(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) .انسانی اسمگلنگ جدید غلامی کی ایک شکل ہے۔ یہ وہ جرم ہے جس میں ایک شخص اپنے مفاد کے لئے پیسے حاصل کرنے کے لئے دوسرے شخص کا استحصال کرتا ہے۔ آبادی میں نوجوانوں کی شرح 60 فیصد کے لگ بھگ ہے۔غربت زدہ علاقوں سے نوجوانوں کو بہتر مستقبل کی لالچ دے کر ملک سے باہر بھیجا جاتا ہے اور یہیں سے اس مکروہ کاروبار کا آغاز ہوتا ہے۔ منظم گروہ لوگوں سے اُن کی جمع پونجی حاصل کر کے غیر قانونی راستوں کے ذریعے پاکستان سے ایران اور پھر وہاں سے ترکی کے راستے یورپ میں داخل کراتے ہیں,پاکستان نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے ہیں۔ جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018، جبکہ دوسرا انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔ ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ایمیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی اسمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔ ان قوانین کی روشنی میں ملک سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید تک کی سزائیں رکھی گئی ہیں، جبکہ انسانی اسمگلنگ پر نظر رکھنے اور اس جرم کی سرکوبی کے لیے ‘اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سیل’ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام اور بیرونی ممالک کے ساتھ بہتر تعاون کے لیے پاکستان کے مربوط نوعیت کے سرحدی انتظامی نظام کا بین الاقوامی پولیس انٹرپول کے ڈیٹا بیس کے ساتھ کامیاب انضمام بھی عمل میں آ چکا ہے۔ انٹرپول کے اس ورلڈ ڈیٹا بیس میں مختلف ممالک کے گمشدہ یا چوری شدہ پاسپورٹوں، مفرور ملزمان، اغوا شدہ بچوں اور خطرناک جرائم میں ملوث عناصر کے بارے میں معلومات محفوظ کی جاتی ہیں,انسانی اسمگلر متاثرین پر قابو پانے کے لئے ان کی نازک صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اکثر، وہ جسمانی یا نفسیاتی تشدد استعمال کرتے ہیں اور متاثرہ شخص کی آزادی محدود کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ اہنے متاثرین کو معاشی انحصاری رہائش، کھانے، دستاویزات کے لئے جیسی صورتحال میں بھی مسدود کر سکتے ہیں، اور /یا بس نازک صورتحال کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اسمگلرز مجرمانہ نیٹ ورک میں کام کر سکتے ہیں لیکن اکیلے بھی عمل کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص انسانی اسمگلنگ کا شکار ہو سکتا ہے
پاکستان سے دنیا بھر میں ہونے والی انسانی اسمگلنگ کوئی نیا موضوع نہیں۔ لیکن، گزشتہ چند دہائیوں سے اس میں بتدریج اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ گزشتہ سال کے دوران انسانی اسمگلنگ کے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیں ملک میں انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام ہیں۔حکام کے مطابق، پاکستان سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو عام طور پر زبردستی شادی، جنسی استحصال، گھریلو کاموں کے لیے غلام بنائے جانے سمیت دیگر مقاصد کے لئے اسمگل کیا جاتا ہے۔ ان اسمگلرز کا شکار ہونے والی خواتین کی عمریں 2 سے 50 سال کے درمیان دیکھی گئی ہیں,حکام کے مطابق، ایسے اسمگلرز صرف اجنبی ہی نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ خاندان کے فرد، دوست یا قریبی جاننے والے بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد کو ملازمت، شادی، بہتر معاشی حالات جیسے سہانے خواب دکھا کر اسمگلنگ پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں سے شادی کے بہانے نوجوان لڑکیوں کو چین اسمگل کرنے کی بھی ناکام کوششیں کی گئیں، جس کے بعد حکام نے فوری کارروائی کرتے ہوئے کئی چینی باشندوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ ایک پیچیدہ معاشرتی مسئلہ ہے، جس میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے اور پاکستان جیسے ملک میں اس کی بنیادی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، معاشی سست روی اور غیر محفوظ سرحد ہے۔ جس سے انسانی اسمگلرز کا کام کافی آسان ہوجاتا ہےپاکستان کئی دہائیوں سے معاشی عدم استحکام کا شکار ہے، جبکہ غربت کی شرح زیادہ اور انسانی معیار زندگی کے لحاظ سے بھی اس کا شمار دنیا کے پست ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔ انسانی اسمگلرز کے گروہ اتنے مُنظم طریقے سے کام کرتے ہیں کہ وہ پاکستان سے یورپ تک کے زمینی راستے کے سفر میں آنے والے ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اکثر اداروں کے اہلکاروں سے ساز باز کر کے اُنہیں یورپ تک بھیجنے میں باآسانی کامیاب ہوجاتے ہیں گزشتہ پانچ سال کے دوران تین لاکھ سے زائد پاکستانی مختلف ممالک سے ڈی پورٹ ہو کر پاکستان واپس بھجوائے گئے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے علاوہ اومان، ایران، ترکی اور اب یونان میں بھی دفاتر قائم کیے جا رہے ہیں، تاکہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد پر نظر رکھی جائے۔ بڑے شہروں میں لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے والے ان ایجنٹوں پر ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے، جو کئی جگہوں پر کسی لائسنس کے بغیر دھڑلے سے کام کررہے ہیں۔ اگر کچھ لوگوں کو گرفتار کیا بھی جاتا ہے، تو ان کے خلاف مقدمہ اتنا کمزور بنایا جاتا ہے یا پھر شہادتیں اکھٹی نہیں کی جاتیں، جس سے وہ قانون کی گرفت سے نکلنے میں باآسانی کامیاب ہوجاتے ہیں۔حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، ہیومن ٹریفکنگ کا شکار ہونے والوں میں سے بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ ماہرین اس کے پیچھے معاشرے میں خواتین کی معاشی بدحالی اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والا عمومی سلوک کو گردانتے ہیں۔ غربت اور پھر بعض خواتین گھریلو تشدد سے تنگ آکر کہیں بھی جانے کو تیار ہوجاتی ہیں اور پھر کئی کیسز میں انسانی اسمگلرز اُنہیں جھانسا دے کر غلط کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنا، دولت کا ارتکاز روکنا، سماجی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور پھر اس سے متعلق سخت قوانین بنانا ہوں گے۔
انسانی اسمگلنگ سے ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائےصدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم محمد شہباز شریف نے مغربی افریقہ سے سپین جانے والی کشتی کے حادثے پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکیاہے۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نےافسوسناک واقعے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے سے متعلق حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔انہوں نے حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کے لئے دعائے مغفرت اوراہل خانہ سے تعزیت کااظہار کیاہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ حکومت انسانی اسمگلنگ کے خلاف بھرپور اقدامات کررہی ہے۔ انسانی اسمگلنگ جیسے مکروہ دھندےمیں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہو گی۔اس حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی ۔
صدر آصف علی زرداری نے واقعے پرگہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکرتے ہوئے حادثے میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کے لئے دعائے مغفرت اور اہل خانہ سے تعزیت کااظہار کیاہے۔ صدر مملکت نےکہاکہ اِنسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے موثر اور دور رس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مراکش کے ساحل پر کشتی حادثہ میں پاکستانیوں سمیت 80افراد سوار تھے،کشتی مراکش کی بندرگاہ دخلہ کے قریب حادثے کا شکار ہوئی۔ان کے مطابق رباط میں سفارت خانہ مقامی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے،پاکستانیوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کیلئے سفارت خانے کی ٹیم دخلہ روانہ ہوگئی ہے۔وزارت خارجہ میں کرائسز مینجمنٹ یونٹ کو فعال کر دیا گیا ہے۔۔نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے متعلقہ اداروں کو متاثرہ پاکستانیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے وزیر اعظم شہباز شریف کی حالیہ ہدایات کی روشنی میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کی جائیدادیں ضبط کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائی گی
