(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) قائدِ عوام شہیدذوالفقاربھٹو کوبعداز شہادت اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان پاکستان عطا کیاگیاہے یوم پاکستان کے موقع پر ایوان صدر میں اعلیٰ ترین سول اعزازات دینے کی تقریب منعقد کی گئی صدر پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی شہید ذوالفقار بھٹو کو ملک، جمہوریت اور عوام کے لیے ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں نشانِ پاکستان عطا کیا، جو ان کی صاحبزادی صنم بھٹو نے وصول کیا۔ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی و قومی خدمات بیان کیے جانے کے دوران صنم بھٹو جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور آبدیدہ ہوگئیں، اس موقع پر ایوان صدر جیے بھٹو اور زندہ ہے بھٹو کے نعروں سے گونج اٹھا۔ تقریب میں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، خاتون اول آصفہ بھٹو اور دیگر شخصیات نے شرکت کی۔ذوالفقار علی بھٹوشہید پاکستان کی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں کہ جو اعلیٰ ترین سرکاری اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے ۔ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی مختصر سی زندگی میں اتنے کارنامے سر انجام دیے کہ ان کا شمار ممکن نہیں۔یہ یاد رکھیں کہ سندھ کے سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے ہاں پانچ جنوری 1928 کو پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد برکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں سے پولیٹیکل سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لنکنز ان سے وکالت پاس کی۔ 1953 میں کراچی واپس آئے اور قانون پڑھانے کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ وکالت بھی کی۔ 1957 اور 1958 میں ذوالفقار علی بھٹو نے سرکاری وفود میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اسی سال جنرل محمد ایوب خان نے 27 اکتوبر کو مارشل لا لگایا تو اس 30 سالہ نوجوان وکیل کو اپنا وزیر تجارت بنایا۔ بعد میں چھ سات وزارتیں ان کے پاس رہیں۔ 24 جنوری 1963 کو ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ بنے لیکن 17 جون 1966 کو ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی راہیں جدا ہو گئیں۔ 30 نومبر 1967 کو اپنی نئی سیاسی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، کے قیام کے صرف تین سال بعد 1970 کے انتخابات میں موجودہ (یا مغربی) پاکستان میں کل 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کیں اور خود پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے کل 300 میں سے 160 سیٹیں جیتی تھیں اور حکومت بنانے کی حق دار تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا اور دسمبر 1971 میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے نام سے علیحدہ ملک بن گیا۔ 20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ خان، جو 1969 میں ایوب خان کے بعد برسراقتدار آئے، نے آئین کی عدم موجودگی میں بطور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اپنے اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کر دیے۔ 20 اپریل 1972 کو عبوری آئین کے نفاذ کے ساتھ یہ مارشل لا ختم ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے 21 اپریل 1972 کو دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔14 اگست 1973 کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا تو بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف اٹھایا۔ سنہ 1974 میں 10 اور 11 نومبر کی رات کے احمد رضا قصوری نے فرد بیان کے ذریعے بھٹو کو اپنے والد کے قتل میں نامزد کیا اور اسی کی بنیاد پر ایف آئی آر درج ہوئی۔ اس وقت کے پنجاب پولیس کے سربراہ راؤ عبدالرشید کے مطابق احمد رضا قصوری کی طرف سے قتل کی ایف آئی آر میں بھٹو کا نام شامل کرنے کا مطالبہ انھوں نے تسلیم کیا
