اسرائیل (ٹی این ایس) اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کر دی ہے، جو بظاہر سکیورٹی خدشات اور فضائی خطرات کی بنیاد پر ہے، لیکن باخبر ذرائع اور ماہرین کے مطابق اس اقدام کے پیچھے ایک گہری حکمتِ عملی کارفرما ہے۔
ذرائع کے مطابق اسرائیلی حکام کو اندیشہ ہے کہ اگر موجودہ کشیدگی اور جنگی صورتحال کے دوران شہریوں کو ملک سے باہر جانے کی کھلی اجازت دے دی گئی، تو بڑی تعداد میں اسرائیلی باشندے، بالخصوص وہ افراد جو جنگ میں شامل ہونے سے بچنا چاہتے ہیں، ملک چھوڑ دیں گے۔
آبادیاتی خلاء:
مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے اسرائیلی آبادکار اگر ان کشیدہ حالات میں فرار اختیار کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف زمینی قبضے کے لیے چیلنج ہوگا بلکہ اخلاقی اور سیاسی سطح پر اسرائیل کے موقف کو بھی دھچکا پہنچے گا۔
فوجی افرادی قوت میں کمی:
اسرائیل کے دفاعی ماہرین کے مطابق ملک اس وقت ہر ممکن جنگی صلاحیت اور قومی یکجہتی کا متقاضی ہے۔ اگر نوجوان، تربیت یافتہ یا بھرتی کے اہل افراد ملک چھوڑ دیں، تو اسرائیلی فوج میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے۔
قوم پرستی اور ریاستی بیانیہ کی مہم
اسرائیل میں اس وقت ایسی پالیسیوں پر عمل جاری ہے جن کا مقصد شہریوں کو ذہنی، جسمانی اور عملی طور پر ملک سے وابستہ رکھنا ہے۔ میڈیا کے ذریعے جنگ کو “قوم پرستی” اور “بقاء کی جنگ” کا رنگ دیا جا رہا ہے تاکہ عوامی جذبات کو ابھارا جا سکے۔
ماہرین کی رائے:
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف ایک وقتی سفری پابندی نہیں بلکہ ایک منظم آبادیاتی، عسکری اور نظریاتی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ اگر بڑی تعداد میں شہری بیرونِ ملک نقل مکانی کرتے ہیں، تو یہ دنیا کو یہ تاثر دے سکتا ہے کہ اسرائیلی ریاست اپنے دفاع میں ناکام ہو چکی ہے۔
اسرائیل کا اپنے شہریوں پر سفری پابندی لگانا نہ صرف موجودہ جنگی تناظر میں ایک احتیاطی قدم ہے بلکہ ایک طویل المدتی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد اندرونی یکجہتی، فوجی قوت کی بقاء اور ریاستی بیانیے کو مستحکم رکھنا ہے۔