(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس)9 مئی کے پُرتشدد واقعات پر فوجی اور سویلین قیادت کا موقفیک جیسا لگتا ہے ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں پی ٹی آئی کےحامیوں کو سزائیں دینے کا اعلان کیا ۔فوجی ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو سزاؤں تک انصاف کا عمل مکمل نہیں ہوگا، نومبر احتجاج 9مئی کا تسلسل، سازش کے پیچھے سیاسی دہشتگردوں کی سوچ ہے ،جبکہ حکومتی ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو بھی سزائیں ملنی چاہیں۔ 9 مئی کے منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ ہیں ان کے خلاف بھی کیس بننا ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے سانحہ 9 مئی کو ناقابل معافی جرم قرار دیا نیوز کانفرنس میں کہا کہ 9 مئی ناقابل معافی جرم ہے، سوشل میڈیا پر گھٹیا پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو سزا ملنے تک حقیقی انصاف نہیں مل سکتا۔ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی بریفنگ، نفرت انگیز تقاریر اور جعلی بیانیے کے پھیلاؤ کے خلاف پاکستان کے پُرعزم موقف کو اجاگر کرتی ہے۔ برطانیہ، فرانس اور امریکا میں مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے فوری کارروائی کی جاتی ہے، اسی طرح جب تک 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور اس میں ملوث افراد کو سزا نہیں دی جاتی، حقیقی انصاف نہیں مل سکتا۔ فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام کا مقدمہ ہے‘ انصاف کا عمل 9 مئی کے اصل گھنائونے کرداروں اورمنصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک چلے گا‘کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں‘اس بیانیے اور زہریلے پرو پیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ماسٹرمائنڈ ہیں‘ایک شخص کی غلطی کی قیمت قوم نے اپنے خون سے ادا کی،کچھ عرصہ پہلے بیانیہ بنایا گیا کہ نو مئی کے حملے ایجنسیوں نے کرائے‘اب انتشاریوں کو تو خوش ہونا چاہیے کہ ایجنسیوں کے بندوں کوبھی سزائیں دی گئیں‘جبکہ حکومتی ترجمان
مذاکرات کا یہ مقصد نہیں کہ 9 مئی پر بات نہ کی جائے، ملک میں ملک دشمنی پر بات نہ کی جائے، ان تمام معاملات پر سمجھوتہ کیا جائے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مذاکرات کی آڑ میں 9 مئی جیسے واقعات کو فراموش کردیں۔
حکومتی ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے مطالبہ کیا ہے کہ 9 مئی کے مجرمان کے بعد اب ان واقعات کے منصوبہ سازوں کو بھی سزائیں ملنی چاہئیں۔ 9 مئی بانی پی ٹی آئی عمران خان کی سازش تھی، واقعے کے مجرمان کو شواہد کی بنیاد پر سزائیں سنائی گئیں، تمام مجرمان کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کو ملٹری کورٹس سے سزائیں ہوئیں ان کے خلاف ناقابل تردید ثبوت تھے۔ ان تمام لوگوں کو جلاو گھیراؤ کرتے دیکھا گیا تھا۔ عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کافی مفصل تھی۔ فوجی ٹرائل میں بھی وکیل اور ریکارڈ تک رسائی ہوتی ہے۔ فوجی ٹرائل میں بھی اپیل کے دو حق ہوتے ہیں۔ ریلوے پر سفر کے دوران اگر کوئی جرم کرے تو ریلوے پولیس نوٹس لیتی ہے۔ملٹری تنصیبات پر حملہ کا ٹرائل ملٹری عدالت میں کیوں نہیں ہو سکتا؟ حکومتی ترجمان عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ سزا پانے والوں میں وہ بھی شامل ہے، جس نے کور کمانڈر کے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی تھی، جس نے وردی کی بے حرمتی کی تھی، جس نے اہلکاروں پر تشدد کیا تھا، جس نے گیٹ توڑا تھا، جس نے ٹی وی توڑا تھا، یہ سب وہ لوگ ہیں، جنہوں نے ملک دشمنوں کے خواب کو پورا کیا تھا۔ 2 سال تک کیس چلانے کے دوران انصاف کے تمام تقاضے فراہم کیے گئے، آج انصاف کا بول بالا ہوا ہے، آج کے بعد کوئی شخص جرات نہیں کرے گا کہ وہ دفاعی تنصیبات پر حملہ کرے، ایسا خواب پورا کرنے کی کوشش کرے، جو ہمارے دشمن دیکھتے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں تمام ملزمان کو فیئر ٹرائل کا حق دیا گیا، وکیل فراہم کیا گیا، فیملی تک رسائی دی گئی، کوئی شخص کورٹ کے سامنے موجود نہیں تو اس کا ٹرائل نہیں کیا جاسکتا، ابھی سز اپانے والوں کے پاس اپیل کے 2 حقوق باقی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرم اتنا بڑا تھا، اس سے چھپا نہیں جاسکتا، اس سے بھاگا نہیں جاسکتا، تمام فوٹیجز موجود ہیں، کہ کون کہاں کیا کچھ کرتا رہا۔ عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ پاکستان اور ملک کے دفاع اور سلامتی کے لیے بہت بڑا دن ہے، جو لوگ ملکی دفاع کے لیے خطرہ بنے، انہیں سزائیں سنائی گئی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے منصوبہ سازوں کو بھی سزائیں سنائی جانی چاہئیں۔ حکومتی ترجمان وفاقی وزیر نے کہا کہ ان تمام مجرموں کی فون کی لوکیشن، موقع پر موجودگی کی تصاویر ، سب کچھ موجود ہے، ان سزاؤں کے بعد کوئی ہمت نہیں کرے گا کہ آئندہ ایسا کرے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ نہ صرف ویڈیو شواہد بلکہ تکنیکی شواہد بھی موجود ہیں، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ملک دشمنوں کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کی، سزاؤں کے بعد ان شا اللہ پاکستان آگے بڑھے گا۔
یاد رکھیں کہ ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر)لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا، جب تک 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور اصل گھناؤنے کرداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کیفر کردار تک نہیں پہنچادیا جاتا، کیوں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس جیسے کسی سانحے اور ایسی انتشاری سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی۔ وہ نوجوان بچے جنہیں زہریلا پراپیگنڈا کرکے ریاست اور اداروں کے خلاف کھڑا کیا گیا، ان کے والدین کودیکھنا چاہیے کہ ان کے بچوں کو مخصوص سیاسی ایجنڈے کیلئے کس طرح استعمال کرکے سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، کچھ لوگ اپنی سیاست کیلئے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں، اس بیانیے اور پراپیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ملزم ہیں۔ 9 مئی کے بارے میں افواج پاکستان کا نقطہ نظر واضح، غیر مبہم اور مستقل ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے ، اگر کوئی گمراہ، مسلح اور پرتشدد گروہ اس طریقے سے اپنی مرضی اور سوچ معاشرے پر مسلط کرنا چاہے اور اس طرز عمل کو آئین و قانون کے مطابق نہ روکا جائے تو معاشرے کو ہم کس طرف لے کر جائیں گے ؟ 2023 میں اعلیٰ عدلیہ نے ملزموں کی ملٹری کورٹس کو حوالگی کا معاملہ منجمد کردیا تھا، حال ہی میں 7 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں 9 مئی کی ہنگامہ آرائی میں ملوث لوگوں کو سزائیں سنانے کا عمل مکمل کیا جاچکا ہے ۔ جس میں مروجہ قانون کے تحت ثبوت اور شواہد کے مطابق تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے ہیں۔ ملٹری کورٹس کے سانحہ 9 مئی کے ملزموں کو دی گئی سزاؤں کے فیصلے سے واضح پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، مستقبل میں بھی کوئی اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوگا تو اسے آئین و قانون کے مطابق بہرصورت سزا ملے گی۔ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سویلین بالادستی اور شفافیت کے فقدان کا جو بیانہ بنایا جارہا ہے ، اس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے قائم ہیں اور یہ انصاف کے تمام تقاضوں کو بخوبی پورا کرتی ہیں، عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کے پورے عمل کی تائید کی ہے ، ملٹری کورٹس میں اپنا وکیل کرنے ، اپنے شواہد پیش کرنے ، گواہ لانے ، جرح کرنے سمیت تمام قانونی حقوق مہیا کیے جاتے ہیں اور اگر مجرموں کو سزا ہوجائے تو نہ صرف کورٹ اپیل میں آرمی چیف بلکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انہیں اپیل کا حق حاصل ہے ۔ ملٹری کورٹ کے فیصلے بھی سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سنائے گئے ہیں، جب 9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا تو ملٹری کورٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ،انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ملٹری کورٹس پر بات کرنے والے کل اس کے سب سے بڑے داعی تھے ۔ کچھ عرصے پہلے یہ بیانیہ بنایا جارہا تھا کہ احتجاجی انتشاری ایجنسیوں کے پلانٹ کردہ لوگ ہیں اور فوج نے گہری سازش کے تحت خود یہ حملے کرائے ہیں، پھر اگر ہم نے اپنی ایجنسیوں کے بندوں کو اپنے قانون کے تحت سزائیں دے دی ہیں تو ان انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیے ، لیکن اب وہ پریشان ہیں کیونکہ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو عبور کرچکے ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں 9 مئی کے مقدمات کو بھی انجام تک پہنچنا چاہیے ، دنیا میں نظر دوڑائیں تو ابھی لندن میں اس سال جولائی میں جھوٹی سوشل میڈیا پوسٹوں پر لندن میں جو فسادات ہوئے ، ان میں سرعت کے ساتھ نہ صرف بالغوں بلکہ نابالغوں کو بھی سزائیں ہوئی ہیں، 2020 میں کیپیٹل ہل پر حملہ کیا گیا تو ملزموں کو کتنی تیزی سے سزائیں دی گئیں؟ اس سے قبل 2011 میں لندن میں 1200 سے زائد ملزموں کوتیزی سے سزائیں دی گئیں۔ 2023 میں فرانس کے فسادات میں 700 سے زائد لوگوں کو دنوں میں سزائیں دی گئیں، دنیا بھر میں سیاسی انتشاریوں کو کہیں جگہ نہیں دی جاتی۔انہوں نے کہا بارہا نشاندہی کے باوجود افغانستان کی سرزمین سے فتنہ الخوارج اور دیگر دہشتگرد مسلسل پاکستان میں دہشت گردی کرتے آرہے ہیں، افغانستان خارجیوں اور دہشتگردوں کو پاکستان پر فوقیت نہ دے ، پاکستان میں دہشتگردی کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں تک جاتے ہیں، آرمی چیف اس حوالے سے واضح موقف رکھتے ہیں، پاکستان اپنے شہریوں کی سلامتی کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھے گا، آرمی چیف بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ ایک پاکستانی کی جان اور مال افغانستان پر مقدم ہے ۔سب جانتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کیلئے دل و جان سے کوششیں کیں، افغانستان میں امن کیلئے پاکستان کا کردار سب سے اہم رہا ہے ، کئی ملین افغان باشندوں کی دہائیوں سے ہم میزبانی کرتے آرہے ہیں،اس سوال پر کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی افغان پالیسی میں خرابی ہے ، اسے تبدیل کرکے افغانستان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہاپچھلے 2 سال عبوری افغان حکومت سے مختلف سطح پر بات چیت اور روابط جاری ہیں اور ہم ان سے ایک ہی بات کررہے ہیں، پاکستان اور افغانستان برادر اسلامی ملک ہیں لہذا عبوری افغان حکومت دہشتگردوں اور فتنہ الخوارج کو پاکستان پر مقدم نہ رکھے ، افغانستان کے ساتھ بات چیت نہ صرف براہ راست بلکہ دوست ممالک کے ذریعے بالواسطہ بات چیت بھی جاری ہے ،افغان عبوری حکومت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے فتنہ الخوارج کے ساتھ ہونے والی سہولت کاری کو روکا جائے ، ہم انہیں کہتے ہیں کہ افغانوں کو دہشت گردوں کے ساتھ شامل ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کرنے سے روکا جائے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ افغان خودکش بمباروں کو کنٹرول کیا جائے لیکن مسلسل رابطے کے باوجود فتنہ الخوارج کے رہنماؤں کے دفاتر، تربیتی مراکز اور رابطے باقاعدگی سے آپریٹ ہوتے رہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہمارے معصوم شہریوں اور قانون کے رکھوالوں کا خون بہایا جائے تو کیا ہم خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں؟ یہ جو دوغلی سیاست کا پرچار کرتے ہیں۔
میں نے ان سے ایک سادہ سوال کرتا ہوں کہ آج سے 6 دن پہلے 21 دسمبر 2024 کو جنوبی وزیرستان میں ایف سی کے 16 جوان فتنہ الخوارج سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے کیا ان کے خون کی کوئی قیمت نہیں ہے ؟ کیا وہ سب خیبرپختونخوا کے شیر دل جوان نہیں تھے ؟میں سوال کرتا ہوں کہ جب 2021 میں فتنہ الخوارج کی کمر ٹوٹ گئی تھی اور وہ فرار ہورہے تھے تو اس وقت کس کے فیصلے پر بات چیت کے ذریعے انہیں دوبارہ آباد کیا گیا؟ کس نے ان کو طاقت اور دوام بخشا؟ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ قانون نافذ کرنے والے رکھوالے اور جوان روزانہ ان فیصلوں کی لکھائی اپنے خون سے دھورہے ہیں،اگر کوئی فریق اپنی گمراہ سوچ مسلط کرنے پر تلا ہو تو اس سے کیا بات کریں؟ اگر اس طرح کے ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا دنیا کی تاریخ میں کوئی جنگ و جدل، کوئی غزوات اور مہمات نہ ہوتیں، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ مسلمان اور ہرمحب وطن شہری کیلئے جان اور قربانی دینا فخر ہوتا ہے ، ہم اپنے ایمان، وطن اور آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے ۔ اگر اس تلخ تجربے اور حقیقت سے گزرنے کے باوجود کوئی لیڈر اور سیاسی شخصیت یہ کہے ، ایسی شخصیت جو اس صلاحیت سے عاری ہوکہ اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھے ، اور جو یہ سمجھتا ہو کہ اسے ہر چیز کا علم ہے تو ایسے رویوں کی قیمت پوری قوم اپنے خون سے چکاتی ہے اور ہم چکا رہے ہیں، بات چیت اور دوبارہ آباد کاری کی نام نہاد پالیسی خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں۔اب جو اس مطالبے کی تکرار کی جارہی ہے کم ازکم اس بات کو تو واضح کرتی ہے کہ 2021 میں بھی کس کی ضد تھی کہ ان سے بات چیت کرکے انہیں دوبارہ آباد کیا جائے ، اس ضد کی قیمت پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا ادا کررہا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انسداد دہشت گردی کے حساس ترین مسئلے پر سیاست، کنفیوژن اور بیانیہ سازی کے بجائے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، گورننس کے خلا کو روزانہ ہم اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے پر کررہے ہیں، تو بجائے اس کے اس پر بیانیے بنائے جائیں اور سیاست کھیلی جائے کیوں نہ ہم اچھی حکمرانی اور مسائل پر توجہ دیں جن کی وجہ سے وہاں احساس محرومی اور دہشت گردی کے سہولت کاری ہورہی ہے ، کیونکہ وہ ہم نے نہیں کرنا تو اس لیے اس پر سیاست کی جارہی ہے لہذا وقت آ گیا ہے کہ ہم یکجا ہوجائیں اور کہیں کہ دہشت گردی پر سیاست نہیں ہوگی۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے پیچھے مربوط سازش اور منصوبہ بندی تھی، اس منصوبہ بندی اور سازش میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے، ملٹری ٹرائل میں ملزم کو قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں، فیض حمید کو یہ حق حاصل بھی ہے، کوئی بھی افسر سیاست کو ریاست پر مقدم رکھے گا تو جواب دینا پڑے گا، نومبر 2024ء میں بھی 9 مئی 2024ء کا تسلسل دیکھا۔9 مئی افواج پاکستان کا نہیں عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، دہشت گردی کے مسئلے پر مزید کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ نومبر میں ہونے والے دھرنے میں فوج کے کردار اور ہونے والی اموات سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یکم دسمبر کو وزارت داخلہ نے اس حوالے سے مفصل اعلامیہ جاری کیا تھا، اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ فوج کو پرتشدد ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا تھا