اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان ریلوے ڈیڑھ سو سال پرانا انگریز کا بنایا ہوا نظام ہے، اس میں خلا ضرور موجود ہیں جنہیں وقت کے ساتھ بہتر کرنے کی کوشش جاری رہتی ہے اگرچہ ریل گاڑیوں کے بڑے حادثات ہو چکے ہیں لیکن اب تک یہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی دوسری محفوظ ترین سفری سہولت ہے خامیوں کے باجود پاکستان ریلوے اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس میں مکمل بہتری سی پیک کے تحت ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن کے بعد ہی ہوگی۔ جس سے ٹریک اور ٹرینوں کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا مالی سال 25-2024 میں پاکستان ریلویز نے آمدنی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 93 ارب روپے کی آمدن حاصل کرلی۔ ترجمان ریلوے کے مطابق ریلوے نے جون میں ختم ہونے والی مالی سال میں آمدنی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے 93 ارب روپے کی ریکارڈ آمدن حاصل کی۔ ملٹری ٹریفک سے ڈیڑھ ارب جبکہ دیگر کوچنگ ذرائع سے 3 ارب روپے کی آمدن ہوئی جبکہ متفرق ذرائع سے ساڑھے 9 ارب روپے حاصل ہوئے۔ ریلوے کی 78 سالہ تاریخ میں یہ آمدن کی بلند ترین سطح ہے، گزشتہ سال پاکستان ریلویز نے 88 ارب روپے کمائے تھے۔ مسافر ٹرین کے شعبے سے آمدن میں کراچی ڈویژن پونے 15 ارب روپے کی آمدن کے ساتھ سب سے آگے رہا، اسی طرح سوا 11 ارب سے زائد آمدن کے ساتھ لاہور دوسرے نمبر پر رہا، اس کے علاوہ مال بردار گاڑیوں میں کراچی نے 28 ارب اور ملتان نے ایک ارب روپے کمائے۔ وزیر ریلوے حنیف عباسی نے کہا کہ محدود وسائل کے ساتھ شاندار کارکردگی پر ریلوے انتظامیہ تعریف کی مستحق ہے، اگلے سال مال گاڑیوں سے70 فیصد تک انکم جنریشن ممکن بنائیں گے، انہوں نے کہا کہ اپنے مزدور کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے ادارے کے استحکام کے لیے خون پسینہ بہایا۔ریلوے انتظامیہ کے مطابق 30 مئی تک پاکستان ریلوے نے مسافر ٹرین آپریشنز سے 42 ارب روپے، مال بردار ٹرینوں سے 29 ارب روپے اور دیگر ذرائع سے 12 ارب روپے کمائے، جن میں زمین کی لیزنگ بھی شامل ہے۔ پی آر کی کراچی ڈویژن نے آمدنی کے لحاظ سے سب سے آگے رہتے ہوئے مسافر ٹرینوں سے 13 ارب روپے اور مال بردار ٹرینوں سے 25 ارب روپے کمائے، لاہور ڈویژن نے مسافر ٹرینوں سے 10 ارب روپے اور 75 کروڑ روپے کمائے، راولپنڈی اور ملتان ڈویژن نے مسافر ٹرینوں سے 4، 4 ارب روپے اور مال بردار ٹرینوں سے 8، 8 ارب روپے کی آمدنی حاصل کی 30 مئی تک حاصل شدہ 83 ارب روپے (11 ماہ میں) کی آمدنی پاکستان ریلوے کی تاریخ میں کبھی حاصل نہیں ہوئی، گزشتہ سال 30 مئی 2024 تک پی آر نے 77 ارب روپے کمائے تھے۔مالی سال جو 30 جون 2024 کو ختم ہوا تھاجس میں پاکستان ریلوے نے 88 ارب روپے کی آمدنی حاصل کی تھی، جو مالی سال 23-2022 کی 63 ارب روپے کی آمدنی کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ تھی۔ گزشتہ سال کی آمدنی میں 47 ارب روپے ٹکٹوں کی فروخت سے، 28 ارب روپے مال برداری سے، اور 13 ارب روپے ریلوے کی زمین کی لیزنگ اور دیگر ذرائع سے حاصل ہوئے تھے، مالی سال 19-2018 میں پی آر کی آمدنی 45 ارب روپے تھی، جو 21-2020 میں بڑھ کر 48.5 ارب روپے اور 23-2022 میں 63.5 ارب روپے ہو گئی تھی۔ آمدنی میں اضافہ مسافر اور مال بردار خدمات کی بہتری کی وجہ سے ممکن ہوا، حالانکہ محکمے کے پاس وسائل محدود تھے۔
