالا سانپ افتخار چوہدری والا لعنت ہے، آپ ہماری وزیر اعظم کو انصاف نہ دلا سکے، ہم نے عدم اعتماد کو جائز طریقہ سمجھا، عدالت غیر آئینی طریقے سے ہم سے اختیار چھینتی ہے، قائد اعظم محمد علی جناح نے آئینی عدالت کی بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے عدم اعتماد کو جائز طریقہ سمجھا، عدالت غیر آئینی طریقے سے ہم سے اختیار چھینتی ہے، ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر فارغ کردیا گیا، کالے سانپ نے ایک نہیں کئی وزرائے اعظم کو فارغ کرایا، جسٹس دراب پٹیل پی سی او کا حلف لیتا تو چیف جسٹس بنتا، جسٹس دراب پٹیل نے بھی آئینی عدالت کی تجویز دی۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے کہا کہ عدالتی اصلاحات ہونی چاہیں تو افتخار چوہدری نے اٹھارویں ترمیم پھینک دی، آئینی عدالت کی سوچ آج کی نہیں بلکہ یہ بحث قائد اعظم محمد علی جناح سے شروع ہوئی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے مطالبے پر آئینی عدالت چھوڑ کر آئینی بینچ بنانے جارہے ہیں، افتخار چوہدری کی بلیک میلنگ میں 19 ویں ترمیم منظور کی گئی، آئینی عدالت کی سوچ آج کی نہیں بلکہ یہ بحث قائد اعظم محمد علی جناح سے شروع ہوئی، 2022 میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بھی آئینی عدالت کی حمایت کی گئی۔انہوں نے کہا کہ رضار بانی نے اسی کانفرنس میں کہاکہ آئینی عدالت نہیں تو آئینی بینچ دیاجائے، قائداعظم کے دور سے جو سوچ چلی آرہی ہے ہم وہ آج پوری کرنے جارہے ہیں، پوری دنیا میں ایسی مثال نہیں کہ جج جج کو لگائے اور ہٹائے، کہتے ہیں پارلیمان کون ہوتا ہے، ہم عوام کے نمائندے ہیں، 1964 میں بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں، ان سے برداشت نہیں ہورہا تھا کہ بینظیر جج کی تعیناتی کرے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ اختیار وزیر اعظم سے چوری کرکے جیب میں رکھا، آئین کے چیمپئنز نے مشرف کے دور میں حلف لیا۔
قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ یہ ووٹ کو عزت دو سے بوٹ کو عزت دو کا سفر ہے، آپ ایک ارب سے تین ارب فی ایم این اے کا فقرہ بولتے، آپ نامعلوم لوگوں کا شکریہ بھی دا کرتے، آپ ان لوگوں کے ڈالوں کا بھی شکریہ ادا کرتے۔انہوں نے کہا کہ یہ پورا پراسس بدبودار پراسس ہے، آپ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں، یہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ یہاں بیٹھی ہے، آپ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں یہ حکومت چوری شدہ مینڈیٹ کے ساتھ یہاں بیٹھی ہے، یہ اسمبلی ترمیم کا مینڈیٹ نہیں رکھتی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام فارم 47 کی حکومت کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے، آئینی ترمیم کے ذریعے یہ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں، یہ اسمبلی ترمیم کا مینڈیٹ نہیں رکھتی، پاکستانی عوام فارم 47 کی حکومت کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتے، آئینی ترمیم کے ذریعے یہ آزاد عدلیہ کو ختم کرنے جارہے ہیں، ہمارے 5 لوگوں کو زد و کوب کرکے رکھا گیا ان کا بھی شکریہ ادا کرتے۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ خصوصی کمیٹی کا غلط استعمال کیا گیا، آئینی ترمیم کا مسودہ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف میں جانا چاہیے تھا، کیا جلدی تھی کہ رات کو اس وقت اجلاس ہورہا ہے، خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر قانون کو مسودے کا پتہ نہیں ہوتا تھا، مبارک زیب یہاں پر بیٹھا ہوا اس کا بھائی پی ٹی آئی کا ورکر تھا، ظہور قریشی کو یہاں لایا گیا، زین قریشی، مقداد حسین کو غائب کیا گیا ، عادل بازئی کا پلازہ مسمار کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو نامعلوم کالز آتی ہیں اور دھمکایا جاتا ہے