یہ ضرور یاد رکھیں کہ ملک کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو رات کے دوسرے پہر پھانسی دے دی گئی۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کو عدالتی قتل کہا جاتا ہے،لگ بھگ 47 سال قبل سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا , سپریم کورٹ 13 سال پہلے دائر کردہ صدارتی ریفرنس پر 6 مار چ 2024کواپنی رائے دے دی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کو ان کے خلاف مقدمۂ قتل میں فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا تھا۔صدر آصف علی زرداری نے سنہ 2011 میں یہ ریفرنس دائر کیا تھا اور گذشتہ 13 برسوں کے دوران اس صدارتی ریفرنس پر مجموعی طور پر 12 سماعتیں ہوئیں ,سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے اس صدارتی ریفرنس پر سات سماعتیں کرنے کے بعد چار مارچ 2024کو اس صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے کو محفوظ کیا تھا، جو 6 مار چ 2024 دی گئی .ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی دسمبر 1970 میں احمد رضا قصوری پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قصور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ انتخابات کے کچھ عرصہ بعد پارٹی کے چیئرمین سے ان کے اختلافات کا آغاز بھٹو کے اس اعلان سے ہوا کہ وہ تین مارچ 1971 کو ڈھاکا میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے نہ ہی کسی اور رکنِ اسمبلی کو ایسا کرنے دیں گے۔احمد رضا قصوری اس اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکا پہنچ گئے لیکن یہ اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ یہیں سے بھٹو اور قصوری کے درمیان فاصلے بڑھنے شروع ہو گئے۔جب قصوری واپس آئے تو بھٹو نے پارٹی پالیسی سے اختلاف کرنے پر قصوری سے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفا طلب کر لیا مگر قصوری نے انکار کر دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے یہ نشست پیپلز پارٹی کی بدولت نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کی بنیاد پر جیتی ہے۔ ’بھٹو نے معراج خالد، حنیف رامے اور یعقوب خان کے الزامات کی روشنی میں احمد رضا قصوری کو پارٹی رکنیت سے معطل کر دیا۔ اگلے دن قصوری نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو کو پیپلز پارٹی کی چیئرمین شپ سے برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔‘ چھ جون 1971 کو پیپلز پارٹی کی مجلس عاملہ نے قصوری کو باضابطہ طور پر پارٹی کی رکنیت سے خارج کر دیا اور یوں بھٹو اور قصوری کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہو گئی 1973 کا آئین منظوری کے لیے ایوان میں پیش ہوا تو قصوری ان تین افراد میں شامل تھے جنھوں نے اس پر دستخط نہیں کیےچار جون 1974 کو بھٹو نے قومی اسمبلی میں تقریر کر تے ہوئے کہا کہ ’آئین پر حزب اختلاف کے تمام ارکان نے آئین پر دستخط کیے ہیں اور یہ ایک متفقہ آئین ہے۔احمد رضا قصوری نے ٹربیونل میں بیان حلفی میں تسلیم کیا کہ یہ ضروری نہیں کہ حملہ وزیراعظم کے ساتھ ان کی دشمنی کے نتیجے میں ہی ہوا ہو‘قصوری نے وزیراعظم کو رقت آمیز خطوط لکھے۔ وزیراعظم نے آخر کار قصوری کو پارٹی کی صفوں واپس لینے پر رضامندی کا اظہار کر دیاچھ اپریل 1976 کو انھوں نے بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات میں ان سے درخواست کی کہ وہ پارٹی میں ان کی واپسی کے موقعے پر اپنی موجودگی سے عزت بخشیں۔‘ اگلے دن انھوں نے اپنی ماڈل ٹاؤن لاہور کی قیام گاہ پر کارکنوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی میں اپنی دوبارہ شمولیت کے فیصلے کا اعلان کیا۔ استقبالیے میں انھوں نے وزیراعظم کی بے حد تعریف کی۔ ان کی والدہ بیگم نواب محمد احمد خان قصوری نے سر عام اعلان کیا کہ وہ وزیراعظم پر اپنے تمام بیٹے قربان کر دیں گی کیونکہ وزیراعظم بھٹو کے بغیر پاکستان باقی نہیں رہے گا۔‘مارچ 1977 کے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے احمد رضا قصوری کو ٹکٹ نہیں دیا۔پانچ جولائی1977 کو جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ احمد رضا قصوری کے مطابق انھوں نے لگ بھگ ایک ہفتے بعد لاہور کے سیشن جج کی عدالت میں نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا استغاثہ دائر کر دیا۔کچھ دنوں بعد میں نے ہائیکورٹ میں درخواست دی کہ ملزمان طاقتور ہیں اس لیے عدالت اپنی اوریجنل کریمینل جوریسڈکشن میں اس مقدمے کو اپنے پاس ٹرانسفر کر لے۔‘ ’ہائیکورٹ نے ساتھ ایف آئی آر لگی دیکھ کر ایڈووکیٹ جنرل کو بلایا۔ ان کی بجائے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل راشد عزیز خان پیش ہوئے جنھوں نے اپنے کلائنٹ، پنجاب حکومت، سے رہنمائی لینے کے لیے 15 دن کی مہلت مانگی۔ 15 دن بعد انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ہم کیس لے کر آ رہے ہیں۔ تو ہم نے اپنا استغاثہ اس میں ضم کر دیا۔‘ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر1977کو پہلی مرتبہ تعزیرات ِپاکستان کے تحت ’قتل کی سازش‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن 10 روز بعد ان کی ضمانت ہو گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر کو ثبوتوں کو ’متضاد اور نامکمل‘ قرار دیتے ہوئے بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کی۔ 17 ستمبر کو نواب محمد احمد قصوری کے قتل میں انھیں پھر گرفتار کیا گیا مگر اس بار مارشل لا قوانین کے تحت اور پھر ایک ماہ بعد بھٹو کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا۔لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے اپنی سربراہی میں جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین اور جسٹس گل باز خان پر مشتمل پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا اور بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو بینچ سے باہر رکھا گیا۔مولوی مشتاق نے بینچ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا۔ ذکی الدین پال بھٹو کے سخت مخالف تھے۔ آفتاب حسین مولوی مشتاق کے منظور نظر تھے اور انھوں نے ان ہی کے مطابق چلنا تھا۔ باقی دو ججز اختلافی فیصلے نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد اور نفرت ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ان کے دور میں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننے کی جنون کی حد تک خواہش میں انھوں نے سپریم کورٹ کا جج بننا بھی قبول نہ کیا۔ بھٹو کی حکومت نے ان سے آٹھ سال جونیئر جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنایا انھوں نے استعفا نہ دیا مگر بھٹو کے خلاف دل میں مستقل عناد پال لیا۔ ضیا الحق نے اس ذاتی رنجش کا فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں قائم مقام چیف جسٹس بنایا۔ بھٹو ان کی نفرت سے واقف تھے اس لیے انھوں نے ٹرائل کورٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔ مقدمے کی منتقلی کی ان کی درخواست کو بھی مولوی مشتاق نے اپنے چیمبر میں سماعت کے بعد مسترد کر دیا۔فیڈرل سکیورٹی فورس کے دیگر چار اہلکاروں کا ٹرائل بھی اسی مقدمے میں ہو رہا تھا۔ ابتدا میں کورٹ کی کارروائی عام لوگوں کے لیے کھلی تھی مگر 25 جنوری 1978 کے بعد اسے خفیہ قرار دے دیا گیا۔ 18 مارچ 1978 کو ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنا دی۔سپریم کورٹ نے چھ فروری 1979 کو چار اور تین کے تناسب سے منقسم فیصلے میں ہائیکورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔اس فیصلے سے تین ججوں جسٹس کرم الٰہی چوہان، جسٹس محمد اکرم اور جسٹس نسیم حسن شاہ نے اتفاق کیا جبکہ جسٹس صفدر شاہ، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس محمد حلیم نے اختلافی نوٹ لکھے۔ جسٹس انوارالحق نے کاسٹنگ ووٹ کا حق استعمال کرکے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ ہموار کر دی۔فیصلہ دینے والا بینچ ابتدا میں نو ججوں پر مشتمل تھا مگر تکنیکی انداز میں دو ججوں کو مطلوبہ فیصلے کی راہ ہموار کرنے کے لیے بینچ سے الگ کر دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار کی نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کر دی گئی تاہم اس میں صدر کے پاس رحم کے اختیار کو استعمال کرنے کا راستہ دکھایا گیا۔صدر نے رحم کی عرضداشت کو پڑھنا تک گوارا نہیں کیا اور بغیر پڑھے ہی مسترد کر دیا۔ملک کے پہلے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو رات کے دوسرے پہر پھانسی دے دی گئی۔
سقوط ڈھاکاکے بعد بھٹو شہید نے شکست خوردہ قوم اور فوج کے زخموں پر مرحم رکھنا شروع کردیا،بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ان کا سفارت کاری کا منہ بولتا ثبوت تھا جس کے نتیجے میں نوئے ہزار قیدیوں کی رہائی اور ہزاروں مربع میل کا علاقہ واپس لینا انہی کی شخصیت کا مرہون منت تھا،متفقہ آئین اورامت مسلمہ کویکجاکرنا،پاک چین دوستی اورایٹمی صلاحیت حاصل کرکے قوم کافخر بلندکرنابھی بھٹو شہید کے اہم کارنامے ہیں۔ بھٹو شہیدنے پاکستان کوایٹمی صلاحیت حاصل کرنا خطے میں طاقت کے توازن کیلئے ایک لازمی امر قرار دیتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کے بانی اورملک کے پہلے منتخب وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اعلی ترین سول اعزاز نشانِ پاکستان ملنے کو تاریخ کا اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو کو نشان پاکستان کا اعزاز ملنا کسی اعزازسے کم نہیں، بانی پیپلزپارٹی اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم کو بعد ازشہادت اعلی ترین سول اعزاز ملنا تاریخ کا اہم سنگ میل ہے، آئینِ پاکستان کے خالق شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لیے اس اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشانِ پاکستان کا اعزاز بھٹوازم کے نظریے کی ایک اور فتح ہے۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو نشانِ پاکستان کا اعزاز ملنا ان کی ملک کے لیے گراں قدر خدمات کا اعتراف ہے، قائدِ عوام نے عوام کو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کا شعور دیا اور ان کی آواز بنے۔انہوں نے مزید کہا کہ وقت کے آمر نے فخرِ ایشیا شہید بھٹو کی آواز دبانے کی کوشش کی مگر وہ آج بھی گڑھی خدا بخش سے عوام کے دلوں میں راج کر رہے ہیں۔بلاول بھٹو نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان پیپلزپارٹی بھٹوازم کی پیروکار ہے اور اپنے شہید بانی کے مشن پر ہمیشہ گامزن رہے گی۔یہ ضرور یاد رکھیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک سیاسی جماعت ہے اوراس وقت پاکستان کی دوسری بڑی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھی۔ اس پارٹی نے 1970ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں واضح اکثریت سے جیت لیے۔ فوج نے جب اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا تو اس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں نکلا۔ اس مشکل صورت حال میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالی۔ 1977ء میں فوج نے ماضی سے سبق حاصل کیے بغیر دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ایک فرضی مقدمے میں پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم کو سزائے موت دے دی گئی۔ تمام تر ریاستی بندوبست کے باوجود پیپلز پارٹی کو ختم نہیں کیا جاسکا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس کی قیادت عملاچیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اب بھی پاکستان کی بڑی جماعت ہےذوالفقار علی بھٹو شہید ایک تاریخ ساز اور عہد آفریں شخصیت تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا نام اور ناقابل فراموش کردار ہیں اور پاکستان کی تاریخ انکے زکر سے ہمیشہ مزین رہے گی ۔انہوں نے اپنی صرف 51 سالہ زندگی میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا جو تاریخ میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے ۔ بھٹو شہید پاکستان کی تاریخ کی واحد شخصیت تھے جو اعلی ترین سرکاری اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ، سپیکر، وزیر اطلاعات و نشریات، وزیر قومی تعمیر نو، وزیر دیہی ترقی، وزیر بلدیات، وزیر سیاحت اور وزیر اقلیتی امور۔ وزیر ایندھن، پانی، بجلی اور قدرتی وسائل کی وزارت پر بھی فائز تھے ۔وہ انتہائی مدبر سیاستدان، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بے حد وسیع المطالعہ، عوام اور وقت کے نبض شناس اور منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ شہید بھٹو نے دنیا سے اپنی خطابت و ذہانت کا لوہا منوایا۔ دنیا بھر میں بالخصوص پاکستانی عوام کی بھاری اکثریت آج بھی ان کا احترام کرتی ہے۔پانچ جنوری کو قائد عوام شہید ذوالفقارعلی بھٹو کایوم پیدائش ملک بھر میں اور پوری دنیا میں بھٹو شہید کے چاہنے والے انتہائی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں ان کی سحر انگیز مسکراہٹ اور قابل داد ذہانت کا ایک زمانہ معترف ہے۔یہ سچ ہے کہ ذوالفقار بھٹو شہید آج بھی عوام کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں، وہ ایک کرشمہ سازلیڈرتھے،شہید بھٹو کی جدوجہد سے استحصال کرنے والے طبقات کے قلعے زمین بوس ہوگئے۔بلاول بھٹو زرداری کا اپنے نانا شہید کے بارے کہنا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹو عوام کی طاقت کی علامت تھے،انہوں نے عوام کو سیاسی شعور دیا اور با اختیاربنایا، انہوں نے پاکستان کو پہلا متفقہ آئین اور جوہری پروگرام دیا، قائد عوام کے مشن کیلئے بینظیر بھٹو نے زندگی بھر جدوجہد کی اور ہم اس مشن کو جاری و ساری رکھیں گے۔ان کی پوری زندگی عوام اور ملک کی ترقی اور بہتری کی جد وجہد میں گزری انکے دور حکومت میں ہونیوالے کام پاکستان کی ترقی کی بنیاد بنے۔