یاد رہے کہ 7 اپریل 2025 کوریلوے نے پنجاب اور سندھ میں ریلوے اراضی پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر ریلوے حنیف عباسی نے3 ماہ میں ٹرینوں کی باقاعدگی 90 سے 95 فیصد تک لانے کا ٹاسک دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر سمیت کسی شخص کیلئےٹرین لیٹ نہیں ہوگی۔دوسری طرف 27 جون 2025 کووفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزارتِ ریلوے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور ریلوے کی ترقی کو پاکستان کی ترقی سے جوڑا جا رہا ہے۔ریلوے کی بروقت آمد و رفت کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور مسافروں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت کے ابتدائی 100 دن میں ریکارڈ کارکردگی دکھائی گئی ہے۔ لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشنوں کی حالت بہتر کی گئی ہے، جبکہ ابتدائی مرحلے میں 155 ریلوے اسٹیشنوں پر سولر پینلز نصب کیے جا رہے ہیں۔ اسٹیشنوں پر بین الاقوامی معیار کی عوامی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، واش رومز اور انتظار گاہوں کو بھی آرام دہ بنایا جا رہا ہے۔ریلوے کے متعدد کمپوننٹس کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور ریلوے نیٹ ورک کو تیزی سے وسعت دی جا رہی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کو باہم منسلک کیا جا رہا ہے تاکہ ملک بھر میں بہتر رابطہ قائم ہو سکے۔ وزیر ریلوے کے مطابق ٹرین کے سفر کو آسان ترین اور آرام دہ بنایا جا رہا ہے اور مسافروں کو طبی اور صحت سے متعلق سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ریلوے کے نظام میں بہتری لائی جا رہی ہے اور آنے والے دنوں میں ایک بڑا معاہدہ ہونے جا رہا ہے جس سے ریلوے میں جدیدیت آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ریلوے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش ادارہ بنایا جائے گا، اور اب پاکستان میں ہی جدید ٹرین تیار کی جا رہی ہے۔ریلوے کی اربوں روپے مالیت کی زمین کو واگزار کرایا گیا ہے، اور وزیر اعظم کو ماڈل ٹرین کا ڈیزائن بھی جلد پیش کیا جائے گا۔میڈیا سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں وزیر ریلوے نے دلچسپ انداز میں کہا تھاکہ جب کسی نے ان سے ریلوے کے بارے میں سوال کیا تھاتو وہ اسے ڈنر پر نہیں، بلکہ ریلوے اسٹیشن لے گئے تھےتاکہ خود مشاہدہ کرے کہ تبدیلی کیا ہوتی ہے۔دوسری طرف میں نے ذاتی طور پر پچھلے ہفتے اس کا مشاہدہ کیا تھا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ریلوےمسافروں کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں تھا۔یہاں تک کہ ایئر کنڈیشنر بوگی میں ایک بھی موبائل فون چارجنگ پوائنٹ مسافروں کے لیے دستیاب نہیں تھا۔میں نے راولپنڈی بکنگ آفس سے پاکستان ایکسپریس کے لیے ایئر کنڈیشنڈ سیٹ ریزرو راولپنڈی سے علی پور چھٹہ تک کر الی تھی پاکستان ایکسپریس جس کا مقررہ وقت 5 جولائی کی صبح 6 بجے راولپنڈی سے تھاریلوے انجن کو ایک گھنٹے بعد پاور وین کے ساتھ لگایا گیا جس کے درمیان مسافر خصوصاً بوڑھی خواتین اور بچےپریشان رہے جب ریلوے انکوائری عملے سے پوچھا گیا تو انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ ہمیں اس بارے میں نہیں معلوم ایک گھنٹہ تاخیر کیوں ہےپاکستان ایکسپریس ایئر کنڈیشن بوگی نمبر دو بری طرح زخمی تھی لیکن کراچی کے لیے ٹرین کے ساتھ لگایا گیا وزیر ریلوے تمام متعلقہ ریکارڈ چیک کر سکتے ہیں کہ پاکستان ایکسپریس ٹرین راولپنڈی سےبغیر کسی وجہ کے ایک گھنٹہ تاخیر سے کیوں روانہ ہوئی۔ پاور ٹرین کے ساتھ منسلک ہونے پر ٹرین کا ایئرکنڈیشن ٹھیک سے کام نہیں کر رہا تھا۔واش روم میں پانی نہیں آ رہا تھا میں نے اس ٹرین کے ٹرین گارڈ مسٹر بھٹی کوواضح طور پر بتایا دینہ کے قریب ایک ریلوے ملازم اسکائی بلیو شرٹ اورنیلے رنگ پینٹ میں ملبوس تھا اس نے مجھ سے دوسرے مسافر کے لیے سیٹ چھوڑنے کو کہا اور میں احتجاج کیا کہ میرے پاس راولپنڈی ریزرویشن آفس کی طرف سے سیٹ بک ہے لیکن اس نے مجھے سیٹ چھوڑنےکے لیے اصرار کیا اور کہا کہ بلیک مارکر نمبر درج ہیں میں نے کہا یہاں تین مختلف نمبر ہیں اورٹرین گارڈ مسٹر بھٹی نے میری رہنمائی کی میر ی ریزرویشن سیٹ ہے اور یہ آپ کا فرض نہیں کہ اس کے لیے مسافر سے پوچھیں۔ تھوڑی دیر بعد ٹرین گارڈ مسٹر بھٹی آیا اور کہا کہ ریزرویشن سیٹ اصغر علی مبارک کی بک ہے اور نئے مسافر سے کہا کہ تم ابھی آئے ہو اور ہم تمہیں اگلی بوگی میں جگہ دیں گے۔ ریلوے ملازم اس قسم کی سرگرمیاں روزانہ کر تے رہتے ہیں اسی دوران جب میں علی پور چٹھہ سے سات جولائی کو پاکستان ایکسپریس کے ذریعے واپس آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایئر کنڈیشنر کی بوگی ایک دوسرے کو جوڑنے کا دروازہ بری طرح خراب تھا اور میں نے اس بارے میں ٹرین کے گارڈ مسٹر عباسی کو بتایا جنہوں نے ویلڈنگ کے لیے کیریج سٹاف کو طلب کرنے کا وعدہ کیا لیکن سب بے سود رہا ۔کچھ دیر بعد جہلم کے قریب ٹوٹ گیا۔وزیرریلوے کو ریلوے کی بہتری کے لیے ایکشن لینا چاہیے۔دوسری طرف پاکستان ریلوے نے مسافروں کو بڑی خوشخبری سنائی ہے مسافر مفت وائی فائی، اور بین الاقوامی معیار کی ڈائننگ کی سہولت سے مستفید ہوسکیں گے۔ پاکستان ریلوے نے نئی جدید بزنس ٹرین چلانے کا اعلان کردیا ، 19 جولائی کو ایک جدید بزنس ٹرین کا افتتاح ہوگا۔نئی بزنس ٹرین میں 28 ڈیجیٹل کوچز، مفت وائی فائی، اور بین الاقوامی معیار کی ڈائننگ کار ہوگی۔لاہور میں ٹرین کا افتتاح وزیراعظم شہباز شریف کریں گے، نئی ٹرین کا افتتآح پاکستان ریلویز کو جدید بنانے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ ریلوے کو جدید بنانے میں ڈیجیٹل ٹکٹنگ، بہتر آن بورڈ سروسز، اور اپ گریڈ شدہ اسٹیشن کی سہولیات شامل ہیں ۔دریں اثناء پاکستان ریلوے نے مسافروں کی سہولت کے لیےنئی ایپ’’ٹریک مائی ٹرین‘‘ متعارف کروا دی۔یہ یاد رکھیں کہ پاکستان ریلوے کا سابقہ نام 1947ء سے فروری 1961ء تک شمال مغربی ریلوے اور فروری 1961ء سے مئی 1974ء تک پاکستان مغربی ریلوے تھا، حکومت پاکستان کا ایک محکمہ ہے جو پاکستان میں ریلوے خدمات فراہم کرتا ہے۔ پاکستان ریلویز کی حفاظت پاکستان ریلویز پولیس کرتی ہے جو وزارت ریلوے (پاکستان) کے تحت آتی ہے۔ ریلوے پولیس کا صدر دفتر لاہور میں واقع ہے۔ پاکستان ریلوے پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم ہے جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر آمد و رفت کی سستی تیز رفتار اور آرام دہ سہولیات فراہم کرتا ہے۔ موجودہ پاکستان میں ریلوے کا آغاز 13 مئی 1861ء میں ہوا جب کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 24 اپریل 1865ء کو لاہور – ملتان ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 6 اکتوبر 1876ء کو دریائے راوی, دریائے چناب اور دریائے جہلم پر پلوں کی تعمیر مکمل ہو گئی اور لاہور – جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 جولائی 1878ء کو لودهراں – پنوعاقل 334 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 27 اکتوبر 1878ء کو دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوٹری سے سکھر براستہ دادو اور لاڑکانہ ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ رک سے سبی تک ریلوے لائن بچھانے کا کام جنوری 1880ء میں مکمل ہوا۔ اکتوبر 1880ء میں جہلم – راولپنڈی 115 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا۔ 1 جنوری 1881ء کو راولپنڈی – اٹک کے درمیان 73 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ 1 مئی 1882ء کو خیرآباد کنڈ – پشاور 65 کلومیٹر طویل ریلوے لائن تعمیر مکمل ہو گئی۔ 31 مئی 1883ء کو دریائے سندھ پر اٹک پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پشاور – راولپنڈی سے بذریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 1885ء تک موجودہ پاکستان میں چار ریلوے کمپنیاں سندھ ریلوے، انڈین فلوٹیلا ریلوے، پنجاب ریلوے اور دہلی ریلوے کام کرتیں تھیں۔ 1885ء میں انڈین حکومت نے تمام ریلوے کمپنیاں خرید لیں اور 1886ء میں نارتھ ويسٹرن اسٹیٹ ریلوے کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں نارتھ ويسٹرن ریلوے کر دیا گیا۔ مارچ 1887ء کو سبی – کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر مکمل ہو گئی۔ 25 مارچ 1889ء کو روہڑی اور سکھر کے درمیان لینسڈاؤن پل کا افتتاح ہوا۔ اس پل کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد کراچی – پشاور سے بزریعہ ریل منسلک ہو گیا۔ 15 نومبر 1896ء کو روہڑی – حیدرآباد براستہ ٹنڈو آدم، نواب شاہ اور محراب پور ریلوے لائن کا افتتاح ہوا۔ 25 مئی 1900ء کو کوٹری پل اور 8 کلومیٹر طویل کوٹری – حیدرآباد ریلوے لائن مکمل ہو گئی۔ اس سیکشن کے مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان ریلویز کی کراچی – پشاور موجودہ مرکزی ریلوے لائن بھی مکمل ہو گئی۔ نارتھ ويسٹرن ریلوے کو فروری 1961ء میں پاکستان ويسٹرن ریلوے اور مئی 1974ء میں پاکستان ریلویزمیں تبدیل کر دیا گیا۔قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں تین مختلف براڈ گیج، میٹر گیج اور نیرو گیج ریلوے لائنیں استمال ہوتی تھیں۔ جن میں سے کچھ میٹر گیج اور نیرو گیج ریلوے لائنیں براڈ گیج میں تبدل کر دیں گیئں ہیں اور باقی بند ہو چکی ہیں۔ اب پاکستان ریلوے کے نظام میں صرف براڈ گیج ریلوے لائنیں استعمال ہو رہی ہیں۔لاہور-خانیوال لائن کو 25 کے وی اے سی پر برقی کیا گیا تھا، لیکن الیکٹرک سروس 2011ء میں بند ہو گئی تھی پاکستان ریلوے کے تین فعال یونٹس ہیں جن میں آپریشنز، مینوفیکچرنگ ویلفیئر اور خصوصی اقدامات۔ آپریشن یونٹ کو تین اہم محکموں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ انفراسٹرکچر ڈیپارٹمنٹ سول انجینئرنگ، سگنلنگ، ٹیلی کمیونیکیشن، ڈیزائن اور ڈائریکٹوریٹ آف پراپرٹی کی نگرانی کرتا ہے۔ مکینیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ مکینیکل انجینئرنگ، پرچیزنگ، اسٹورز اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی نگرانی کرتا ہے اور ٹریفک ڈیپارٹمنٹ مسافروں کی سہولیات، آپریشنز، مارکیٹنگ اور ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نگرانی کرتا ہے۔ عملہ، ریلوے پولیس، منصوبہ بندی، قانونی امور، تعلقات عامہ اور پاکستان ریلوے اکیڈمی سمیت کئی چھوٹے محکمے بھی آپریشن یونٹ کا حصہ ہیں۔پاکستان ریلویز کی ٹرینوں کی رفتار زیادہ سے زیادہ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ کراچی – لاہور ریلوے سیکشن کے کچھ حصوں پر ٹرینں 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلتیں ہیں۔پاکستان بھارت, ایران اور ترکی سے بذریعہ ریل منسلک ہے۔ پاکستان کا افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک ریلوے ٹریک بچھانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔موجودہ چین کے ساتھ کوئی ریل رابطہ نہیں ہے۔ خنجراب ریلوے یا قراقرم ریلوے، پاکستان کے گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کو براستہ درہ خنجراب عوامی جمہوریہ چین کے خود مختار علاقے شنجیانگ سے ملانے کا ایک منصوبہ ہے۔ پاکستان اورافغانستان نے علاقائی رابطے بڑھانے کے لیے ازبکستان، افغانستان، پاکستان ریلوے منصوبے کے معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق کر لیاہے رپورٹ کے مطابق یہ اتفاق رائے اسلام آباد میں افغانستان اور پاکستان کی خارجہ امور کی وزارتوں کے ایڈیشنل سیکریٹریز کی سطح پر مذاکرات کے پہلے دورمیں ہوا، واضح رہے کہ پاکستان ریلوے اپنے تمام تر وسائل کے استعمال اور اقدامات کے باوجود مسافر اور مال بردار ٹرینوں کو حادثات اور پٹڑیوں سے اترنے سے نہ بچا سکا اور آئے روز ٹرینوں کے ڈی ریل ہونے سے مسافروں کومشکلات کا سامنا ہورہا ہے۔ سکھر میں 5 جولائی 2025 ریلوے حادثہ میں ٹرین کی چھت پر سوار مسافر بجلی کے تار سے ٹکرا گئے مسافر جیکب آباد سے کراچی جانے والی سکھر ایکسپریس کی چھت پر سوار تھے، آرائیں ریلوے اسٹیشن کے قریب واقعہ پیش آیا۔اس سے قبل ریلوے حکام کا کہنا تھا کہ میرپور ماتھیلو مال گاڑی حادثے کی وجہ سے ٹرینوں کی آمدورفت میں 14 گھنٹوں تک کی تاخیر ہوئی گرین لائن 10 گھنٹے تاخیر سے کراچی کینٹ پہنچی، پشاور سے آنے والی عوام ایکسپریس 10 گھنٹے اور رحمان بابا ایکسپریس 4 گھنٹے تاخیر سے کراچی آئی۔ سرگودھا سے آنے والی ملت ایکسپریس 12 گھنٹے تاخیر سے کراچی لاہور سے آنے والی فرید ایکسپریس 13 گھنٹے، قراقرم ایکسپریس 13 گھنٹے تاخیر سے پہنچی، کراچی اور لاہور کے درمیان چلنے والی شاہ حسین کو منسوخ کردیا گیا ہے، 6 گھنٹے سے زائد تاخیر پر مسافروں کو ٹکٹ کی پوری رقم واپس کی گئی۔ اعدادوشمار کے مطابق یکم جنوری سے لے کر رواں ماہ 5 جولا ی تک مسافر اور مال بردار ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے اور مختلف نوعیت کے 47 حادثے رونما ہو چکے ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق مسافر ٹرینوں کے پٹڑیوں سے اترنے کے 24 حادثات، مال بردار ٹرینوں کے 20 اور 3 دیگر حادثے شامل ہیں، جعفر ایکسپریس ٹرین کو تخریب کاری کا نشانہ بھی بنایا گیا اور ان حادثات میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ حادثات کی وجہ سے پاکستان ریلوے کے انفرا اسٹرکچر کو بھی کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا، 21 مئی کو کراچی سے لاہور جانے والی ٹرین شالیمار ایکسپریس کو سیاں والا دارلحسان کے قریب حادثہ پیش آیا۔ ٹرین ان مینڈ لیول کراسنگ پر اینٹوں والے ٹرالے سے ٹکرا گئی، جس سے ٹرین کی تمام 15 کوچز پٹڑی سے اتر گئیں۔ بعد ازاں 30 مئی کو رحمان بابا ایکسپریس ٹرین ان مینڈ لیول کراسنگ پر ٹرالے سے ٹکرا گئی، یکم جون کو پاکستان ایکسپریس کو مبارک پور کے قریب حادثہ پیش آیا، ٹرین کی ڈائننگ کار کے نیچے سے پوری ٹرالی نکل گئی تاہم ٹرین بڑے حادثے سے بال بال بچ گئی۔ اسی طرح 14 جون کو ٹرینوں کے تین حادثات پیش آئے، پشاور جانے والی ٹرین خوش حال خان خٹک ٹرین کی 6 بوگیاں کندھ کوٹ کے مقام پر پٹڑی سے اتر گئیں، اسی روز علامہ اقبال ایکسپریس ٹرین بھی بڑے حادثے سے بچ گئی، ٹرین کے چلتے چلتے بریک بلاک میں خرابی پیدا ہو گئی۔ کے علاوہ تھل ایکسپریس ٹرین کار سے ٹکرا گئی،18 جون کو جعفر ایکسپریس کو جیکب آباد کے قریب تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا، ریلوے ٹریک کو دھماکا خیز مواد سے اڑا دیا گیا، ٹرین کی 5 بوگیاں پڑی سے اتر گئیں۔ علاوہ ازیں چلتی ٹرینوں کے ائیر کنڈیشنرز خراب اور انجن ہیٹ اپ ہونے کی وجہ سے بھی کئی ٹرینوں کو دوران سفر روکنا پڑا، پاکستان ریلویز اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ٹرینوں کی ڈی ریل منٹ کو نہیں روک سکا اس کی وجہ زیادہ تر ریلوے ٹریک کی خستہ حالی ہے۔ بعض ریلوے ٹریک تو سو سوا سو سال سے بھی پرانے ہیں جن کو معمول کی مرمت اور دیکھ بھال کر کے استعمال کے قابل بنایا گیا ہے













