تحریر: ریحان خان
اسلام آباد، جمعہ، 7 مارچ 2025 (ٹی این ایس): فلسطین کے سفارتخانے نے ایک خصوصی تقریب کا انعقاد کیا جس میں دو کم عمر پاکستانی بہن بھائی، عبیدہ الفدہ حفیہ (11 سال) اور غلام بشر حفی (13 سال) کو غزہ کے بچوں کے حق میں ان کی مستقل مزاجی اور موثر وکالت پر اعزاز سے نوازا گیا۔
پاکستان میں تعینات فلسطینی سفیر ڈاکٹر زہیر زید نے ان بچوں کی فلسطینی جدوجہد کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی پر گہری مسرت اور تشکر کا اظہار کیا۔ ایک سرکاری تعریفی خط میں، انہوں نے ان کی جراتمندانہ کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں انصاف اور انسانیت کی علامت قرار دیا۔
“میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ آپ کی ہمت، محبت کی پاکیزگی اور بے پناہ ہمدردی نے مجھے کس قدر متاثر کیا ہے،” ڈاکٹر زید نے لکھا، اور اس بات پر زور دیا کہ ان کا پیغام اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ “انسانیت اپنی خالص ترین شکل میں اب بھی زندہ ہے۔”
انہوں نے اس قربانی کے اثرات کو سراہتے ہوئے کہا کہ “یہ عمل چھوٹا سہی، لیکن اس کی معنویت بے حد عظیم ہے۔” انہوں نے ان کی وکالت کو “ایک ناقابلِ شکست رشتہ” قرار دیا جو پاکستان اور فلسطین کے عوام کے درمیان فاصلے اور وقت کی قیود کو پار کر گیا ہے۔
سفیر نے مزید کہا کہ ان کم عمر بچوں نے “درد کو طاقت میں، غم کو امید میں اور خاموشی کو ایک ایسی آواز میں بدل دیا جو سرحدوں کے پار گونجتی ہے۔” انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کی تحریریں، “جو اتنے کمسن ہاتھوں سے لکھی گئیں مگر ان کے دل بے حد وسیع ہیں،” ایک غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر زید نے ان کی عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انصاف کے لیے محبت اور سچائی کا راستہ اختیار کیا، نہ کہ تشدد کا۔ انہوں نے تحریر کیا کہ “آپ کے خون نے معصوموں کی فریادوں میں اپنی آواز شامل کر دی ہے،” اور مزید کہا کہ ان کا عمل “اندھیرے میں امید کا چراغ ہے۔”
اپنی تقریر کے اختتام پر، فلسطینی سفیر نے یقین دہانی کرائی کہ ان کا پیغامِ قربانی کبھی ماند نہیں پڑے گا۔ انہوں نے کہا، “میرے دل کی گہرائیوں سے، میں آپ کا شکر گزار ہوں، آپ کو عزت دیتا ہوں، اور وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کا پیغام لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتا رہے گا۔”
تقریب کے دوران، سفیر زہیر زید نے اپنی کمسن بیٹی کے ہمراہ جذباتی اعلان کیا کہ اب سے، عبیدہ الفدہ اور غلام بشر کو وہ اپنے پانچ حقیقی بچوں کے ساتھ اپنا ہی بچہ تصور کریں گے۔
بچوں کے والد اور سرپرست، پروفیسر ڈاکٹر اورنگزیب حفی کے مطابق، سفیر نے کہا کہ فلسطین “ان دو بچوں، ان کی درخواستوں، قراردادوں اور غزہ کے بچوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ان کی جدوجہد” کو تسلیم کرتا ہے۔
ڈاکٹر زید نے پروفیسر حفی کے ساتھ اس امر پر بھی تبادلہ خیال کیا کہ غزہ میں یتیم بچوں، خصوصاً وہ جو معذوری کا شکار ہو چکے ہیں، کو تحفظ اور بحالی کی شدید ضرورت ہے۔
یہ اعزاز ان بہن بھائیوں کو ایک حالیہ تقریب کے بعد دیا گیا جو کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں ایک خصوصی ڈاکومنٹری دکھائی گئی جس میں ان کا منفرد احتجاج نمایاں کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے غزہ کے بچوں کی حالت زار کو اجاگر کرنے کے لیے اپنے خون سے تحریریں لکھی تھیں۔ اس تقریب میں انہیں اب تک کے سب سے کم عمر کارکنان کے طور پر تسلیم کیا گیا جو اس جدوجہد میں پیش پیش ہیں۔
ان کی احتجاجی مہم، جس میں خون سے لکھے گئے خطوط اور عالمی اداروں کو ارسال کردہ کھلے خطوط شامل ہیں، کو فلسطینی حکام کی جانب سے سب سے موثر وکالتی مہم میں شمار کیا گیا، اور اسے باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا۔
چند ہفتے قبل، غزہ میں جنگ بندی کے بعد، ان بہن بھائیوں نے اپنی مہم “بے زبانوں کی آواز” کو ازسرِ نو شروع کیا، جس کا مقصد فلسطینی معذور بچوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا تھا۔ ہزاروں بچے یتیم ہو چکے ہیں اور متعدد مستقل معذوری کا شکار ہو چکے ہیں، جس پر انہوں نے عالمی برادری سے فوری مداخلت اور بحالی کی اپیل کی۔
ان کی جدوجہد کا آغاز جون 2024 میں ہوا، جو 4 جون کو معصوم بچوں کے خلاف جارحیت کے بین الاقوامی دن سے منسلک تھا۔ ان کا پہلا احتجاج— خون سے تحریر کردہ خطوط— بین الاقوامی فورمز، بشمول اقوام متحدہ، کو پیش کیا گیا، تاکہ دنیا کو “بے زبانوں کی آواز” سننے پر مجبور کیا جا سکے۔
ان کی مہم ایک عالمی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے، جو ثابت کرتی ہے کہ انصاف اور انسانیت کی جدوجہد میں کم عمر آوازیں بھی سرحدوں سے پار گونج سکتی ہیں