اسلام آباد (ٹی این ایس) وفاقی حکومت کامتوازن,عوام دوست بجٹ پیش ; دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافےکی تجویز

 
0
11

 ( اصغرعلی مبارک )

اسلام آباد (ٹی این ایس) وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے متوازن اور عوام دوست وفاقی بجٹ پیش کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے 175کھرب سے زائد (17 ہزار 573 ارب) کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہےوزیر خزانہ کا بجٹ تقریر میں کہنا تھاکہ یہ بجٹ انتہائی اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، حالیہ پاک بھارت جنگ میں قوم نے یکجہتی کا مظاہرہ کیا، حالیہ جنگ میں کامیابی پر عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد دیتا ہوں، عالمی برداری میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے۔ قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے ہماری توجہ اب معاشی ترقی پر ہے، معاشی اصلاحات کے ذریعے معاشی استحکام لایا گیا، معیشت کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے، افراط زر میں نمایاں کمی ہوئی اور ترسیلات زر 10 ماہ میں 36ارب ڈالر رہیں بجٹ میں تنخواہوں میں 10 اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی جبکہ تنخواہوں پر بھی انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔بجٹ دستاویز کے مطابق مالی سال 26-2025 میں دفاع کے لیے 20 فیصد اضافےکے ساتھ2 ہزار 550 ارب روپے رکھےگئے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں دفاع کے لیے 2 ہزار 122 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال خطرات سے دوچار ہے اور مسلح افواج نے سرحدوں کے تحفظ کے لیے قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان خدمات کے اعتراف میں مسلح افواج کے افسران، سولجرز اور JCOsکے لیے اسپیشل ریلیف الاؤنس دینے کی تجویز ہے۔ یہ اخراجات مالی سال 26-2025 کے لیے مختص دفاعی بجٹ سے پورے کیے جائیں گے۔وزیرخزانہ نے بتایاکہ 6 لاکھ روپے سے 12لاکھ روپے تنخواہ پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد کردی گئی جبکہ 22 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے11فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

انہوں نے بتایاکہ 22لاکھ روپے سے 32لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس 25سےکم کرکے23فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ بجٹ 2025-26 میں جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی 3.5 فیصد شرح کم کرکے 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے جبکہ اسلام آباد میں جائیداد کی خریداری پر اسٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 میں آئن لائن خریداری پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنےکی تجویز دی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیسز کی تیزی سے ترقی نے ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے روایتی کاروباروں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معیاری مسابقتی فضا پیدا کرنے اور ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانےکے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہےکہ ای کامرس پلیٹ فارمز کی طرف سے ترسیل کرنے والےکورئیر اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے ان ای کامرس پلیٹ فارمز سے سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے۔ اس کے علاوہ بجٹ 2025 میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ پچھلی کچھ دہائیوں میں پنشن اسکیم میں ایگزیکٹو آڈرز کے ذریعے تبدیلیاں کی گئیں جس کی وجہ سے سرکاری خزانے پر بوجھ بڑھا، پنشن اسکیم کو درست کرنے اور سرکاری خزانے پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے پنشن اسکیم میں اصلاحات کی ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن اسکیم میں جو اصلاحات کی گئی ہیں ان میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی حوصلہ شکنی اور پنشن میں اضافہ کنزیومر پرائس انڈیکس سے منسلک کیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ شریک حیات کے انتقال کے بعد فیملی پنشن کی مدت 10 سال تک محدود کی گئی ہے جب کہ ایک سے زائد پنشنز کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ ملازمت کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔مالی سال 2025-2026 