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ملک میں انسانی سمگلنگ کے خاتمے کیلیے لیے گئے اقدامات کے حوالے سے جائزہ اجلاس ہوا۔ وزیراعظم نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے تمام ادارے فعال کردار ادا کریں۔ ایف آئی اے میں افرادی قوت کی کمی کو فوری طور پر پورا کرے۔ بیرون ملک سفر کرنیوالوں کی اسکریننگ کا معیاری نظام قائم کیا جائے۔ وزیراعظم نے وزارت اطلاعات و نشریات کو غیر قانونی بیرون ملک سفر اور انسانی اسمگلنگ کے بارے میں مؤثر آگاہی مہم چلانے اورایف آئی اے بیرون ملک انسانی اسمگلنگ کا مکروہ دھندہ چلانے والے انتہائی مطلوب اسمگلروں کی حوالگی کے لیے انٹرپول سے تعاون حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں انسانی اسمگلروں کے خلاف اب تک لیے گئے اقدامات پر بریفنگ دی گئی جس کے مطابق جون 2023 اور دسمبر 2024 کے انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں متعدد انسانی اسمگلرز گرفتار ہو چکے ہیں۔ متعدد سہولت کار سرکاری اہلکاروں کو برطرف کیا جا چکا ہے اور کئی تادیبی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی سمگلنگ میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف تعزیری اقدامات لیے جا رہے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کے 500 ملین روپے سے زائد کے اثاثے ضبط ہو چکے ہیں ور مزید ضبط کرنے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ انسانی اسمگلروں کے استغاثہ کے عمل کے لیے خصوصی پراسیکیوٹر تعینات ہو چکے ہیں۔ اجلاس میں وفاقی وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ، وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ افسران شریک تھے۔ رپورٹ کے مطابق اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ (اے ایم ایل اے) 2010 کے تحت شروع کی گئی اس کارروائی میں بنیادی طور پر انسانی اسمگلنگ اور دیگر متعلقہ مقدمات میں گرفتار افراد کے ساتھ ساتھ پہلے سے ایف آئی اے کی تحویل میں موجود مشتبہ افراد کی جائیدادیں بھی نشانہ بنائی جارہی ہیں۔ اے ایم ایل اے، تفتیشی افسران کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی مشتبہ شخص کی جائیداد کی ضبطی کے لیے ڈائریکٹوریٹ کی سطح پر اینٹی منی لانڈرنگ سیل کو ریفرنس بھیج سکتے ہیں، جو چند دنوں میں متعلقہ مجسٹریٹ کی منظوری حاصل کرکے اس عمل کا آغاز کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث تمام افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا عمل تیز کیا جائے۔ وزیر اعظم نے حکام کو وزارت قانون کی مشاورت سے پراسیکیوشن کے لیے ماہر وکلا کے تقرر کا حکم دیا تھا اور دفتر خارجہ کو ذمہ داری سونپی تھی کہ وہ بیرون ملک مبینہ طور پر انسانی اسمگلنگ کی کارروائیاں کرنے والے پاکستانیوں کی حوالگی میں تیزی لانے کے لیے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے۔ گوجرانوالہ ریجن کے مختلف اضلاع میں مقامی لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ذرائع نے اپنے متعلقہ اضلاع میں جائیدادوں کی ضبطی کی تصدیق کی ہے۔ ابتدائی طور پر پہلے مرحلے میں یونان کشتی حادثے میں ملوث انسانی اسمگلروں کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کیے جائیں گے، اس کے بعد جون 2023 میں لیبیا کے ساحل کے قریب کشتی حادثے میں ملوث افراد کے خلاف بھی اسی طرح کی کارروائی کی جائے گی، کیونکہ ان واقعات میں یورپ کا سفر کرنے کے ارادے سے درجنوں غیر قانونی تارکین وطن ہلاک ہوئے تھے۔ سیالکوٹ، گجرات، منڈی بہاالدین اور گوجرانوالہ اضلاع میں اثاثے ضبط کیے جا رہے ہیں، کیونکہ زیادہ تر اسمگلرز کا تعلق وسطی پنجاب کے ان قصبوں سے ہے۔ حکام پہلے ہی سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کے ’ججا نیٹ ورک‘ سے تعلق رکھنے والے انسانی اسمگلروں کی نشاندہی کر چکے ہیں، منڈی بہاالدین میں مبینہ انسانی اسمگلر اشرف سلیمی اور اس کے ساتھیوں اور ایسے دیگر ایجنٹ ان افراد میں شامل تھے، جن کی جائیدادوں کی ضبطی کے لیے ایف آئی اے نے نشاندہی کی تھی۔ ایف آئی اے نے یونان کے حالیہ سانحے میں ملوث کم از کم 2 مزید انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اس حادثے میں 14 دسمبر 2024 کو کم از کم 40 پاکستانی ہلاک ہوئے تھے۔ ایف آئی اے کرائم سرکل گجرات کی جانب سے یہ گرفتاریاں گجرات اور حافظ آباد سے کی گئی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ نیٹ ورک کے مرکزی ملزم کی شناخت عمران شکور کے نام سے ہوئی ہے، جو گجرات کی تحصیل کھاریاں کے گاؤں بھدر کا رہائشی ہے۔ ملزم کا کامیابی سے سراغ لگایا گیا، اور اس کے ساتھی زین علی کو گزشتہ ہفتے ضلع حافظ آباد کے علاقے سکھیکی سے اسی کیس میں پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔ منڈی بہاالدین کے رہائشی ایک اور مشتبہ انسانی اسمگلر ظفر اقبال کو مبینہ طور پر اپنے بیٹے کو بیرون ملک ملازمت کے لیے اٹلی بھیجنے کا وعدہ کرکے ایک شخص سے 7 لاکھ روپے بھتہ لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے امیگریشن سرکل نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے عمرہ ویزے کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ کا بڑا منصوبہ ناکام بنادیا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کے خلاف کیے گئے اقدامات کے حوالے سے جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث سرکاری اہلکاروں کے خلاف حالیہ اقدامات پر ایف آئی اے کی کارکردگی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی اسمگلروں کے سہولت کار سرکاری افسران کے خلاف حالیہ تادیبی کارروائیوں کا آغاز خوش آئند ہے، انسانی اسمگلرز کے خلاف سخت تعزیری کارروائی بھی کی جائے تاکہ وہ نشان عبرت بنیں۔ شہباز شریف نے ہدایت کی کہ اس مکروہ دھندے میں ملوث تمام افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید مؤثر بنایا جائے، استغاثہ کے لیے وزارت قانون و انصاف سے مشاورت کے بعد اعلیٰ ترین درجے کے وکلا تعینات کیے جائیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ دفتر خارجہ بیرون ملک سے انسانی اسمگلنگ کا دھندہ چلانے والے پاکستانیوں کے لیے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے اور ان کی پاکستان حوالگی کے حوالے سے جلد از جلد اقدامات کرے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ وزارت اطلاعات و نشریات، وزارت داخلہ کے تعاون سے عوام میں بیرون ملک نوکریوں کے لیے صرف قانونی راستے اختیار کرنے کے حوالے سے آگاہی مہم چلائے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں ایسے ٹیکنیکل ٹریننگ اداروں کی ترویج کی جائے، جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق سرٹیفائیڈ پیشہ ور افراد بیرون ملک مارکیٹ کو فراہم کرسکیں۔ ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والے افراد کی سکریننگ کا عمل مزید مؤثر بنایا جائے۔ وزیراعظم کو ملک میں انسانی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات، سہولت کاروں کے خلاف قانونی کارروائی اور انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے قانون سازی کی پیش رفت پر بریفنگ دی گئی۔ واضح رہے کہ یونان اور لیبیا میں کشتی حادثوں کے نتیجے میں غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے متعدد پاکستانی جاں بحق ہوگئے تھے، اس کے بعد وزیر اعظم نے ایف آئی اے کو سخت کارروائی کا حکم دیا تھا، جس کے بعد سے درجنوں انسانی اسمگلرز گرفتار کیے جاچکے ہیں۔ ایف آئی اے نے کارروائی کے دوران اپنے محکمہ کے افسران اور سرکاری عہدیداروں کے خلاف بھی ایکشن لیا ہے ۔ ایف آئی اے نے وفاقی دارالحکومت کے ہوائی اڈے پر کارروائی کرتے ہوئے 16 سالہ کم عمر بچے سمیت 5 مسافر آف لوڈ کر دیے۔ ایف آئی اے اسلام آباد زون نے راولپنڈی اور لاہور ایئرپورٹس سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث 3 ملزمان بھی گرفتار کر لیے۔ ملزمان نے سعودی عرب سے لیبیا اور بعد میں اٹلی جانے کا منصوبہ بنایا تھا، ملزمان نے واجد اور فیصل نامی ایجنٹس سے معاہدے کیے تھے، ملزمان نے ایجنٹوں کو فی کس 39 لاکھ روپے ادا کیے، تلاشی کے دوران ملزمان سے 2 مصری ویزے برآمد ہوگئے۔ ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہو اکہ ملزمان کو باقی ویزے سعودی عرب میں سب ایجنٹس کے ذریعے ملنے تھے، ملزمان کو ایجنٹوں کی نشاندہی، مزید تفتیش کے لیے انسانی اسمگلنگ سرکل اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔ ملزمان نے خود کو سعودی کمپنیوں کا نمائندہ ظاہر کیا، ملزم سکندر زیب نے خود کو سعودی کمپنی کا اہلکار بتایا، ملزم سکندر زیب نے کروڑوں روپے کا ویزا فراڈ کر رکھا ہے۔ ملزمان نے سعودی عرب کا ورک ویزا فراہم کرنے کا جھانسہ دیا تھا، اشتہاری اولیا خان 2015 سے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل کو مطلوب تھا، جب کہ ملزم مظہر اقبال نے 2019 میں جعلی پاسپورٹ پر مراکش جانے کی کوشش کی تھی۔لیبیا کے ساحل کے پاس بحیرہ روم میں مختلف کشتیوں میں پھنسے مہاجرین شدید مشکلات کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف جرمن امدادی جہاز کسی یورپی بندرگاہ پر لنگر اندازہونے کے لئے اجازت ملنے کا منتظر ہے۔ مہاجرین کا یہ مسئلہ گزشتہ 5برسوں سے دنیا کیلئے ایک مصیبت بنا ہوا ہے اور کوئی بھی متعلقہ ملک مسئلے کو حل کرنے کیلئے آگے نہیں آرہا۔ ان مہاجرین کا تعلق پسماندہ ملکوں سے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ممالک انسانی اسمگلروں کو کیوں نہیں پکڑ پاتے جو سادہ لوح لوگوںسے رقم ہتھیاکر اپنے خزانے بھر رہے ہیں اور جبکہ ان مہاجرین کو سمندر کی بے رحم موجوں کے حوالے کرکے چین کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ کیوں ان ڈاکوﺅں پر ہاتھ نہیں ڈالا جارہا۔ یہ وہ ڈاکو ہیں جو انسانوں کے دشمن ہیں۔ جنہیں صرف پیسے سے پیار ہے اور وہ پیسے کیلئے اپنا مذہب اور انسانیت بیچ رہے ہیں۔ ان بیچاروں کو ربر کی کشتیوں میں سمندر میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہ کشتیاں بپھرے سمندرمیں کچھ دور جاکر ڈوب جاتی ہیں۔ اب تک ہزاروں مہاجرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انسانی اسمگلرز تو یہی چاہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی واپس آکر اپنی بپتا سناکر انکی پول نہ کھول سکے۔ یہ مہاجر اچھی اور بہتر زندگی کی آس میں یورپ جانے کیلئے اپنی زندگیوں کو داﺅ پر لگاتے ہیں اور جو ان ملکوں میں پہنچ جاتے ہیں وہاں بھی انہیں دھکے ہی ملتے ہیں اور یوں انکے سارے خواب چکنا چور ہورہے ہیں۔ آخر یہ ممالک بھی کب تک انکا بوجھ برداشت کریں گے۔ ۔ اٹلی نے تو مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ جرمنی میں مہاجرین قبول کرنے کے معاملے پر حکومت ، عوام اور اپوزیشن کی طرف سے عتاب کا شکار ہے۔یونان کی معیشت کسی طور پر مہاجر قبول کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ یورپی ملکوں کو چاہئے کہ وہ جن جن ملکوں سے مہاجرین آرہے ہیں ان پر زور ڈالے کہ انسانی اسمگلروں کو قرار واقعی سزا دیں اور اپنے سمندروں پر نظر رکھیں تاکہ غیر قانونی طور پر کوئی بھی ملک سے نہ جاسکے۔ پاکستان کو انسانی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنے ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جرم میں ملوث افراد سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں, ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجنے والے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اور اس پر خطر راستے کا انتخاب کرنے والوں میں سے کئی موت کے منہ بھی چلے گئے۔پاکستان میں اس مسئلے کی بڑی وجوہات میں بیروزگاری میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کو بھی شمار کیا جاتا ہے، جس کے باعث عام شہری قانونی یا غیر قانونی طریقے سے ترک وطن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری ہیں، تاہم انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے نتائج اب بھی تسلی بخش نہیں امریکی محکمہ خارجہ کی انسانوں کی اسمگلنگ کے موضوع پر تیار کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں 2022ء سے پاکستان کی درجہ بندی ‘ٹیئر ٹو‘ میں کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کی گئی تشریح کے مطابق اس ٹیئر میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو انسانی اسمگلنگ کے امریکی قانون کے معیار پر تو پورے نہیں اترتے لیکن اس حوالے سے خاطر خواہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستان سے انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے فعال ہیں۔ ان میں صوبائی پولیس کے محکمے بھی شامل ہیں اور وفاقی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یا ایف آئی اے کا امیگریشن ونگ بھی۔’پاکستان گزشتہ چند برسوں سے ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر ایف آئی اے نے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف ایک جامع آپریشن شروع کیا تھا، جس کے اب تک کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں,