پشاور (ٹی این ایس) ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ پولیس پیکا ایکٹ کے تحت صحافیوں پر مقدمہ درج نہیں کر سکتی

 
0
95

پشاور، 4 جولائی 2025 (ٹی این ایس)—پشاور ہائی کورٹ نے ایک اہم اور تاریخی فیصلے میں واضح کیا ہے کہ پولیس کو پیکا ایکٹ (انسدادِ جرائمِ الیکٹرانک ایکٹ) کے تحت صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔ عدالت نے مردان سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد زاہد کے خلاف درج ایف آئی آر کو ماورائے قانون قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت کا فیصلہ
بینچ، جسٹس صاحبزادہ اسداللہ خان اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل تھا، جنہوں نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ:
“پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس کو قانونی اختیار حاصل نہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 20، 500 اور 506 کا اطلاق بھی پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا، لہٰذا محمد زاہد کے خلاف درج ایف آئی آر غیر قانونی ہے اور اسے فوری طور پر خارج کیا جاتا ہے۔”

وکلا کی قانونی معاونت
درخواست گزار صحافی محمد زاہد کی طرف سے معروف قانون دان نجم الدین خان ایڈوکیٹ نے کیس کی پیروی کی، جنہوں نے مؤثر دلائل کے ذریعے عدالت کو قائل کیا۔اسی طرح مردان پریس کلب کی طرف سے ممتاز وکیل شبیر حسین گگیانی نے بھی قانونی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے صحافی کے مؤقف کی حمایت کی۔

صحافتی حلقوں کا ردعمل
اس فیصلے پر ملک بھر کے صحافتی اداروں اور آزادی صحافت کے حامیوں کی جانب سے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ مردان پریس کلب سمیت دیگر پریس کلبز اور صحافتی تنظیموں نے اس عدالتی فیصلے کو آزادی اظہار رائے اور صحافت کی حفاظت کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔

صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے نہ صرف پیکا ایکٹ کے غلط استعمال کی روک تھام ہوگی، بلکہ میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں کو بھی قانونی مزاحمت ملے گی۔

یہ فیصلہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو مختلف قوانین کے تحت دباؤ کا سامنا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف ایک قانونی نظیر کے طور پر یاد رکھا جائے گا بلکہ آئندہ کے لیے ایک مضبوط قانونی بنیاد بھی فراہم کرے گا کہ صحافت پر قدغنیں آئین اور قانون کی روح کے خلاف ہیں