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح4.2فیصد رہنے کا امکان ہے، افراط زر کی اوسط شرح 7.5فیصد متوقع ہے، بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9فیصد ، پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4فیصد ہوگا. وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے ہے، اس کے علاوہ دفاعی بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور بجٹ میں دفاع کیلئے 2550 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے ہوگی جبکہ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 17ہزار 573 ارب روپے ہے، پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کےلیے ایک ہزار ارب کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔بجٹ میں تنخواہوں میں 10 اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی جبکہ تنخواہوں پر بھی انکم ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ وزیرخزانہ نے بتایاکہ 6 لاکھ روپے سے 12لاکھ روپے تنخواہ پر ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد کردی گئی جبکہ 22 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر کم سے کم ٹیکس کی شرح 15 فیصد کے بجائے11فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایاکہ 22لاکھ روپے سے 32لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر ٹیکس 25سےکم کرکے23فیصد کرنے کی تجویز ہے۔بجٹ 2025-26 میں جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کرکے 2.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی 3.5 فیصد شرح کم کرکے 2 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ پلاٹس اور گھروں کی منتقلی پر 7 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے جبکہ اسلام آباد میں جائیداد کی خریداری پر اسٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 سے کم کرکے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترامیم کی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ آن لائن کاروبار اور ڈیجیٹل مارکیٹ پلیسز کی تیزی سے ترقی نے ٹیکس قوانین کی پاسداری کرنے والے روایتی کاروباروں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معیاری مسابقتی فضا پیدا کرنے اور ٹیکس قوانین کی مکمل پاسداری کو یقینی بنانےکے لیے یہ تجویز کیا جاتا ہےکہ ای کامرس پلیٹ فارمز کی طرف سے ترسیل کرنے والےکورئیر اور لاجسٹکس خدمات فراہم کرنے والے ادارے 18 فیصد کی شرح سے ان ای کامرس پلیٹ فارمز سے سیلز ٹیکس وصول کرکے جمع کرائیں گے۔ اس کے علاوہ بجٹ 2025 میں سولر پینلز کی درآمد پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔بجٹ سے قبل آج پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس تاریخی بلندی پر بند ہوا ہے۔ 100 انڈیکس 383 پوائنٹس اضافے سے 122024 پر بند ہوا ہے۔ 100 انڈیکس نے کاروباری دن میں 122611 کی نئی ریکارڈ بلند ترین سطح بنائی ہے۔ بازار میں 59 کروڑ شیئرز کے سودے 21.8 ارب روپے میں طے ہوئے۔ مارکیٹ کیپٹلائزیشن 40 ارب روپے بڑھ کر 14768 ارب روپے ہےوفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے قومی اسمبلی میں بجٹ 26-2025 کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ مالی سال میں صحت کے شعبے کے لیے 14.3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس سے جاری 21 منصوبوں پر کام مکمل کیا جائے گا ۔ انہوں نے بتایا کہ مذکورہ بجٹ کا مقصد صحت کے شعبے میں بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا، حفاظتی اقدامات کو فروغ دینا اور معیاری طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے ۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق تدریسی سہولیات اور ہسپتال: ٹیچنگ ہسپتالوں اور ٹرشری کیئر سہولیات کے لیے 14 ارب روپے سے زائد فنڈز فراہم کیے گئے ۔ مذکورہ فنڈز سے صحت کی سہولیات یعنی ہسپتالوں اور طبی مراکز کو جدید طبی آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ مجوزہ فنڈز سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک نیا کینسر ہسپتال بھی قائم کیا جائے گا۔ اسی طرح صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کو اپ گریڈ کیا جائے گا تاکہ عوام کو بہتر طبی خدمات فراہم کی جا سکیں۔ صحت کے لیے مختص کیے جانے والے فنڈز سے ملک بھر میں ہیپاٹائٹس سی اور شوگر کی اسکریننگ اور علاج پر بھی اخراجات کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 26-2025 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے، اس مخلوط حکومت کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصا میاں محمد نواز شریف ، بلاول بھٹو، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جناب اسپیکر، یہ بجٹ نہایت اہم اور تاریخی موقع پر پیش کیا جارہا ہے، قوم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اتحاد، عزم اور ہمت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے، بھارتی جارحیت کے مقابل ہماری سیاسی قیادت، افواج پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام نے جس جواں مردی، دانشمندی اور یکجہتی کا ثبوت دیا، وہ تاریخ کے سنہری اوراق میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ کامیابی ایک شاندار عسکری کامیابی کے علاوہ پوری قوم کے اجتماعی شعور، قومی وقار اور غیرت کا مظہر تھی، میں یہاں پر پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بجٹ 26-2025 کے اہم خدوخال میں کل اخراجات کا تخمینہ 17 ہزار 573 ارب روپے,8 ہزار 207 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص,جاری اخراجات کا تخمینہ 16 ہزار 286 ارب روپے,حکومت کی خالص آمدنی 11 ہزار 72 ارب روپے,ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 14ہزار 131 ارب روپے,نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے,ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب روپے رکھے گئے ہیں

ملکی دفاع کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے مختص,پنشن کیلئے ایک ہزار 55 ارب روپے رکھنے کی تجویز,بجلی و دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار 186 ارب روپے مختص,گرانٹس کی مد میں ایک ہزار 928 ارب روپے مختص,جاری اخراجات میں سے آزاد کشمیر کیلئے 140 ارب، گلگت بلتستان کیلئے 80 ارب، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے رکھنے کی تجویزہے ان کا کہنا تھا کہ ہماری افواج نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت، شجاعت اور جذبہ قربانی سے دشمن کو مؤثر اور بھر پور جواب دیا، جس سے نہ صرف ہماری سرحدوں کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا بلکہ عالمی برادری میں پاکستان کا وقار بھی بلند ہوا، اس عظیم کامیابی نے یہ پیغام دیا کہ پاکستانی قوم ہر آزمائش میں متحد ہے اور مادر وطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اسی قومی عزم اور یکجہتی کو بروئے کار لاتے ہوئے اب ہماری توجہ معاشی استحکام، ترقی اور خوشحالی کے حصول کی جانب مرکوز ہے، ہم نے جس جذبے سے قومی سلامتی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہے، اُسی خلوص اور حوصلے کے ساتھ ہمیں اپنی معیشت کو مستحکم اور عوام کی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ دفاعی اخراجات کے لیے 2 ہزار 550 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے، یہ رقم جو گزشتہ سال کے بجٹ سے 20.2 فیصد زائد ہے، جو جی ڈی پی کا 1.97 فیصد بنتا ہے، تاہم یہ گزشتہ سال کے 1.71 فیصد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پچھلے لگ بھگ سوا ایک سال کے دوران قومی اتحاد اور عزم کے جذبے کے ساتھ معاشی بحالی، اصلاحات اور ترقی کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے اور معاشی اصلاحات، مالیاتی نظم و ضبط، اور ترقیاتی منصوبہ بندی کو یکجا کرتے ہوئے نہ صرف معیشت کو استحکام بخشا ہے بلکہ مستقبل کی بنیادیں بھی مضبوط کی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ یہی ویژن ہمیں آگے بڑھاتا ہے، ایک ایسے پاکستان کی طرف جہاں ترقی ہر فرد کی دہلیز تک پہنچے، اور قوم بحیثیت مجموعی خوشحال ہو، راہ پر قائم، خوشحالی دائم یہی ہمارا عزم، ہماری حکمت عملی اور ہمارا نعرہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جناب اسپیکر ! ہم نے گزشتہ سال معیشت کی بہتری کے لیے کئی اہم اقدامات کیے، جن کے نتیجے میں مالی نظم و ضبط میں نمایاں بہتری آئی اور ہمیں کئی کامیابیاں حاصل ہوئیں، جی ڈی پی کے 2.4 فیصد کے برابر پرائمری سرپلس کا حصول۔ افراط زر میں نمایاں کمی 4.7 فیصد ,پچھلے سال کے 1.7 ارب ڈالر خسارے کے مقابلے میں اس سال سرپلس کرنٹ اکاؤنٹ 1.5 ارب ڈالر متوقع,روپے کی قدر میں استحکام۔ترسیلات زر موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں 31 فیصد اضافے کے ساتھ 31.2 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، ہم پر امید ہیں کہ موجودہ مالی سال کے اختتام تک ترسیلات زر کا حجم 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
اسٹیٹ بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں دو ارب ڈالر کا اضافہ ہو چکا ہے، موجودہ سال کے اختتام تک یہ ذخائر 14 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی بہتری کے لیے حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑے، پاکستان کے غیور عوام نے بھی متعدد قربانیاں دیں جن کے مثبت نتائج سامنے آئے، وزیر خزانہ نے کہا کہ ہمارا سب سے اہم معاشی مسئلہ محصولات کے نظام کی مسلسل کمزوری تھی، پاکستان کی ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ 10 فیصد تھی جو کہ ترقیاتی اخراجات اور ریاست کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے ناکافی تھی۔مزید برآں، ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں ٹیکس گیپ کا تخمینہ 5.5 ٹریلین روپے لگایا گیا، یعنی ہم آدھے سے زیادہ ممکنہ ٹیکس سے محروم تھے، یہ صورت حال ناقابل قبول تھی، اس خلا کو پُر کرنا نہ صرف ضروری تھا بلکہ ملک کو 14 فیصد ’ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو‘ کی پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالنا ناگزیر تھا۔۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی تھی کہ ایف بی آر اس حل کا محض ایک حصہ نہیں بلکہ بنیاد ہے، ایف بی آر میں اصلاحات کیے بغیر معیشت کو مستحکم کرنا اور قومی اہداف حاصل کرنا ممکن نہ تھا، اسی لیے وزیر اعظم کی سربراہی میں ایف بی آر اصلاحاتی پلان کا آغاز کیا گیا، یہ کوئی روایتی مشق نہیں تھی بلکہ وزیراعظم کی براہ راست نگرانی میں ایک تفصیلی مشاورت کے ذریعے تیار کیا گیا منصوبہ تھا جس کی ستمبر 2024 میں منظوری دی گئی، اس منصوبے کی بنیاد 3 ستونوں پر ہے، (عوام، ترقی اور ٹیکنالوجی)۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا محور ڈیجیٹل اصلاحات ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ معیشت اور ٹیکس نظام کے درمیان جامع ڈیجیٹل ہم آہنگی کا آغاز کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت اٹھائے گئے اہم اقدامات میں (ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ) کا آغاز چینی کے شعبے سے کیا گیا جسے اب سیمنٹ، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل تک توسیع دی جا رہی ہے۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ہم انسانی وسائل کی ترقی پر بھی بھر پور سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آڈیٹرز کی صلاحیت سازی کے لیے کے لیے نئی بھرتیاں کی گئی ہیں جب کہ شعبہ جاتی ماہرین اور آڈٹ مینٹورز کو کلیدی اکائیوں میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ تربیت اور پیشہ ورانہ رہنمائی کا تسلسل برقرار رکھا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ افسران کو آڈٹ، قانون اور ڈیجیٹل مہارتوں پر مبنی منظم تربیتی پروگرامز کے ذریعے مہارت دی جارہی ہے، پیچیدہ قانونی مقدمات کی پیروی کے لیے صف اول کی قانونی فرموں کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب افسران کو انعامات محض سینارٹی سے نہیں بلکہ ان کی کارکردگی، پیشہ ورانہ رویے اور دیانت داری سے مشروط کیا گیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار آئی ایم ایف نے قوانین کے نفاذ کے ذریعے 389 ارب روپے کے محصولات کو باضابطہ تسلیم کیا ہے، یہ غیر معمولی اعتراف ہمارے اصلاحاتی اقدامات کی طاقت، وسعت اور ساکھ کا واضح ثبوت ہے، دوسرے الفاظ میں یہ آئی ایم ایف کا پاکستان کی اصلاحات پر اعتماد کا مظہر ہے، جو لوگ منی بجٹ کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے، میں بڑے ادب سے ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کوئی منی بجٹ نہیں آیا اور نہ ہی کوئی اضافی ٹیکس لگایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی ٹیکس دہندگان مقدمات کے ذریعے ٹیکس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کیسز کی کمزور پیروی کی وجہ سے حکومتی محاصل طویل عرصے تک التوا کا شکار رہتے ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اس سال ایف بی آر نے کامیاب قانونی چارہ جوئی کے ذریعے 78.4 ارب روپے کے محاصل وصول کر لیے ہیں، اس اہم کامیابی پر میں قانونی ٹیم اور معزز عدلیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں، اس کے علاوہ عدالتوں میں اے ڈی آر سے متعلق ایک مقدمے کو مذاکراتی تصفیہ کے ذریعے حل کیا گیا جس سے قومی خزانے کو 77 ارب حاصل ہوئے۔