اسپیکر ایازصادق اور اپوزیشن لیدر عمرایوب میں تکرار ہوئی، اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ صرف آئینی ترمیم پر بات کریں، عمرایوب نے کہا کہ بات کرنا ہمارا حق ہے روکنا برداشت نہیں کریں گے، آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے، کے پی ہاس پر کس قانون کے تحت پولیس آئی، آپ نے وفاق کو کمزور کردیا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا، اس ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکہ 1958 میں پڑا، پاکستان میں 1958 میں پہلا آئینی حادثہ ہوا۔خواجہ آصف نے کہا کہ آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، آئین کی بات کرنے والوں کو تاریخ پر نظر ڈالنی چاہیے، سیاستدانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی باعزت طریقے سے ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کا واحد مقصد اس ایوان کے وقار اور عظمت کو بحال کرنا ہے، جسٹس فائز عیسی واحد ہیں جنہوں نے عدلیہ کی عزت بحال کی، سیاستدانوں نے بہت سی قربانیاں دی ہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کا واحد مقصد اس ایوان کے وقار اور عظمت کو بحال کرنا ہے، جسٹس فائز عیسی واحد ہیں جنہوں نے عدلیہ کی عزت بحال کی، 26ویں آئینی ترمیم کو سینیٹ نے منظور کرلیا، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنارہے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور مولانافضل الرحمان کیبھی میثاق جمہوریت پردستخط ہیں، اس ایوان کی تمام پارٹیوں کے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں، عدلیہ میں 26 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا، اتنا آزاد نہیں کرنا چاہیے تھا کہ وہ ہماری آزادی چھین لیں، قید سیاستدان کاٹیں، شہید سیاستدان ہوں، احتساب بھی سیاستدان بھگتیں، ہم اس آئینی ترمیم کے ذریعے ایوان کو بااختیار بنارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن کے بھی میثاق جمہوریت پردستخط ہیں، اس ایوان کی تمام پارٹیوں کے میثاق جمہوریت پر دستخط ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں 26 لاکھ کیسز زیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا۔خواجہ آصف نے کہا کہ ترمیم سے17لوگوں سیغیرآئینی طاقت لیکر24کروڑکینمائندوں کومنتقل کررہیہیں، کیا ایسا ہوسکتا ہے 8 لوگ بیٹھ کر پارلیمان کو یرغمال بنالیں، اداروں کی عزت ان میں بیٹھے شخصیات سے ہوتی ہے، آج عدلیہ کو ڈرائی کلین کیا جارہا ہے تو اس کی بھی وجہ ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا بھی تذکرہ تھا، میثاق جمہوریت مشکل میں رہنمائی کے لیے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین مقدم ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے، میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی مدت ملازمت میں اضافہ کردیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ جب بات آئین کی آئے تو ہم سب کی نظر میں اس کی حیثیت میثاق ملی کی ہے، آج کی آئینی ترامیم پیش کرنے پر بلاول بھٹو کو بھرپور خراج تحسین پیش کرتا ہوں، میاں نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ان کاوشوں میں میرے ساتھ تحریک انصاف بھی شامل رہی۔انہوں نے کہا ماضی میں جب نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر آواز اٹھائی، تو میں آج بانی پی ٹی آئی عمران خان پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کروں گا۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ کے بعد اب ہم 26 ویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس کروانے کی پوزیشن میں ہیں، ملکی استحکام کیلئے آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیںِ، سینیٹ کے بعد اب ہم 26 ویں ترمیم قومی اسمبلی سے پاس کروانے کی پوزیشن میں ہیں، ملکی استحکام کے لیے آئینی ترمیم کا ساتھ دے رہے ہیںِ۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلانی ہے، جتنی بھی ترامیم کرلیں لیکن ہمیں اپنی آئینی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد آئین بنانے میں ہمیں 9 سال لگے، ہمیں مہنگائی اور بے روزگار ختم کرنا ہوگی، ایک باختیار، موثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، بااختیار بلدیاتی نظام کو موثر بنایا جائے، پاکستان کے عوام کو مسائل سے نجات دلانی ہے۔انہوں نے کہا کہ جتنی بھی ترامیم کرلیں لیکن ہمیں اپنی آئینی تاریخ کو بھی دیکھنا ہوگا، قیام پاکستان کے بعد آئین بنانے میں ہمیں 9 سال لگے، ہمیں مہنگائی اور بے روزگار ختم کرنا ہوگی، ایک بااختیار، موثر بلدیاتی نظام ہی جمہوریت کو مضبوط بناسکتا ہے، بااختیار بلدیاتی نظام کو موثر بنایا جائے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے محکموم بنایا جائے گا، پاکستان کی آزاد عدلیہ کو حکومتی نمائندگان نے آج جتنی تنقید کا نشانہ بنایا، میاں صاحب نے جو شعر پڑھا اس سے عدلیہ کی توہین کی اس کی مذمت کرتے ہیں، آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کے لیے محکموم بنایا جائے گا، آج پاکستانی آئینی تاریخ اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، یہ چاہتے ہیں ہر عدالت ان کے ماتحت ہو۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ چند کیسز کی بنیاد پر آئینی بینچ بنارہے ہیں، وزیراعظم پہلی بار ججز کی تقرری کرے گا، یہ کمیٹی بنی تو خورشید شاہ کے ساتھ بھی دھوکہ ہوا ہے، یہ چند کیسز کی بنیاد پر آئینی بینچ بنارہے ہیں، وزیراعظم پہلی بار ججز کی تقرری کرے گا۔قبل ازیں چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26آئین ترمیم پر ووٹنگ کی تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا، مہمانوں کی گیلری خالی کروانیکی ہدایت کی۔اس دوران اپوزیشن نے رانا ثنا اللہ اور اٹارنی جنرل کو ایوان سے باہر بھیجنے کا مطالبہ کیا، اس پر سینیٹر اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے۔
سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا عمل شروع کردیا گیا جب کہ اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردیا۔ایوان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی شق نمبر 2 کی منظوری دے دی جس کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیا اور 4 نے مخالفت کی جب کہ آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل جاری رہا اور سینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی تمام22شقوں کی منظوری دے دی۔26ویں آئینی ترمیمی بل پر شق وار منظوری کا عمل مکمل ہونے کے بعد سینیٹ ہال کے تمام دروازے بند کردیے گئے اور پراسس ڈویژن کا آغاز ہوا۔چیئرمین سینٹ کی جانب سے لابی کی تقسیم کا اعلان کیا گیا، آئینی ترمیم کے حق میں ارکان کے لئے دائیں ہاتھ کی لابی مقرر کی گئی جب کہ مخالفت کے لیے بائیں جانب کی لابی مقرر کی گئی۔ممبران ڈویژن میں ووٹ ڈالنے کے لیے لابیز روانہ ہوگئے، بل کے حق میں اور مخالفت کرنیوالے ممبران اپنی اپنی لابیز میں چلے گئے، لابی سے باہر دستخط کے لیے رجسٹر اور سینٹ عملہ موجود تھا۔بعد ازاں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا ہے، نتیجہ موصول ہوگیا ہے۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ کے 65 ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ سینیٹ کے 4ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دیا، اس طرح سے چھبیسویں آئینی ترمیم بل 2024 دو تہائی اکثریت کے ساتھ سینیٹ سے منظور کر لی گئی۔حکومت کے 58، جمعیت علمائے اسلام ف کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے 2 ووٹ تھے۔ 26ویں ترمیم کی شق وار منظوری کے دوران پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کے ارکان ایوان سے چلے گئے تھے۔ 26ویں آئینی ترمیم سے متعلقہ اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سینیٹر کامران مرتضی نے سود کے خاتمے کی ترمیم پیش کی، دوران اجلاس آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران یکم جنوری 2028 تک سود کو مکمل طور پر ختم کرنے کی شق متفقہ طور پر منظور کی گئی۔22شقوں پر مبنی 26 ویں آئینی ترامیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائیگا، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
بل کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔بل کے متن کے مطابق پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم، صدر مملکت کو بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی 2 تہائی اکثریت سے کرے گی، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔بل کے مطابق چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائیگی، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر ہوگی۔بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا، سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔اس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے، وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے، کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا، دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کے رکن ہوں گے۔













