اسلام آباد (ٹی این ایس) حضرت امام حسین علیہ السلام انسانیت اور صبر کا نام

 
0
48

اسلام آباد (ٹی این ایس) انسان کو بیدار تو ہو لینےدو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ یزید ظلم اور بربریت کا نام تھا جبکہ حضرت امام حسین علیہ السلام انسانیت اور صبر کا نام ہیں ۔اسلامی سال کے پہلے ماہ یعنی محرم الحرام میں نواسہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے خاندان کے ساتھ جو دل دہلا دینے والا سانحہ کربلا میں ہوا ہمارے دلوں میں اسکی یاد تازہ ہو جاتی ہے – کربلا کی داستان شہادت گلشن نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی ایک پھول پر مشتمل نہیں بلکہ تاریخ کے کسی بھی دور میں دنیا کربلا کی داستان کو نہیں بھلا سکتی ۔ سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنا کنبہ اللہ کے نام پر قربان کرکے اپنے نانا کے دین کو بچا نے کیلئے بے دریغ قربانیاں دیں اور اپنے پروردگار عالم کے حضور سرخرو ہوئے – امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کو رب تعالٰی نے بے پناہ حسن سے نوازا تھا جسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی – آپکا بچپن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جنت کی عورتوں کی سردار سیدہ فاطمہ علیہ السلام اور مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی عظیم اور پاکیزہ گود میں گزرا – حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے ” حسین علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں حسین علیہ السلام سے ہوں جو حسین علیہ السلام کو محبوب رکھتا ہے وہ اللہ کو محبوب رکھتا ہے ”
حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد شہادت دراصل دین اسلام کی آئینی عظمت کا نہ مٹنے والا نقش قائم کرنا تھا – ایک ایسے معاشرے کی تشکیل جس میں طاقت اور اقتدار کو حق نہ سمجھا جائے بلکہ حق کو حق سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے – امام عالی مقام علیہ السلام کا یہ اعلان تاریخ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اگر قرآن وسنت پر حکومت قائم نہ ہو تو ظالم اور جابرکا حکومت کرنا نہ صرف گناہ عظیم ہے بلکہ جو شخص اس حکمران کو دیکھے اور خاموش رہے اس کا شمار بھی ظالموں میں کیا جائے گا –
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
جس نے حق کربلا میں ادا کر دیا
جب پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کئی آزمائشوں سے گزارا تو آپ علیہ السلام ہر آزمائش پر پورے اترے۔اللہ نے فرمایا “میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بتاونگا” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا ( کیا) میری اولاد میں سے بھی ؟ ارشاد فرمایا ( ہاں مگر ) میرا وعدہ ظالموں کو پہنچتا ( البقرہ ) اللہ نے اس آیت مبارکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کرنے اور ان سے کامیابی سے گزرنے اور پھر اس پر انعام کا تذکرہ فرمایا ہے جو لوگ آزمائش سے بھاگ جاتے ہیں وہ پست رہتے ہیں اور جو لوگ آزمائش کو سینے سے لگاتے ہیں وہ عظیم ہو جاتے ہیں – آزمائش ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی، آزمائش میں اسی کو ڈالا جاتا ہے جس سے رب کریم پیار کرتے ہیں اور وہ اپنے محبوب بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے – پروردگار عالم نے حضرت ابراہیم علیہ سے پیار کیا،آزمائش میں ڈالا،وہ اپنے رب کی ہر آزمائش میں سرخرو رہے اور یہ سلسلہ آزمائش جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر آکر اختتام پذیر ہوا –
غریب وسادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسین علیہ السلام ،ابتدا ہے اسماعیل علیہ السلام
قافلہ کربلا کے سالار امام عالی مقام حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام اور دیگر شہدائے کربلا نے راہ حق میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دین اسلام کو رہتی دنیا تک قائم رکھنے کی سعادت حاصل کی – حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے کردار و عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ حق کی آواز کو بلند کرنا انسانی اقدار کا تحفظ اور دین کی سر بلندی ، پاسداری اور اپنے نانا کے دین کو تقویت اور تحفظ دینا ہے تاکہ دین محمدی کی سر بلندی قیامت تک قائم رہے – ظالم کے سامنے کھڑا ہونا اور اپنے پیاروں کی قربانی سے دریغ نہ کرنا ہی ظالموں کی غلامی سے نجات کا ذریعہ ہے – سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے کہ باطل قوت کے سامنے کبھی سر نہ جھکانا، حق اور سچ پر ڈٹے رہنا۔
لندن کے ایک مشہور مفکر لارڈ ہیڈ لے کے بقول “اگر حسین علیہ السلام میں سچا اسلامی جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو اپنی زندگی کے لمحات میں رحم وکرم ، صبر واستقلال اور ہمت و جوانمردی ہر گز عمل میں نہیں آسکتی تھی جو اج صفحہ ہستی پر ثبت ہے” امام حسین علیہ السلام اور انکے رفقاء کی قربانی ہر قوم کیلئے مشعل راہ و ہدایت ہے ۔ اسلام کی اس عظیم ترین قربانی اور بے نظیر شجاعت کی مثال نہیں ملتی – حضرت امام حسین علیہ السلام کا دین اسلام کی سر بلندی ، انسانی اقدار کا تحفظ اور حق کی آواز پر لبیک کہنا اسوہ پیمبری ، شیوہ شبیری ہے – امام حسین علیہ السلام اور انکے رفقاء کی شہادت کے بعد کسی بھی حکمران کو اہلبیت سے بیعت کرنے کا مطالبہ کرنے کی جرات نہ ہوئی – واقعہ کربلا گلشن نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیسیوں پھولوں کے مسلے جانے کی داستان ہے لہذا تاریخ کے کسی بھی دور میں امت مسلمہ واقعہ کربلا کی اہمیت کو فراموش نہیں کر سکتی مگر اس کے باوجود بعض نادان لوگ نادانی یا کم عقلی کے باعث یا اہلبیت کی محبت کی محرومی اور اپنی بد بختی اور بد قسمتی کے باعث بغض اہلبیت رکھتے ہیں اور معاذاللہ اس واقعہ کو دو شہزادوں کی جنگ قرار دیتے ہیں – واقعہ کربلا کو دو شہزادوں کی اقتدار کی خاطر جنگ قرار دینا بہت بڑا ظلم اور منافقت کی انتہا ہے اور اسلام کی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے مگر ان ناعاقبت اندیش اور بغض اہلبیت رکھنے والے ناعاقبت اندیش لوگوں کی ساری کوششوں کے باوجود بالآخر یہ کہنا پڑتا ہے ۔۔۔۔
قتل حسین علیہ السلام اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام جرات و عظمت کی نشانی ہیں – حق اور باطل کی یہ دو قوتیں زندگی میں رونما ہوتی رہتی ہیں مگر حق ہمیشہ قوت حسینی علیہ السلام سے زندہ ہوتا ہے اور باطل کو ہمیشہ شکست ہوتی ہے-حضرت امام حسین علیہ السلام کے خاندان اور رفقاء کی قربانیاں تا قیامت یاد رکھی جائیں گی کیونکہ آپ نے اللہ کے گھر کی عظمت و حرمت اور اپنے نانا کے دین کیلئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا اور ایک زندہ مثال قائم کردی کہ حق کے سامنے باطل کو ہمیشہ جھکنا پڑتا ہے – امام پاک علیہ السلام نے میدان کربلا میں جو اپنے خاندان کی عظیم قربانیاں پیش کی ہیں اس نے ثابت کر دیا ہے کہ باطل ہمیشہ مٹنے والا ہے خواہ اس کے پیچھے کتنی ہی بڑی قوت کار فرما کیوں نہ ہو – سانحہ کربلا میں روز عاشور کی قیامت خیزی کے بعد فرات کے دہکتے ہوئے ساحل پر آزمائشوں کے جو حوصلہ شکن اور قیامت خیز نقشے دکھائی دیئے ،صبح عاشور سے لیکر عصر تک جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا ایک کربناک اور ناقابل فراموش باب ہے –
گھر کا گھر سب سپرد خدا کر دیا
اس حسین ابن حیدر علیہ السلام پر لاکھوں سلام